فارن فنڈنگ کیس پی ٹی آئی کو مکمل ختم کرکے تاریخ کا حصہ بنانے کیلئے کافی

فارن فنڈنگ کیس پی ٹی آئی کو مکمل ختم کرکے تاریخ کا حصہ بنانے کیلئے کافی
پراجیکٹ عمران خان کو لانچ کرنے سے پہلے اس کو ہر لحاظ سے سجا کر عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔ ایک طرف جہاں سیاسی مخالفین کو بغیر کسی ثبوت کے مسلسل چور ڈاکو کہا گیا تو وہیں سپریم کورٹ سے عمران خان کو صادق اور امین قرار دلوایا گیا۔

عمران خان کو ایک ایسی شخصیت بنا کر پیش کیا گیا کہ موصوف سے بڑا ایماندار اور دیانتدار شخص پاکستان میں کبھی پیدا ہی نہیں ہوا۔ یہ جھوٹا پروپیگنڈا اس قدر کامیاب اور مکمل تھا کہ عوام خاص طور پر نوجوان طبقے کو ایسا گمراہ کر دیا گیا کہ وہ عمران خان کے جوئے کے اعتراف، ثابت شدہ آف شور کمپنی اور علیمہ خان کی ثابت شدہ ناجائز جائیدادوں کو بھی ان کی ایمانداری کا ہی کرشمہ قرار دینے لگے۔

یہ تو پراجیکٹ عمران خان کے حکومت سنبھالنے کے بعد معلوم ہوا کہ صاف چلی شفاف چلی اور کرپشن فری حکومت بنانے کی دعوے دار عمران حکومت کا کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جس میں کرپشن کا کوئی نیا سکینڈل سامنے نہ آیا ہو۔

2021ء میں ریلیز ہونے والی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے صادق اور امین پراجیکٹ عمران خان کی امانت اور دیانت کے ڈھول کا پول کھول کر رکھ دیا۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کی رینکنگ چار درجہ تنزلی کے ساتھ 120 سے 124 ہو گئی۔ ہر طرح کا مافیا صادق اور امین عمران خان کے دائیں بائیں بیٹھا نظر آتا تھا۔ ہوشربا کرپشن سکینڈلز کا کھرا عمران خان اور ان کے انہی نورتنوں کی طرف جاتا ہے۔ میگا کرپشن سکینڈلز جن میں فارن فنڈنگ کرپشن کیس، مالم جبہ کرپشن کیس، بلین ٹری کرپشن سکینڈل، بی آر ٹی پشاور کرپشن سکینڈل، راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل، شوگر آٹا کرپشن سکینڈل، ادویات کرپشن سکینڈل اور بے شمار دوسرے کرپشن کیسز جن میں پراجیکٹ عمران خان بری طرح لتھڑا نظر آتا ہے۔ ان میں سے بہت سارے کرپشن کیسز کی تحقیقات یا تو مکمل ہو چکی ہیں یا آخری مرحلے میں ہیں لیکن نیب نے ساڑھے تین سال ہواؤں کا رخ بدلنے کے انتظار میں ان پر مسلسل چپ سادھے رکھی۔

ان میگا کرپشن کیسز میں سے اکیلا فارن فنڈنگ کیس ہی عمران خان کے صادق اور امین اور ان کی جماعت تحریک انصاف کو مکمل ختم کرکے تاریخ کا حصہ بنانے کے لیے کافی ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے غیر ملکی ذرائع سے رقوم وصول کرنا جرم ہے۔ اگر کسی سیاسی جماعت پر بیرونی ذرائع سے رقوم وصول کرنا ثابت ہو جائے تو اس سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دے کر اس کے تمام اراکین پارلیمنٹ کی رکنیت ختم کی جا سکتی ہے۔

تحریک انصاف پر غیر ملکی ذرائع سے رقوم وصول کرنا ناصرف ثابت ہو چکا ہے بلکہ سٹیٹ بینک کی تحقیقات کے مطابق تحریک انصاف کے بہت سارے ایسے بینک اکاؤنٹس بھی سامنے آئے ہیں جو الیکشن کمیشن میں ڈیکلئیر نہیں کئے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے آٹھ سالوں میں سات مرتبہ تحریک انصاف نے ہائیکورٹ سے اس کیس کو روکنے اور ان کیمرہ سماعت کی درخواست کی ہے۔

