ہنگو ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی کامیابی، کیا امریکہ مخالف بیانیہ عوام میں مقبول ہو رہا ہے؟

ہنگو ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی کامیابی، کیا امریکہ مخالف بیانیہ عوام میں مقبول ہو رہا ہے؟
خیبرپختونخوا کے ضلع ہنگو میں ایک ایسے وقت میں تحریک انصاف کے اُمیدوار نے ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کی  جب کچھ روز پہلے ہی وفاق میں عمران خان کو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے 120 سے زائد ممبران نے مستعفیٰ ہونے کا فیصلہ کیا۔

اس سے قبل عمران خان نے اپوزیشن جماعتوں کی تحریک عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دیتے ہوئے اسلام آباد جلسے میں ایک مبینہ خط لہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ ان کے خلاف سازش کررہا ہے۔ وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہاتھ دھونے کے بعد عمران خان نے پہلے پشاور اور پھر کراچی میں جلسوں سے خطاب کیا اور امریکہ سمیت اپوزیشن جماعتوں پر تنقید کی۔

بعض سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ عمران خان کو معلوم ہے کہ ان کے اقتدار کا سورج تب ہی غروب ہوا جب   اسٹیبلشمنٹ نے نیوٹرل ہونے کا کردار ادا کیا مگر تاحال عمران خان اس حوالے سے مختاط رویہ اپنا رہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرنے سے گریز کرکے کسی مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔



ہنگو میں اتوار کے روز قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 33 کے ضمنی انتخاب  ہوئے جس میں پی ٹی آئی کے امیدوار کو کامیابی ملی۔ جمعیت علمائے اسلام ف کے امیدوار دوسرے اور عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار تیسرے نمبر پر رہے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار نے 20772 ووٹ حاصل کیے جبکہ جے یو آئی کے امیدوار نے 18224 ووٹ حاصل کیے۔

ہنگو میں یہ نشست پی ٹی آئی کے مقامی رہنما خیال زمان کی فروری 2022 میں وفات کے بعد خالی ہوئی تھی جس کے بعد پی ٹی آئی نے ضمنی انتخاب کے لیے ان کے بیٹے ڈاکٹر ندیم خیال کو ٹکٹ دیا تھا۔

ہنگو کے این اے 33 کا پس منظر

ماضی میں اس حلقے پر مسلم لیگ نواز اور جمعیت علمائے اسلام ف کے اُمیدوار کامیاب ہوتے آ رہے تھے مگر 2008ء کے عام انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کا امیدوار اس حلقے سے کامیاب قرار پایا۔ 2013ء اور 2018ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے اُمیدوار خیال زمان اورکزئی اس حلقے پر کامیاب ہوئے تھے۔

ہنگو کے این اے 33 میں کل ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 18919 ہے جس میں مرد ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 80 ہزار 543 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 38 ہزار 376 ہے۔ اس حلقے کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتیجے کے گوشوارے کے مطابق ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 43 ہزار 148 تھی جس میں 34 ہزار 303 مرد اور 8 ہزار 845 خواتین ووٹرز ہیں۔ اس گوشوارے کے مطابق ووٹ ڈالنے کی کل شرح 13 فیصد سے کچھ زیادہ رہی ہے۔

ضمنی انتخاب میں خواتین ووٹرز کی شرح

تفصیلات کے مطابق اتوار کے روز ہونے والے ضمنی انتخاب میں خواتین ووٹرز کی شرح چھ فیصد کی لگ بھگ تھی جبکہ دوسری جانب الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق اگر کسی حلقے میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح 10 فیصد سے کم ہو تو الیکشن کمشنر اس حلقے میں دوبارہ انتخاب کا حکم دے سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب الیکشن کمشنر کی صوابدید ہے کہ وہ اگر سمجھتے ہیں کہ دوبارہ انتخاب کرایا جائے یا جن پولنگ سٹیشنز میں خواتین نے ووٹ نہیں ڈالے یا مبینہ طور پر نہیں ڈالنے دیے گئے، ان پولنگ سٹیشنز پر ہی دوبارہ ووٹنگ کرائی جائے اور یا پھر ان ہی نتائج کو تسلیم کر لیا جائے۔

