وہ کوئی نیا غیر آئینی 'سرپرائز' دے سکتے ہیں۔ لیکن پروجیکٹ عمران تمام ہوا

وہ کوئی نیا غیر آئینی 'سرپرائز' دے سکتے ہیں۔ لیکن پروجیکٹ عمران تمام ہوا
عمران خان مایوسی کے عالم میں کچھ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کا کام تمام ہو چکا ہے۔ ملکی سیاسی صورتحال اور عالمی منظرنامے کو دیکھیں تو ان کے واپس آنے کی بھی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔ وہ 70 سال کے ہو چکے ہیں، انتہائی خود پسند ہیں اور اپنے افسوسناک انجام کے خود ذمہ دار ہیں۔ بہت سے لوگ نہیں جانتے لیکن ان کو بنانے اور اب مٹانے والی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ اپنے فروری 1995 کے شمارے میں ہیرالڈ رسالے نے لکھا تھا: "پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے کلیدی کردار، ذرائع کے مطابق، اس گروپ کو تیسری نہیں بلکہ دوسری قوت کے طور پر دیکھتے ہیں، اور عمران خان کو نواز شریف کا متبادل، ایک نئی PPP مخالف قوت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، اگر شریف اور ان کی مسلم لیگ یہ نہ کر پائے"۔ یہ مضمون 1995 میں شائع ہوا تھا۔ سابق ISI سربراہ حمید گل عمران خان کے ابتدائی پشت پناہوں میں سے تھے۔ پھر ان کے آپس میں اختلافات ہو گئے۔ لیکن پروجیکٹ عمران اس وقت مشکلات کا شکار ہو گیا جب 1999 میں مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ مشرف اقتدار پر لمبے عرصے کے لئے قابض رہنا چاہتے تھے اور انہیں عمران خان کی ضرورت نہیں تھی لیکن پھر بھی عمران نے ایک آرمی چیف کی ایک شدید دھاندلی زدہ ریفرنڈم میں بھرپور حمایت کی۔ عمران نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کی بھی حمایت کی۔ لیکن جب مشرف نے انہیں 100 سیٹیں دینے سے انکار کیا تو وہ ان کے خلاف ہو گئے۔

Imran Khan Hameed Gul

جو لوگ اس وقت عمر میں بہت چھوٹے تھے اور انہیں میری بات کا یقین نہیں آ رہا، وہ یہ ویڈیو دیکھ سکتے ہیں جس میں عمران خان دہشتگردی کے خلاف جنگ کی حمایت کر رہے ہیں اور پرویز مشرف کے حق میں بول رہے ہیں۔



2002 کے انتخابات کے بعد عمران خان مشرف کی حمایت نہ ملنے پر سیاسی طور پر غیر اہم ہو چکے تھے کیونکہ بینظیر بھٹو کی PPP نے سب سے زیادہ ووٹ لیے تھے (گو نشستیں نہیں) اور مشرف نے اپنی تمام تر توجہ PPP کے کچھ ارکان کو دھونس اور بلیک میل کے ذریعے اپنے ساتھ ملانے پر مرکوز کر لی تھی۔ عمران خان صرف ایک سیٹ جیت سکے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق مشرف کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز نے عمران خان کو کہا تھا کہ اگلی بار وہ یہ ایک سیٹ بھی نہیں جیتیں گے۔

2002 سے 2007 تک عمران خان صرف ٹی وی سکرین پر زندہ تھے، وہ بھی چند دوست اینکرز کی مدد سے۔ نواز شریف جلا وطنی میں تھے اور بینظیر بھٹو نے خود کو بلاشبہ سب سے مقبول لیڈر کے طور پر منوا لیا تھا، گو کہ وہ بھی ملک سے باہر تھیں۔ عمران کہیں نہیں تھے۔

