عمران خان نے طاقتور شخصیت کو ہٹانے میں ناکامی پر اپنی پٹاری سے خط نکالا

عمران خان نے طاقتور شخصیت کو ہٹانے میں ناکامی پر اپنی پٹاری سے خط نکالا
خوئے بد را بہانہ بسیار والا محاورہ 27 مارچ کے بعد اب صرف محاورہ نہیں رہا کیونکہ اب گذشتہ پچیس دنوں سے ہم ہر روز اس کو ہر زاویہ اور پہلو سے عملًا دیکھ رہے ہیں، اور صرف دیکھ ہی رہے۔

پچیس دنوں سے ایک پاگل ہاتھ میں ماچس لے کر ہر اس چیز کو آگ لگائے جا رہا ہے جو اس کے راستہ میں آتی ہے۔ غصہ یہ ہے کہ مجھے ریاست، حکومت اور قوم کی تقدیر سے جی بھر کے کھیلنے کیوں نہیں دیا۔ 22 اپریل کو قومی سلامتی کمیٹی نے ایک بار پھر اجلاس کے اعلامیہ میں کہا کہ عمران حکومت کے خلاف کوئی بیرونی سازش نہیں ہوئی لیکن طوفان بدتمیزی اور شر انگیزی ہے جو تھمنے کا نام نہیں لیتی۔

اس ڈرامے کی مختلف قسطیں ریاستی مفادات کی قیمت پر کھڑکی توڑ رش کیساتھ زور وشور سے جاری ہیں۔ اس ڈرامے کا ایک عجیب پہلو یہ بھی ہے کہ عین سٹیج پر اداکار سکرپٹ کے بنیادی مکالمہ میں من پسند تبدیلی کر رہا ہے جو ڈرامے کو مزید دلچسپ بنا رہا ہے۔ سازش، سازش نہیں مداخلت۔ اب پتہ نہیں مداخلت سے آگے کون سی خجالت منہ سے ٹپکنے والی ہے۔

پچھلے 11 سالوں سے عمران خان نے ڈرامہ بازیوں، مبالغہ آرائیوں اور سنی سنائی باتوں کو حقیقت سمجھ کر پالیسی بیانات کے طور پر پیش کرنے کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ این جی اوز کے بنائے ہوئے چھوٹے چھوٹے بجلی گھروں کو اپنی حکومت کا کارنامہ بتا کر 350 ڈیمز میں تبدیل کر دیا۔

اس پر مستزاد پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں والا سبز باغ دکھایا۔ اس کے علاوہ کرپشن، کرپٹ، منی لانڈرنگ کا راگ اپنے سیاسی مخالفین کو بدنام کرنے کیلئے اتنے زور وشور سے الاپا کہ اس کی ضد میں ریاست کی ساکھ بری طرح مسخ کردی۔ خود چیخ چیخ کر بتایا کہ کہ پاکستان بدعنوانی کی آماجگاہ ہے، یہاں منی لانڈرنگ اور دولت کی غیر قانونی منتقلی اور مالی جرائم زوروں پر ہیں۔ یہ بھی ایک غور طلب بات ہے کہ ان کے اس راگ کا پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں دھکیلنے کا کوئی کردار ہے کہ نہیں؟

ستم ظریفی یہ ہے کہ اقتدار کی خاطر اس نے سازش اور مداخلت والا مبالغہ بھی ایک سیاسی اور انتخابی نعرے کے طور پر یہ سوچے بغیر استعمال کرنا شروع کیا کہ اس کے خارجہ تعلقات اور سفارتکاری پر کیا اثرات ہونگے اور آگے چل کر ریاست کو کیا قیمت چکانا پڑیگی؟

پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ ریاست تو چھوڑیں اگر ایک فرد بھی کسی کے خلاف سازش کرتا ہے تو وہ اس کو انتہائی صغیہ راز میں رکھتا ہے اور آخر تک کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنا کوئی نشان نہ چھوڑے۔ اب وہ کون سا بے وقوف سفارتکار ہو سکتا ہے جس کا ملک ایک دوسرے ملک یا اس کی حکومت کے خلاف سازش یا مداخلت کر رہا ہو اور وہ جا کر اس ملک کے سفیر کو سب کچھ ریکارڈ پر رکھ کر بتا دے۔

دوسری بات یہ ہے کہ سفارتکاری میں تنبیہ کوئی انہونی بات نہیں حتیٰ کہ اگر کوئی طاقتور ملک بھی کسی کمزور ملک کے مفادات کے خلاف جاتا ہے تو وہ مختلف سفارتی چینلز سے تنبیہ کرتا ہے۔

