عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد، اور سیاست کے سرکس کا رنگ ماسٹر

عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد، اور سیاست کے سرکس کا رنگ ماسٹر
سیاست کے ہنگام میں اکثر ہم درخت دیکھ کر جنگل کو بھول جاتے ہیں۔ کبھی کبھی ضروری ہوتا ہے کہ کچھ فاصلے سے جنگل کا مشاہدہ کیا جائے، غور کیا جائے کہ اس میں آگ کیوں لگی، اس میں ہر وقت آگ لگنے کا دھڑکا کیوں رہتا ہے، اور بار بار یہ آگ لگتی کیوں ہے، یہاں تک کہ یہ پورے جنگل کی بقا کے لئے ہی خطرہ بن جاتی ہے؟

2050 تک پاکستان دنیا کا تیسرا سب سے زیادہ گنجان آباد ملک بن چکا ہوگا اور اس کی آبادی 38 کروڑ ہوگی جس میں زیادہ تر لوگ غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہے ہوں گے۔ جو پاکستانی اس آبادی کو بڑھانے کے لئے کوشاں ہیں وہ یہ سب کچھ باہر سے درآمد شدہ خوراک پر کر رہے ہیں۔ اور اس سے پہلے کہ آپ چاکلیٹ اور پنیر کی درآمد پر ناک بھوں چڑھائیں، آپ کو بتاتے چلیں کہ ہماری دال بھی درآمد شدہ ہے، اور وہ تیل بھی جس میں اس کو پکایا جاتا ہے۔ ہماری برائلر مرغی کو جو خوراک دی جاتی ہے وہ بھی باہر سے آتی ہے حتیٰ کہ نان کے لئے گوندھا جانے والا آٹا بھی درآمد شدہ اشیا سے بنتا ہے۔

ہمارا ملک خوراک کی کمی کا شکار ہے، باوجود اس کے کہ زراعت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ کسی زمانے میں ہماری مانی ہوئی جنس کپاس بھی آج خطے کے دوسرے ممالک سے مقابلہ کرنے میں مشکلات کا شکار ہے۔ اپنے بیج کے معیار اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے بغیر ہماری کپاس کی فصل اب محض درمیانے درجے کی چیزیں بنانے کے قابل ہے۔ حکومت کی طرف سے کسانوں کو کلیدی اہمیت کی حامل اجناس پیدا کرنے کی کوئی ترغیب نہیں دلائی جا رہی اور نتیجتاً وہ کھیتوں پر کھیت محض گنا اگانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں جو بے حساب پانی کے بغیر ممکن نہیں اور اس جنس پر حکومت کاکنٹرول رجعت پسندانہ جب کہ چینی کی انڈسٹری چند ارب پتیوں کی خواہشات کے تابع ہے جو اپنے ذاتی جہاز رکھتے ہیں۔

پاکستان سالانہ ٹیکس اور دیگر مدوں میں 8000 ارب روپے کماتا ہے۔ فرض کریں یہ ایک نان ہے۔ اس میں سے تقریباً آدھا سیلز ٹیکس اور قدامت پرست ٹیکس نظام کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے جو غریب اور امیر میں کوئی تمیز نہیں کرتا۔ اس نان کا آٹھواں حصہ انکم ٹیکس سے حاصل ہوتا ہے، جو کہ قریب دس لاکھ مجبور افراد ادا کرتے ہیں کیونکہ ان کا ٹیکس کٹنے کے بعد ان کی تنخواہ ان کے اکاؤنٹ میں آتی ہے۔ یہ یا تو بہت ہی کمزور ہیں یا پھر ٹیکس نیٹ میں اتنی بری طرح پھنسے ہوئے ہیں کہ ادائیگی کیے بغیر ان کی جان نہیں چھوٹتی۔ یہ مجبور لوگ بچگانہ حرکتیں کرتے ہیں، مثلاً انگریزی اخبار اپنے گھروں پر لگا رکھے ہیں جب کہ ان کے ہمسائے دکاندار واٹس ایپ سے خبریں پڑھتے ہیں، بڑی بڑی گاڑیاں چلاتے ہیں، اور اپنی آمدنی چھپا کر ٹیکس سے بھی جان چھڑا لیتے ہیں۔ ایک چوتھائی نان ٹیکس کے علاوہ مدوں میں جمع ہوتا ہے؛ اور آخری آٹھواں حصہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور مختلف لیویز سے حاصل ہوتا ہے جیسے کہ پٹرولیم پر عائد کردہ لیویز وغیرہ۔