نومبر 2007 میں جب وہ پنجاب یونیورسٹی میں وکلا تحریک کے حق میں بات کرنے کے لئے گئے تو وہاں انہیں جماعت اسلامی کے حمایوں نے بری طرح زد و کوب کیا۔



عمران خان کی سیاست اس وقت چمک اٹھی جب مئی 2011 میں اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر امریکہ حملے کے بعد فوج کے تعلقات صدر آصف علی زرداری کے ساتھ بہت خراب ہو گئے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل پاشا نے اپنی ناکامی سے توجہ ہٹانے کے لئے 'میموگیٹ' کی کہانی گھڑ لی۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی فورسز ایبٹ آباد میں گھس آنے والے ہیلی کاپٹرز کا سراغ نہیں لگا سکی تھیں۔ انہیں ایک بلی کا بکرا چاہیے تھا اور وہ PPP تھی۔ یہ ایک بے سر پیر کی کہانی تھی جس کے مطابق ایک 'CIA ایجنٹ' حسین حقانی کو ایک مبہم شہرت کے حامل پاکستانی امریکی کاروباری شخص منصور اعجاز کے ذریعے ایک سینیئر امریکی فوجی عہدیدار تک رسائی حاصل کرنا پڑی۔ گو کہ جنرل پاشا کو بعد میں زرداری سے معافی مانگنا پڑی لیکن کہانی عوام میں چلتی رہی۔ عمران نے جنرل پاشا کی مدد اکتوبر 2011 میں لاہور میں ایک جلسے میں اس 'میمو گیٹ' سازش کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے کی۔ اسی دوران عمران نے امریکیوں سے تعلقات بنائے اور نومبر 2011 میں پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون منٹر سے ملاقات کی۔ سنڈے ٹائمز نے رپورٹ کیا (گو کہ بعد میں اس کی تردید کی گئی تھی) کہ اس ملاقات میں جنرل پاشا بھی موجود تھے۔ یوں جنرل حمید گل کے لگائے پروجیکٹ عمران کو 2011 میں ایک نئی زندگی ملی۔ جولائی 2012 میں عمران خان کے قریبی دوست نعیم الحق نے مجھے PTI میں شمولیت کی دعوت دی اور یہ راز بتایا کہ اپریل 2012 میں جنرل پاشا نے عمران خان کے ساتھ ایک طویل ملاقات کی تھی اور انہیں اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا تھا۔

2013 کے انتخابات میں نواز شریف نے 125 نشستیں حاصل کیں، PPP نے 31 اور PTI نے 27۔ اگرچہ PTI کو PMLN کے مقابلے میں محض آدھے ووٹ ملے تھے، عمران نے دعویٰ کیا کہ الیکشن چوری کیا گیا ہے۔ انہوں نے مبینہ دھاندلی کے خلاف ایک مہم شروع کی اور دعویٰ کیا کہ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی نے نواز شریف کو فون کال کر کے یقین دلایا تھا کہ '35 پنکچر' لگا دیے ہیں۔

اس فون کال کے بارے میں اطلاع PTI چیئرمین کے چیف آف سٹاف نعیم الحق کی 2014 کی ایک ٹوئیٹ کے مطابق ایک بڑی مغربی طاقت کے سفیر کی جانب سے آئی تھی۔

https://twitter.com/naeemul_haque/status/430314112015695872

دھاندلی کے یہ الزامات بالکل لغو تھے۔ چند سالوں بعد یہ 35 پنکچر والی کہانی ثابت ہوا کہ خود سے گھڑی گئی تھی۔ 2021 میں اس کہانی کو پھیلانے والے اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود نے نجم سیٹھی سے آن ایئر معافی مانگی۔ لیکن 2014 میں عمران خان نے اس جھوٹ کو پوری طرح استعمال کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو اسلام آباد میں ایک دھرنے کے لئے منظم کیا، اور ان کی معاونت اسٹیبلشمنٹ کے ایک پرانے ہرکارے طاہر القادری کر رہے تھے جو ہر تھوڑے عرصے کے بعد پاکستانی سیاست میں در آتے اور پھر واپس اپنی مستقل رہائش گاہ کینیڈا چلے جاتے۔

