مہنگائی کا مارشل لا

مہنگائی کا مارشل لا
گذشتہ ایک ماہ سے ملک کی سیاسی صورتحال انتہائی خراب تھی جس کا ڈراپ سین پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ اور اپوزیشن جماعتوں کا حکومت بنانے پر ہوا۔ شہباز شریف بحیثیت وزیراعظم حلف لے چکے ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ سیاسی ومعاشی استحکام پر سنجیدگی سےکام ہوگا اور اقدامات کیے جائیں گے۔

ان سب باتوں سے قطع نظر غریب عوام جو مہنگائی سے جونجھ رہی ہے اور پیٹرول کی قیمت (جو کہ 150 روپے تک بڑھ چکی ہے) کے بڑھتے ہی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کے باعث روز بروز دبتی چلی جا رہی ہے۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ایک غریب سارا دن مزدوری کرنے کے بعد بھی اتنے پیسے نہیں کما پاتا کہ اپنے بچوں کی ضروریات زندگی تو دور کی بات صرف روٹی بھی پوری کر سکے۔ مہنگائی کا یہ جن بدقسمتی سے ہر سال ماہ رمضان کے پہلے دن ہی بوتل سے باہر آ جاتا ہے جبکہ یہ بھی نوشتہ دیوار ہے کہ جون میں آنے والا بجٹ مزید مہنگائی لائے گا۔

حکومت کی جانب سے رمضان ریلف پیکج کے تحت یوٹیلٹی سٹورز پر بنیادی کھانے پینے کی 19 اشیا کی رعایتی قیمتیں عام بازار سے کم رکھی گئی، مثلاً بازار میں گھی کی قمیت 450 سے 470 روپے فی کلو جبکہ سٹور پر 260، دال چنا مارکیٹ میں 260 جبکہ سٹور پر 213 روپے، دال مسور 250 کی بجائے، بیسن 230 کی بجائے 160 مل رہا ہے۔ لیکن سوال سے یہ اٹھتا ہے کہ ان سٹورز تک کتنے لوگوں کی رسائی ہے دوسرا ان کے معیار جانچنے کا کیا پیمانہ ہے؟ اکثر اوقات چیزیں دستیاب ہی نہیں ہوتی ہیں یا پھر معیار کے مطابق نہیں ہوتیں۔ سب سے اہم کہ موجودہ سیاسی حالات ان پر کیا اثرات مرتب کریں گے؟

دنیا کے بیشتر ممالک میں کسی بھی تہوار سے قبل تمام شہریوں کی سہولت کے لیے اشیائے خورونوش، ملبوسات اور دوسری ضروری چیزوں کی قیمتیں کم کردی جاتی ہیں تاکہ لوگ آسانی سے ضروریات زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے خوشیاں منا سکیں۔ جبکہ ہمارے ہاں اس کے برعکس عمل ہوتا ہے، قیمتیں سو گنا بڑھا دی جاتی ہیں۔

ہر ضلع میں تعینات پرائس کنٹرول مجسٹریٹ رمضان بازاروں اور مارکیٹوں کے دورے کرتے اور اضافی نرخ وصول کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کرتے اور مصنوعی مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے تھے۔ تاہم اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نظر نہیں آیا جس کی وجہ مجموعی طور پر ہر چیز کی قیمت میں بے پناہ اضافہ، محدود آمدن کے ذرائع اور دکاندروں کی ہٹ دھرمی ہے۔

رمضان بازاروں کا انعقاد لوگوں کو سہولت فراہم کرنا ہوتا ہے جو شاید کسی حد تک عوام کو ریلف دینے کی اپنی سعی ایک مثبت کاوش ہے مگر اس کے بعد کیا؟

افراد زر کی شرح:

2018ء میں افراد زر کی شرح 5.08 فیصد سے بڑھ کر دسمبر 2021ء تک 12.3 فیصد کا اضافہ ہوا یعنی جنوری 2022ء تک 13 فیصد اضافہ ہوا۔

روزے کی اہمیت:

روزہ انسان کو صبر اور برداشت کرنا سکھاتا ہے۔ یہ صبر نفس، طمع، حرص، غصہ اور ہر اس چیز کو چھوڑنے کا نام ہے جس سے معاشرے میں فساد یا انتشار پیدا ہونے کرنے کا سبب بنے اس کی جگہ شفقت، نرمی، بھلائی، نیکی اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی جانب راغب کرنا ہوتا ہے۔

لوگ رمضان کے دنوں میں قریبی مساجد میں افطاری کا سامان بجھوایا کرتے تھے، جہاں مسافر اور ضرورت مند لوگ آکر کھانا کھا لیتے تھے۔ اسی طرح سے محلے میں لوگ بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب کے رمضان کے مہینے میں ایک دوسرے کے گھر شوق سے افطاری بجھوایا کرتے تھے۔ رمضان کے علاوہ بھی لوگ جب کچھ اچھا بناتے تو پڑوس میں ضرور بجھواتے تھے تاکہ محبت بڑھے لیکن گذشتہ چند سالوں میں یہ روایت دم توڑ چکی ہیں اور معاشی حالات نے لوگوں سے قوت خرید کو ختم کر دیا ہے۔

احترام رمضان اور پابندیاں:

1981ء میں فوجی آمر ضیاء الحق نے احترامِ رمضان (رمضان کا احترام) کا قانون متعارف کرایا۔ یہ ایک اسلامی قانون ہے جو سرعام شراب پینے یا کھانے والوں کے لیے تین ماہ تک قید اور جرمانے کا تعین کرتا ہے۔ قانون میں کہا گیا کہ " اسلام کے اصولوں کے مطابق جو شخص روزہ رکھتا ہے، وہ رمضان کے مہینے میں روزے کے اوقات میں عوامی جگہ پر کھانا، پینا یا سگریٹ نوشی نہیں کرے گا۔" لیکن اس قانون کی بدولت کوئی بھی شخص سرعام کھانے پینے کا مجاز نہیں۔

پاکستان میں تقریباً تہتر لاکھ غیر مسلم یا اقلیتی افراد بستے ہیں جو اپنے اپنے عقیدے کے مطابق مذہبی رسومات اور روزے ادا کرتے ہیں مگر ان کا احترام کسی پر واجب نہیں ہوتا جبکہ اکثریتی مذہب کے روزے شروع ہوتے ہی تمام شہریوں پر سرعام کھانے پینے کی پابندی عائد ہو جاتی ہے جو کہ صریحاً غیر آئینی ہے کیونکہ پاکستانی آئین کا آرٹیکل 20 مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر پر دستخط کرنے والا ملک ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر بلا امتیاز سب کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے۔

پاکستان کا دنیا میں شوگر کے مریضوں میں تیسرا نمبر ہے جس میں 2019ء تا 2021ء تک 70 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ ہمار ا رہن سہن اور خوراک ہے۔ یہ مریض بھوکے نہیں رہ سکتے۔ تقریباً تین کروڑ تین لاکھ لوگ اس مرض کا شکار ہیں۔ اب ایک مزدور اگر اس مرض کا شکار ہو تو وہ ان دنوں میں مزدوری کیسے کرے گا اور گھر رہے گا تو اس کا خاندان کھائے گا کہاں سے؟