عسکری قیادت کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ اسکے خلاف ہرزہ سرائی کیوں ہورہی ہے؟

عسکری قیادت کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ اسکے خلاف ہرزہ سرائی کیوں ہورہی ہے؟
وطن عزیز کو آزاد ہوئے 72 برس ہو چکے ہیں مگر ابھی تک ہم اپنی سمت واضع نہیں کر سکے کہ ہمارا نظام حکومت کیسا ہونا چاہیے؟ پارلیمانی نظام حکومت ہمارے ہاں ناکام ثابت ہو چکا بلکہ ہوں کہنا چاہیے کہ اب اس میں سے تعفن اٹھنا شروع ہو چکا ہے۔ فوجی صدارتی نظام بھی متاثر کرنے میں کامیاب نہیں ہوا جو اصل جمہوری صدارتی نظام حکومت ہے اس کا ابھی تک پاکستان میں تجربہ نہیں ہوا، اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی کے 4 برسوں کے بعد لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سویلین حکومت کو عسکری قیادت نے چلنے نہیں دیا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہمارا ہر سیاست کار اقتدار کے لیے عسکری آشیرباد کے لیے کوشاں رہتا ہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

قائد اعظم اور لیاقت علی خان تک عسکری قیادت کو سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے کی جرات نہیں ہوئی کیونکہ وہ قد آور شخصیت تھے، فوجی حکمرانوں نے ہمشہ سیاست کاروں کو اپنا بغل بچہ بنائے رکھا ہے ،لیکن بعد میں دیکھا گیا کہ جن سیاسی جماعتوں نے ان سے بغاوت کی پاکستان میں سب سے پہلے بایاں بازو کے احباب نے فوجی حکمرانوں کو للکارا۔

راولپنڈی سازش کیس کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگائی گئی، اس وقت تو حکمران اتنے خوف زدہ ہو گئے تھے کہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی ذیلی تنظیم انجمن ترقی پسند مصنفین جو ادبیوں کی تنظیم تھی اس پر بھی پابندی عائد کر دی گئی کی۔ ایوبی آمریت کے خلاف بھی سب سے پہلے بائیں بازو کی جماعتوں نے علم بغاوت بلند کیا تو سیاسی کارکنوں پر ریاستی جبر کی انتہا کردی گئی۔

سطور بالا میں راولپنڈی سازش کیس کا ذکر کیا ،سجاد ظہیر پاکستان میں جمہوریت کے پہلے قیدی تھے اور حسن ناصر جمہوریت کے پہلے شہید تھے۔ دونوں کا تعلق اتر پردیش سے تھا اور زبان اردو تھی، جب ایوبی آمریت عروج پر تھی انکے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے علم بغاوت بلند کیا۔ تحریک چلائی جمہوریت کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے، پھر ضیاء الحق آگیا، بھٹو صاحب سودائی تھے، سولی چڑھ گئے اور آج ہماری سیاسی تاریخ کے ایک رومانی کردار بن گئے ہیں، جب جنرل ضیاء الحق پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر موت بن کر برس رہا تھا تب نواز شریف پنجاب میں اس کامسلح غنڈہ بن کر اسکی مدد کر رہا تھا وہ جنرل جیلانی کی دریافت تھا بعد ازاں پروز مشرف کے آنے کے بعد وہ قابل قبول نہیں رہا۔

جنرل ضیاء الحق نے سندھ میں پیپلز پارٹی کا زور توڑنے کے لیے ایم کیو ایم بھی بنائی مگر ایک وقت یہ بھی آیا کہ ایم کیو ایم اور نون لیگ بھی اپنے عسکری آقاؤں کے خلاف ہو گئے۔ عسکری قیادت عمران خان کے ساتھ تھی مگر اب تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے سوشل میڈیا میں انکے خلاف بھرپور ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے، پاکستان کی عسکری قیادت کو بہت سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پہلے بائیں بازو کے احباب، پھر پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، نون لیگ اب تحریک انصاف بھی انکے خلاف ہو چکی مگر یہاں ایک سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ اب بھی سیاسی جماعتوں کو اقتدار کے لیے اپنا قبلہ گیٹ نمبر چار کی طرف رکھنا پڑتا ہے۔

حال ہی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اسکے پچھے کون ہے سب جانتے ہیں، اگر عمران خان دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تب بھی انکی مرضی شامل ہو گی ،حرف آخر ہمارے سیاست کار کب تک میر تقی میر کے اس شعر کی تصویر بنے رہیں گیں ،،،،میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب،،اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