شہباز شریف۔۔۔سیاسی ورکر سے قومی لیڈر

شہباز شریف۔۔۔سیاسی ورکر سے قومی لیڈر
دنیا آزمائش کی جگہ ہے اور کچھ لوگ جن پر اللہ کا خاص کرم ہے آغاز میں ان کی تربیت کٹھن ماحول میں ہی ہوتی ہے۔ میاں شہباز شریف کی زندگی میں ایسے ایسے موڑ ہیں کہ جن پر کھڑے کوئی بھی عام انسان حواس کھو بیٹھتا۔ سیاسی میدان میں جو جدوجہد ان کے حصے میں آئی وہ بھی دلخراش داستاں ہے۔ سیاست کے میدان کا انتخاب میاں شہباز شریف کی جانب سے نہیں تھا بلکہ یہ ملکی سیاسی ماحول تھا کہ جس نے انہیں مجبور کیا کہ وہ سیاست میں سرگرم ہوں۔ وطن عزیز میں سیاست کی آڑ میں جب ان کے خاندان کو نشانہ بنایا گیا تو انہیں بھی یہ داو پیچ سیکھنے پڑے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنلائزیشن کی پالیسی کے تحت "اتفاق انڈسٹریز" کو حکومت کی تحویل میں لے لیا جس سے شریف خاندان شدید معاشی بحران کی زد میں آ گیا۔ان دنوں شہباز شریف نوجوان تھے ۔انہوں نے اس صورت حال کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کا عزم کر لیا۔ ایک طرف شہباز شریف نے کاروبار میں والد صاحب کا ہاتھ بٹانا تھا تو دوسری جانب انہوں نے اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کی الیکشن مہم میں معاونت بھی کی۔ اس وقت تک شہباز شریف خود عملی سیاست میں نہیں آئے تھے۔ میاں نواز شریف اس زمانے میں لاہور چیمبر آف انڈسٹریز کے صدر ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے انتخابات میں حصہ لیا تو میاں شہباز شریف نے انتخابی منشور کی تیاری اور انتخابی مہم میں سرگرم کردار ادا کیا۔ وہ خود کو زیادہ عرصہ عوام کی خدمت کے مشن سے دور نہ رکھ سکے اور پھر انہوں نے بھی صوبائی سطح پر سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ انہوں نے بھرپور محنت اور لگن سے کام کیا۔

یہی وجہ ہے کہ عوام نے انہیں یکے بعد دیگرے پنجاب کا متعدد بار وزیر اعلی منتخب کیا۔ شہباز شریف کی خدمات اگر تحریر کرنے لگیں تو پھر ایک مضمون ناکافی ہوگا ۔اس کے لئے مضامین کی سیریز درکار ہو گی۔ آپ نے اس زمانے میں پاکستان میں ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کی بات کی جب کوئی دوسرا اس بارے سوچ بھی نہیں رہا تھا۔ آپ کی کاوشوں سے مائیکروسافٹ اور "اوریکل" نے پنجاب میں سرمایہ کاری کی۔

میاں شہباز شریف نے پنجاب میں تھانہ کلچر کی تبدیلی کے لئے انتھک کوشش کی۔ پولیس کو جدید سہولیات فراہم کیں۔ ان کو ٹرانسپورٹ سمیت ضروری وسائل مہیا کئے۔ آپ نے پنجاب کی حد تک صوبے میں قانون کی بالادستی کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا۔ عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے صوبے میں دہشت گردی کے کیسز کو نمٹانے کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کیں۔ اس کے علاوہ سوشل سیکٹر میں خدمات کمیٹیاں تشکیل دیں۔صحت کے نظام کو جدید بنایا۔صوبے کے عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے پر توجہ دی۔ مرکز میں اپنے بھائی نواز شریف کے ساتھ مل کر قومی اور صوبائی سطح پر عوام کی فلاح کے لئے دن رات ایک کر دیا۔ تعلیمی شعبے میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ طلبہ کو وظائف دیئے۔لیپ ٹاپ تقسیم کئے۔ لیکن شہباز شریف کا سیاسی کرئیر اتنا سادہ اور آسان ہرگز نہیں تھا۔