پاکستان تحریک انصاف کے اُمیدار اس حلقے پر کیوں کامیاب ہوئے؟

ہنگو سے تعلق رکھنے والے صحافی رفعت اللہ اورکزئی نے ہنگو الیکشن میں تحریک انصاف کے امیدوار کی کامیابی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد قومی اسمبلی سے استعفے دئیے ہیں تو بظاہر ہنگو کے الیکشن میں ایسا لگ رہا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام ف کا امیدوار اس نشست سے کامیابی حاصل کرلے گا مگر نتائج اس کے برعکس نکلے اور پی ٹی آئی کا امیدوار کامیاب ہوا۔

ان کے مطابق تحریک انصاف کے امیداوار کی کامیابی کے کئی وجوہات ہے لیکن سب سے بنیادی امریکی مخالف بیانیہ جبکہ دوسری وجہ جمعیت علمائے اسلام ف کے مقبول امیدوار عتیق الرحمان کو پارٹی کی جانب سے ٹکٹ نہیں دیا گیا جو 2018 کے عام انتخابات میں چند سو ووٹوں سے ہارے تھے اور پارٹی نے اس بار دوسرے امیدوار عبیدالرحمان کو ٹکٹ دیا جو عتیق الرحمان کی نسبت کم اثرورسوخ کے حامل تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے وفات پانے والے اُمیدوار خیال زمان کے بیٹے کو پارٹی کی جانب سے ٹکٹ دیا گیا اور اُن کو ہمدردی کا ووٹ بھی مل گیا اور یہ پاکستانی سیاست کی ایک روایت ہے۔

ایک سوال کے جواب پر رفعت اللہ اورکزئی نے کہا کہ الیکشن کے دن ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا جس کی وجہ سے بھی نتائج اس طرح نہیں آئے جن کی توقع کی جا رہی تھی۔ اس حلقے میں مذہبی ووٹ بینک بہت زیادہ ہے اور عمران خان نے جو بیانیہ اپنایا اس نے یہاں کے ووٹر کو اپنی طرف مائل کیا اور پاکستان تحریک انصاف کے اُمیدوار کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔



ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان کو عدم اعتماد  کی تحریک کے ذریعے سے اقتدار سے نکالنے کی وجہ سے لوگوں کی ناصرف ہمدردیاں اُن سے پیدا ہوئیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ امریکی مخالف بیانیے نے بھی ان کی جیت میں کردار ادا کیا کیونکہ اس حلقے میں ایک طرف مذہبی ووٹ بینک ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان میں امریکی مخالف تحریکوں اور بیانیوں کو اکثر پذیرائی ملتی آرہی ہے۔

خیبر پختونخوا کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی لحاظ علی بھی اس نکتے سے اتفاق کرتے ہیں کہ عمران خان کی امریکہ مخالف مضبوط بیانیے نے ہنگو کے الیکشن پر اثرات چھوڑے ہیں اور دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ امریکی مخالف بیانیے نے بھی پاکستان تحریک انصاف کے اُمیدار کی کامیابی میں ایک اہم کردار ادا کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف کے خیبر پختونخوا میں مضبوط جڑیں ہیں اور 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی ائی نے اس حلقے سے کلین سوئپ کیا تھا اور قومی اسمبلی کے نشست کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلی کے دونوں نشستوں پر بھی کامیابی حاصل کی تھی۔

وہ کہتے ہیں لیکن بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کو ایک دھچکا لگا اور یہاں سے جمعیت علمائے اسلام ف کے زیادہ تر امیدوار کامیاب ہوئے اور عمومی رجحان یہی تھا کہ جے یو آئی (ف) اس حلقے سے کامیابی حاصل کریگی مگر ایسا نہیں ہوا۔

صحافی لحاظ علی اس نکتے سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ اس حلقے کے امیدوار خیال زمان کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے کو ہمدردی کا ووٹ پڑا جبکہ تیسری بنیادی وجہ عوام کی عدم دلچسپی تھی جن کی وجہ سے ٹرن آؤٹ کم رہا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