جب یہ پیسہ خرچ کرنے کی بات آتی ہے تو پاکستان آدھے نان سے کچھ کم صوبوں کو دے دیتا ہے جن کے پاس 18ویں ترمیم کے بعد کہیں زیادہ ذمہ داریاں ہیں لیکن انہوں نے نہ تو ریونیو اکٹھا کرنے کے نئے طریقے دریافت کیے ہیں اور نہ ہی اختیارات اور وسائل کو بلدیاتی حکومتوں کی سطح تک منتقل کیا ہے۔ اس کے بعد ہم تقریباً آٹھ میں سے تین حصے اپنے قرض کی ادائیگی میں دے دیتے ہیں۔ جن کی ریاضی ٹھیک ہے وہ سمجھ گئے ہوں گے کہ اس سب کے بعد ہمارے پاس محض ایک نان کا آٹھواں حصہ بچتا ہے اور اس میں سے زیادہ تر فوج کو چلا جاتا ہے۔ پھر ہم حکومت چلانے اور پنشن کی ادائیگی کے لئے مزید قرض لیتے ہیں۔

لہٰذا پہلے دن سے ہی ہم نئے قرض لینا شروع کر دیتے ہیں اور قرض ہی کا نان کھاتے ہیں۔ ہماری معیشت کو غیر ہنرمند مزدور طبقے کی جانب سے اپنے گھروں کو بھیجی گئی ترسیلات چلاتی ہیں۔ یہ مزدور طبقہ اپنے خون پسینے سے غیر ملکی صحراؤں کو سرسبز کر رہا ہے اور وہاں ایسے حالات میں زندہ ہے جسے غلامی کی جدید شکل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

دیگر ممالک اس طرح کے گرداب سے نکلنے کے لئے اپنے عوام کی تعلیم اور ملکی معیشت میں ان کی شمولیت کو یقینی بناتے ہیں۔ ہمارا بنیادی تعلیم کا نظام بدترین حالت کو پہنچا دیا گیا ہے جب کہ ہمارا اعلیٰ تعلیم کا نظام غیر ضروری ڈگریاں پیدا کر رہا ہے بجائے ہنر مند افراد کے۔ ہمارا نظامِ تحقیق ڈپلوموں کی فیکٹری ہے جس سے دو نمبر جرنل بے کار تحقیق شائع کر کے لوگوں کو PhD کی ڈگریاں دلوا رہے ہیں۔

اگر آپ طاقت کے استعمال کی دھمکی کو ایک جنس تصور کریں تو یہ ہماری سب سے بڑی پیداوار ہے اور بین الاقوامی دنیا کے لئے ہماری واحد bargaining chip۔ ہم دنیا کو اپنی تخریب کاری کی صلاحیت سے ڈراتے ہیں اور اس کو قابو میں رکھنے کی جو بھی قیمت دنیا ادا کرنے کو تیار ہو وہ لے کر گھر آ جاتے ہیں۔ وہ ادارے جو طاقت کے اس استعمال پر قدرت رکھتے ہیں ان کے سربراہان جانتے ہیں کہ اس سارے چکر کو وہی چلا رہے ہیں، ان کے پاس بے انتہا اختیارات ہیں، وہ بہت سے لوگوں کی قسمتوں کے مالک ہیں، اور اپنی قسمتوں کے بھی۔