اس دھرنے کے پیچھے مبینہ طور پر اس وقت کی ISI چیف جنرل ظہیر الاسلام کا ہاتھ تھا۔ نواز شریف نے خود بھی بعد میں الزام لگایا کہ ظہیر الاسلام نے انہیں استعفا دینے کو کہا تھا۔ ظہیر نے اس کی تردید کی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عمران نے خود اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھی ملاقات کی تھی۔

ایک واقفِ حال کے مطابق جب عمران خان نے راحیل شریف سے ملاقات کی تو انہوں نے اپنی شہادت کی انگلی اٹھا کر کہا کہ 'دیکھو راحیل شریف، لوگ میرے ساتھ ہیں اور وہ تبدیلی چاہتے ہیں'۔ جنرل راحیل شریف اس پر نالاں ہوئے اور انہوں نے ظہیر الاسلام کو کہا کہ وہ یہ دھرنا ختم کریں جس کے دوران عمران خان کے حامیوں نے پارلیمان پر بھی حملہ کر دیا تھا۔

اگرچہ نواز شریف انہیں نکالنے کی اس کوشش میں بچ نکلے لیکن اسٹیبلشمنٹ میں بہت سے لوگ صرف دوبارہ حملے کے وقت کا انتظار کر رہے تھے۔ CPEC پر کس کا کنٹرول ہوگا، اس پر شکوک پیدا ہوئے اور اس سے نواز شریف اور اس وقت کی اعلیٰ فوجی قیادت میں شدید اختلافات ہوئے۔

ایک سابق سفیر (جو اب اکثر ٹی وی پروگرامز میں موجود ہوتے ہیں) نے مجھے بتایا تھا کہ راحیل شریف نے نواز شریف کو کہا تھا کہ انہیں فیلڈ مارشل بنا دیا جائے۔ لیکن نواز شریف نے انکار کر دیا۔ جب اپریل 2016 میں پاناما پیپر ریلیز ہوئے تو نواز شریف کی بیرونی کمپنیوں کے انکشاف نے ان کے مخالفین کو ایک بڑا موقع فراہم کر دیا۔

ایجنسیوں اور ججز نے مبینہ طور پر نواز شریف کو ایک متحدہ عرب امارات کا اقامہ رکھنے کی کمزور بنیاد پر سزا دی۔ جولائی 2017 میں انہیں باقاعدہ نااہل قرار دے دیا گیا۔ پچھلے پانچ سال میں، جن میں سے ساڑھے تین سال عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم تھے، نواز شریف کے خلاف کرپشن کا ایک بھی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔

نواز شریف کی نااہلی اور PMLN کے لئے پیدا ہوئی مشکل نے عمران خان کے لئے راستہ صاف کر دیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے عہدے کے تقاضوں کا رتی برابر بھی احساس نہ کیا۔ جولائی 2018 میں انہوں نے الیکشن مہم کے دوران شیخ رشید کے حلقے کا دورہ کیا اور ایک اسپتال کا افتتاح کیا۔ شیخ رشید PTI کے ایک حلیف تھے اور بعد میں عمران خان کی کابینہ میں وزیر بن گئے۔ شیخ رشید نے جنرل ضیا کے بعد سے ہر فوجی آمر کا ساتھ دیا ہے اور ان پر الزام ہے کہ 1970 کی دہائی میں اپنے کالج کے دنوں سے ایجنسیوں کے پے رول پر ہیں۔ جہانگیر ترین نے عمران خان کی الیکشن مہم میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ ایک سابق ISI سربراہ اختر عبدالرحمان کے رشتہ دار اور شوگر ملز سمیت ایک بڑے کاروبار کے مالک ہیں۔