مشرف کے آمرانہ دور میں آپ کو اپنے بھائی کے ہمراہ جلاوطن کیا گیا۔ صرف پاکستان میں آپ کا فرزند حمزہ شہباز ، مشرف کے آمرانہ ہتھکنڈوں کا سامنا کرنے کے لئے اکیلا رہ گیا۔ آپ نے پاکستان واپس آنے کی کوشش کی مگر لاہور ائیر ہورٹ سے واپس بھجوا دیا گیا۔ دوبارہ حمزہ کو تنگ کرنے کا سلسلہ دراز ہوا۔ اس پر کیسز بنائے گئے۔ حمزہ اور خاندان کی خواتین کو ماڈل ٹاون گھر میں نیب کی جانب سے حراساں کیا گیا۔ حمزہ اپنے والد کی طرح ڈٹے رہے اور حالات کا جوانمردی سے مقابلہ کرتے رہے۔ حمزہ کو اس ماحول میں جو تربیت حاصل ہوئی اس نے ان کو بھی ایک بہادر لیڈر بنا دیا۔ ان کی شخصیت میں نکھار آیا اور سیاسی قد کاٹھ میں بھی اضافہ ہوا۔

پاکستان کے اندر نظام کی تبدیلی شروع سے ایک بڑا چیلنج رہا ہے مگر میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز جیسے ویژنری لیڈر ہی قوم کو مسائل سے نجات دلوا سکتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس ویژن ہے وہ سوچ ہے جو باقی لیڈروں میں بہت کم دکھائی دیتی ہے۔ حمزہ کے والد کی تربیت کا کمال ہے کہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ عوام کا دل کیسے جیتنا ہے۔ جب انہیں جیل میں اذیتیں دی گئیں تو انہیں اس حالت میں بھی ساتھی قیدیوں کی فکر لاحق رہتی تھی ۔وہ ان کو دیکھ کر دکھی ہو جاتے تھے۔ یہ ایک عظیم باپ میاں شہباز شریف کا حوصلہ تھا کہ وہ ایسے ماحول میں اپنے فرزند کو تربیت دیتے رہے جہاں ان کی اپنی زندگیاں مشکلات میں گھری ہوئی تھیں۔ انہی خصوصیات نے انہیں قومی سطح کا لیڈر بنا دیا۔

شہباز شریف نے اپنے سیاسی سفر میں اپنی ذات اور خاندان کو خطروں میں جھونک دیا۔ ان کی سیاسی اور ذاتی زندگی کو کئی بار مشکل ترین حالات کا سامنا رہا ۔جیل میں اپنے خاوند شہباز شریف کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کو ان کی لکھاری بیوی تہمینہ درانی کچھ اس طرح بیان کرتی ہیں۔ شہباز شریف کو ایک ہفتے تک گھر والوں سے ملنے سے روکے رکھا۔ ان کو گھر کا کھانہ نہیں پہنچانے دیا گیا۔ انہیں اپنے وکلا سے بھی ملاقات سے روکا گیا۔ ان پر جو کیسز تھے ان میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھے۔ انکے ساتھ ریاستی جبر کے ہتھکنڈے آزمائے گئے۔ بنیادی انسانی حقوق کا بھی خیال نہ رکھا گیا۔

میاں شہباز شریف کا نمایاں وصف یہ ہے کہ انہوں نے قومی خزانے کی ایک ایک پائی کو سوچ سمجھ کر خرچ کیا۔ انہوں نے وقت ضائع کیا اور نہ قوم کا پیسہ برباد کیا۔ ان پر ریاست کی جانب سے الزامات لگائے جاتے رہے جو کبھی ثابت نہ ہوئے۔ قید و بند میں انہوں نے کبھی رحم کی بھیک نہ مانگی۔ ہمیشہ حق پر ڈٹے رہے۔ بہادری میاں شہباز شریف کی پہچان بن گئی۔ جس کے باعث ان کے سیاسی قد کاٹھ میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