ہمارے موجودہ نظام کے اصل کرتا دھرتا لاکھوں ڈالرز کے ریٹائرمنٹ پیکج لیتے ہیں، انہیں ان کی خدمات کے صلے میں سرکاری زمین عطا کی جاتی ہے اور کم قیمتوں پر ڈیوٹی فری گاڑیاں فراہم ہوتی ہیں۔ ان کی تفنن طبع کی خاطر پہاڑ کاٹ کر گالف کلب بنائے جاتے ہیں؛ جھیلوں کے کنارے خوبصورت مناظر کی حامل وادیاں ان کے سیلنگ کلبز کے لئے مختص ہوتی ہیں۔

ہماری ملکی معیشت میں فوج سب سے بڑی کھلاڑی ہے۔ میں کہہ دیتا کہ ہماری سیاست کی سب سے بڑی کھلاڑی بھی فوج ہے لیکن پھر یہ اخبار شاید یہ بات شائع نہ کرے اور بطور سزا مجھے لمز میں ایک سیمینار میں جانا پڑے جہاں حال ہی میں ایک طنزیہ مضمون کے مطابق منیجمنٹ سائنسدان نے دورہ کیا اور پورا دن بات کی۔

اس سارے کھیل میں ایک وزیر اعظم کے خلاف ایک عدم اعتماد کی تحریک بہت چھوٹی سی چیز دکھائی دیتی ہے۔ ایک بہت بڑے سرکس میں ایک چھوٹی سی trick۔ اور جب یہ بھی صاف ہو کہ عدم اعتماد کا یہ سارا کھیل انہی لوگوں کی مداخلت سے کھیلا جا رہا ہے جن کو اس وزیر اعظم کو لانے کے الزام میں بہت شدید تنقید کا سامنا رہا ہے تو یہ تماشا اور بھی کھل کر واضح ہو جاتا ہے۔

اپوزیشن جو پہلے ہمارے سیاسی سرکس سے صادق سنجرانی نامی گھوڑے کو ہٹانے میں ناکام رہی تھی اسے بھی اب سمجھ آ گئی ہے کہ ٹکٹ گھر ہے کہاں۔ ہر کوئی اپنے بڑے بڑے نعروں کی قربانی دینے کے لئے تیار ہے، بس اسے ایک ٹکٹ مل جائے جب کہ رنگ ماسٹر سب کو بڑے بڑے گھوڑوں کے وعدہ فردا دے رہا ہے تاکہ اس کا سرکس جاری رہے۔

اگر میں اس منیجمنٹ سائنس ٹیم کا حصہ ہوتا جو پاکستان کے سرکس کو چلا رہی ہے تو اپنے ساتھیوں کو مشورہ دیتا کہ ہوش میں آئیں اور سر پر کھڑی مشکل کو دیکھیں: وہ غربت جو اس سرکس کی باؤنڈری کے باہر کھڑی ہے۔ زیادہ وقت نہیں کہ تمام برائیوں کا حل ایک بار پھر مذہب اور تشدد کو قرار دیا جا رہا ہوگا۔ پچھلی مرتبہ ہم امریکہ سے پیسے لے کر روس کے خلاف صف آرا ہوئے تھے اور یہ پیسہ بعد ازاں سوئس بینکوں میں پڑا ملا۔ لیکن اس بار اس تباہی کی کوئی سمت یا شکل نہیں ہوگی، نہ ہی اسے یہ فکر ہوگی کہ آگ بجھنے تک جنگل میں بچے گا کیا۔




عبدالمعز جعفری کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔

عبدالمعز جعفری قانون دان ہیں اور مختلف آئینی و قانونی معاملات پر کالم لکھتے ہیں۔ ان کے مضامین انگریزی روزنامے Dawn میں شائع ہوتے ہیں۔