پی ٹی آئی پشاور جلسے کا آنکھوں دیکھا حال

پی ٹی آئی پشاور جلسے کا آنکھوں دیکھا حال
اب یہ بات تو عام لوگوں کو بھی معلوم ھے کہ اقتدار سے بے دخلی کے بعد یہ جلسہ عمران خان کی پہلی انٹری تھی. لیکن عمران خان کی اعتماد کی کمی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس مقصد کے لئے انہوں نے خلاف معمول پشاور ھی کا انتخاب کیا کیونکہ یہاں پی ٹی آئی یعنی عمران خان کی پارٹی ہی برسر اقتدار ہے اور در حقیقت عمران خان انتظامی طاقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مقبولیت ثابت کرنا چاہتے تھے۔

حالانکہ اقتدار سے بے دخلی کے فوری بعد کسی وزیراعظم نے پشاور کا رخ کرنے کی بجائے ہمیشہ پنجاب خصوصا لاہور کا رخ کیا، مثلاً ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب کابینہ سے استعفی دیا تو پنڈی سے اکیلے ٹرین پر بیٹھے اور جوں ہی لاہور اترے تو سڑکوں پر عوام کا سیلاب آگیا اور طاقتور پیپلزپارٹی وجود میں آئی۔

یہی کچھ میاں نواز شریف نے بھی کیا اور اقتدار سے معزولی کے بعد وہ جی ٹی روڈ پر لاہور کی طرف بڑھے اور طاقتور بیانیہ تشکیل دیا، گویا عمران خان کو اپنے منطقے سے باہر نکلنے کا اعتماد اور حوصلہ نہیں تھا اس لئے صوبائی حکومت اور انتظامیہ پر تکیہ کرتے ہوئے انہوں نے پشاور میں جلسے کا حکم دیا۔

ابھی تھوڑی دیر پہلے میں پشاور کے ممتاز صحافی اور جلسوں کے کوریج کے ماہر ایک دوست کے ساتھ جلسہ گاہ کے آس پاس پھر رہا تھا تو میں 35 ہزار جبکہ وہ 50 ہزار شرکاء کا الگ الگ اندازہ دے رھے تھے، بہر حال اس جلسے کو ناکام جلسہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا کیونکہ لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد سٹیج کے سامنے موجود تھی۔ لیکن آگے چل کر اس قابل اطمینان تعداد کے اصل محرکات جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

جلسے کے لئے میدان کا انتخاب موٹروے ٹول پلازہ کے دائیں جانب اس میدان میں کیا گیا تھا جہاں نواز شریف تقریبًا چار سال پہلے اس سے بھی بڑا جلسہ انتہائی مشکل ترین حالات کے باوجود بھی کر چکا تھا، چونکہ یہ میدان موٹروے کے کنارے واقع ھے اس لئے ان پانچ اضلاع میں سے لوگ کثیر تعداد میں آئے جو (اضلاع ) موٹروے کے کنارے واقع ہیں، ان میں پشاور کے علاوہ چارسدہ نوشہرہ مردان اور صوابی شامل ہیں۔

یاد رہے کہ ان علاقوں میں 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو واضح اکثریت بھی ملی تھی اور زیادہ تر ایم این ایز اور ایم پی ایز تا حال پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں۔ جنہوں نے جلسے کو کامیاب بنانے کے لئے بہت محنت کی جبکہ اس سلسلے میں سول انتظامیہ بھی ان کی بھر پور مدد کرتی رہی
جبکہ موٹر وے کے ذریعے مذکورہ اضلاع سے رسائی کا معاملہ بھی حد درجہ آسان اور سہل تھا جس نے جلسے کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ پشاور اور نواحی علاقوں میں افطاری اور تراویح کے بعد عام طور پر لوگ خصوصا نوجوان کسی کرکٹ میچ یا ھلہ گلہ کی تلاش میں ہوتے ہیں سو جلسے میں شرکت نے اس رجحان کو موقع فراہم کیا۔

جلسے میں افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد بھی دیکھنے کو ملی لیکن حیرت انگیز طور پر نوجوانوں کی بجائے اکثریت عمر رسیدہ لوگوں کی تھی
اس پر ہمارے ایک صحافی دوست کی صحافیانہ تجسس جاگ اٹھی تو اس نے فورا اپنے ایک جونیئر رپورٹر کو معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی ذمہ داری سونپی.

تقریبا آدھ گھنٹہ بعد نوجوان رپورٹر ھانپتا ہوا آیا اور اطلاع دی کہ پشاور کے آس پاس بڑے بڑے مہاجر کیمپوں جن میں شمشتو , کبابیان , باغبانان , خشکی اور اکوڑہ کیمپس شامل ہیں سے بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کو بلایا گیا ہے۔

تھوڑی سی تحقیق کے بعد ایک صحافی نے بتایا کہ محکمہ افغان ریفیوجز کے موجودہ کمشنر کو کئی سال پہلے عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے غیر انتظامی افسر اور نیب انکوائری اور بعض اخلاقی مسائل ہونے کے باوجود بھی اس اہم عہدے پر لگایا تھا جبکہ موصوف سوشل میڈیا پر عمران خان اور پی ٹی آئی کے ایک سرگرم "کارکن " کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ افغان مہاجرین کی کثیر تعداد میں جلسے میں شرکت کی اصل وجہ کمشنر افغان ریفیوجز کی مدد اور تائید ہی ہے۔

جلسے کی کامیابی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ھے کہ صوبائی کابینہ میں شامل تین اہم وزرا کا تعلق بھی پشاور سے ھے جن میں وزیر صحت تیمور جھگڑا (یہ سابق صدر غلام اسحاق خان کا نواسہ ھے ) وزیر اطلاعات کامران بنگش اور ایک اور وزیر اشتیاق ارمڑ شامل ہیں اس کے علاوہ تقریبا آٹھ ممبران صوبائی اسمبلی بھی پشاور سے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ جلسے کی کامیابی کے لئے سول انتظامیہ بھی پوری طرح بروئے کار آئی تا ہم اپنی صوبائی حکومت اور سول انتظامیہ اور ان کی دوڑ دھوپ کے ساتھ ساتھ نماز تراویح کے بعد مناسب وقت کا انتخاب قدرے بہتر ماحول اور اقتدار سے معزولی کے بعد عمران خان کی تجسس بھری جھلک کے باوجود بھی یہ جلسہ ان جلسوں سے بڑھ کر ہرگز نہ تھا جو روز روز دوسری جماعتیں بھی منعقد کرتے ہیں، تاہم جلسے میں شرکاء کی تعداد قابل اطمینان تھی میں تو ایک جینوئن صحافت کو مدنظر رکھتے ہوئے 15 ہزار کی تعداد کہوں گا نہیں لیکن 35 ہزار سے زائد مانوں گا بھی نہیں۔