اس کے علاوہ سفارتکار اپنے میزبان ملک کے حکام کے علاوہ وہاں کی زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد، شخصیات، بالخصوص صحافیوں کے ساتھ روابط استوار اس لئے کرتے ہیں کہ اس ملک اور اس کی سیاسی، سماجی اور معاشی حقیقتوں اور سرگرمیوں سے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کر سکے۔ اس قسم کی ملاقاتوں میں، خصوصاً سفارتکاروں کے مابین، مختلف آپشنز اور منظر ناموں پر بحث ہوتی ہے، اور وہاں متعین سفیر کا یہ فرض منصبی ہوتا ہے کہ وہ اس قسم کی ملاقاتوں اور مباحثوں کا خلاصہ یا اہم نکات اپنے ملک کو رپورٹ کرے۔

مثال کے طور پر اگر کسی ملک کی وزارت خارجہ یا کوئی دوسرا حکومتی نمائندہ وہاں متعین سفیر کو یہ کہے کہ جب تک آپ کی حکومت کی یہ  پالیسی ہے یا یہ حکومت ہے تو ہمارے تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہم وہاں کی حکومت بدلنے جا رہے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں طاقتور ملکوں نے کمزور ممالک میں مداخلت کرکے حکومتیں گرائی ہیں لیکن نہ اس کی اطلاع کبھی دی اور نہ کوئی عندیہ۔ اس قسم کی مداخلتوں کا اس ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے سوائے اکثر وہاں کی وزارت خارجہ اور کابینہ کے ہر رکن کو بھی پتہ نہیں ہوتا۔

اس لئے دو سفارتکاروں کے درمیان آن دی ریکارڈ ملاقات اور اس میں ہوئی گفتگو کو حکومت گرانے کے لئے سازش یا مداخلت قرار دینا ریاست کے خارجہ تعلقات اور سفارتکاری کو تباہ کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے سب سے گھناؤنی کوشش یہ ہو رہی ہے کہ سفارتی کیبل اس انداز میں پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے اسے سفیر  نے خود نہیں لکھا ہو بلکہ جیمز بانڈ بن کر امریکی خفیہ دستاویز میں سے نکال کر اپنے وزرات خارجہ کو بھیج دیا تھا۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان کے خارجہ تعلقات کی تاریخ میں یہ اس قسم کا پہلا کیبل ہے، جو میں میزبان ملک کی وزرات خارجہ کے کسی اہلکار کے تنبیہی گفتگو پر مبنی ہے؟ میرے خیال میں پاکستان کی وزارت خارجہ کے آرکائیوز اس قسم کے مراسلوں سے بھرے ہونگے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں وزارت عظمیٰ کی کرسی پر کوئی بچہ نہیں بلکہ کوئی سنجیدہ بندہ بیٹھا ہوگا۔

کیا عمران خان اور اس کے حواریوں کو یہ ادراک ہے کہ اس قلا بازی سے اس نے دنیا بھر میں پاکستان کی سفارتکاری کا تماشا لگایا ہوا ہے۔ اس کے بعد اس ملک کی فارن سروس کے اعتماد کا کیا ہوگا؟ اوپر سے خان صاحب کہہ رہے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ میں یہ خط لے کر جا رہے ہیں۔ اگر عدالت میں اس کا اور کچا چٹھہ کھولا گیا تو فارن سروس کے اعتماد اور امریکہ سے تعلقات پر کیا اثر ہوگا؟

کیا یہ اب کوئی راز ہے کہ عدم اعتماد سے دو ہفتے قبل آپ سرپرائز سرپرائز کی باتیں کر رہے تھے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک کو واپس نہ کرانے اور نتیجتاً ایک طاقتور شخصیت کو ہٹانے میں ناکام ہونے کے صورت میں آپ نے پٹاری سے یہ خط نکالا؟

اصل حیرانگی ان لوگوں پر ہے جنہوں نے ریاستی اور قومی مفادات کا بیڑا اپنے سر اٹھا رکھا ہے اور اس بھینٹ پر 70 سالوں سے کتنے بے گناہوں کو ان کی سیاست کی وجہ سے چڑھا چکے ہیں۔ علی وزیر کو صرف ایک تقریر اور ان کے سیاسی نکتہ نظر کی وجہ سے بے گناہ جیل میں ڈال دیا گیا۔ لیکن اب ایک بندہ  ہوس اقتدار کیلئے روز قومی مفادات، ریاست کے بین الاقوامی اور سفارتی تعلقات کے حصے بخرے کر رہا لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔

ڈان لیکس پر مچایا ہوا طوفان سب کے ذہنوں میں اب تک تازہ ہے، جو ملک کی پالیسی، اور زمینی حقائق پر مبنی تھا۔ اگر اس وقت سویلین قیادت کی بات مان لی جاتی تو اب ریاستِ پاکستان مسائل کے اس گرداب میں اتنا نہ پھنستی، لیکن اس کے باوجود یار لوگ سویلین قیادت کی گردنیں اڑانے پر بضد تھے ، لیکن حیران کن طور پر اب چاروں طرف سناٹا ہے۔

طالعمند خان فری لانس صحافی ہیں اور نیا دور کے لئے لکھتے ہیں۔