جہانگیر ترین ان لوٹوں کو عمران خان کی پارٹی میں لانے میں پیش پیش تھے جو 'صحیح اشارے' ملنے پر بار بار پارٹیاں تبدیل کرتے ہیں۔ یوں اسٹیبلشمنٹ، ججز اور مشہور لوٹوں کے ایک طاقتور اتحاد نے عمران کو اقتدار دلوایا۔

اس کے باوجود، وہ اکثریت حاصل نہیں کر سکے۔ PTI صرف 31 فیصد ووٹ لے سکی اور پارلیمنٹ میں 149 نشستیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ہی وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے جب MQM جیسی جماعتوں سے زبردستی ان کی حمایت کروائی گئی۔

فردوس شمیم کراچی سے PTI کے رکن قومی اسمبلی ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک فوجی افسر نے انہیں کہا تھا کہ کراچی سے PTI ان کی سوچ سے زیادہ سیٹیں جیتے گی۔ فردوس نے ان سے درخواست کی کہ ضرورت سے زیادہ مہربان نہ ہوں۔ عمران خان اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کی مکمل حمایت سے حکومت میں آئے۔ میڈیا میں جو ان کی دی ہوئی لائن پر نہیں چلتا تھا، اسے ایجنسیوں کا قہر برداشت کرنا پڑتا۔ چوٹی کے صحافیوں اور عالمی اداروں نے ان کے دور کو میڈیا کی آزادی کے حوالے سے جنرل مشرف کے دور سے بھی بدتر قرار دیا۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کی اس قدر حمایت کے باوجود، ہوا کیا؟

اسٹیبلشمنٹ کو پہلا مسئلہ تب ہوا جب عمران خان اور ان کے وزیر خزانہ نے معیشت چلانے میں اپنی ناتجربہ کاری اور نااہلی ظاہر کی۔ انہوں نے بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو ایک بڑے بیرونی قرض کے بحران میں تبدیل کر دیا۔ عمران کو کہا گیا کہ وہ اسد عمر کو فارغ کر کے تجربہ کار معیشت دان حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ لگائیں۔ وقت کا ستم دیکھیے کہ حفیظ شیخ اس سے قبل زرداری حکومت میں اسی عہدے پر کام کر چکے تھے۔

دوسری مرتبہ تشویش اس وقت پیدا ہوئی جب انہوں نے ملائشیا میں اسلامی ممالک کے اجلاس میں شرکت کا وعدہ کر لیا اور پھر سعودی عرب کی ناراضگی کے ڈر سے اس وعدے پر U-turn لیا۔ یہ ایک بڑی غلطی تھی کیونکہ سعودیوں نے پاکستان کو ماضی میں متعدد مرتبہ مشکل وقت میں بھاری رقوم فراہم کی تھیں۔ بہت سے سینیئر عہدیداروں نے انہیں ایک بے سمت میزائل کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا۔

ایک سابق کور کمانڈر نے مجھے کہا، "ہمیں اب دیکھنا ہوگا کہ یہ سب کہاں جا رہا ہے اور ہمیں عمران خان کا کیا کرنا ہے"۔ ان ہی صاحب نے مجھے پھر کہا کہ PPP خواہ ہمیں کتنی ہی بری لگتی ہو، حقیقت یہی ہے کہ یہ پاکستان کی سب سے منظم اور حقیقی سیاسی جماعت ہے"۔ میں مسکرا دیا۔

تاہم، عمران خان سمجھتے تھے کہ وہ ناگزیر ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی متبادل نہیں۔ انہوں نے مبینہ طور پر گورنر ہاؤس لاہور میں جنرل باجوہ کی مدت ملازمت ختم ہونے سے پہلے ہی انہیں برطرف کرنے کے بارے میں کچھ بات کی اور اصرار کیا کہ کیوں نہیں۔ شاید یہی اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا۔

مصنف برطانیہ میں مقیم انوسٹمنٹ منیجر ہیں۔