مالم جبہ اراضی کیس ایک اور ایسا میگا کرپشن کیس ہے جس کی تحقیقات تقریباً مکمل ہو چکی ہیں لیکن نیب اس پر کوئی کارروائی کرنے یا ریفرنس دائر سے گریزاں رہا ہے۔ سوات کے علاقے مالم جبہ میں 275 ایکڑ سرکاری اراضی سال 2014 میں قواعد وضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے من پسند افراد کو تفریحی مقامات کے لیے لیز پر دی گئی۔ مالم جبہ اراضی کی لیز کے لیے دئیے گیے اشتہار کے مطابق لیز کی مدت پندرہ سال بتائی گئی جبکہ معاہدہ ہونے کے بعد لیز کی مدت بتیس سال کر دی گئی جو قواعد وضوابط کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

اس کے علاوہ جس کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا گیا اس کمپنی کے پاس نہ تو متعلقہ تجربہ تھا نہ اہلیت۔ خیبر پختونخواہ نیب مالم جبہ اراضی کے ٹھیکے کو غیر شفاف، بدنیتی پر مبنی اور محکمہ جنگلات کی قیمتی اراضی ہتھیانے کا میگا کرپشن سکینڈل اور فراڈ کیس قرار دیتے ہوئے اپنی تحقیقات مکمل کرکے مزید کارروائی کے لیے نیب ہیڈ کوارٹرز کو بھجوا چکا ہے۔ اس کرپشن کیس میں خیبر پختونخواہ کے سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک، موجودہ وزیراعلیٰ محمود خان، سابق صوبائی وزیر عاطف خان اور عمران خان کے وزارت عظمیٰ دور کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ملوث قرار دئیے گئے لیکن نیب نے اس کیس پر مزید کوئی کارروائی کرنے کی بجائے کیس بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ امید ہے کہ اب مالم جبہ کرپشن کیس کو بھی جلد منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

ساری دنیا کے لیے کورونا کی وبا زحمت بن کر آئی لیکن پراجیکٹ عمران خان کے نااہل اور کرپٹ حکمرانوں کے لیے رحمت بن کر آئی۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی اداروں کی جانب سے ملنے والی کروڑوں ڈالر کی امداد پر دونوں ہاتھوں سے ہاتھ صاف کیا گیا۔ نااہل سلیکٹڈ حکومت کے مشیر صحت ظفر مرزا کورونا کے عروج کے دنوں میں امداد میں ملنے والے ماسک کی فروخت میں ملوث پائے گئے اور پھر استعفیٰ دے کر وہیں واپس تشریف لے گئے جہاں سے امپورٹ کیے گئے تھے۔

سلیکٹڈ حکومت کے وزیر صحت طارق کیانی ادویات کے بہت بڑے سکینڈل میں ملوث پائے گئے تو انہیں بجائے کوئی سزا دینے کے وزارت سے ہٹا کر پارٹی کے ایک اعلیٰ عہدے پر فائز کر دیا گیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ادویات پانچ سو فیصد مہنگی ہو چکی ہیں لیکن کسی ذمہ دار کے خلاف نہ کوئی ریفرنس بنا نہ کسی کو سزا مل سکی اور دوائی لینا غریب آدمی کے لیے عیاشی بن گیا۔ اسی طرح شوگر سکینڈل کے سامنے آنے پر ایف آئی اے سے اس کی تحقیقات کروائی گئیں لیکن وعدے کے مطابق کسی ذمہ دار کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہ ہو سکی، الٹا شوگر سکینڈل کے ایک مرکزی کردار خسرو بختیار سے فوڈ سیکیورٹی جیسی غیر اہم وزارت لے کر اقتصادی امور جیسی اہم ترین وزارت دے دی گئی۔ اس تحریر کے لکھے جانے کے دوران ہی خبر سامنے آئی ہے کہ سابق وفاقی وزیر خسرو بختیار پشاور ائیرپورٹ سے بیرون ملک روانہ ہو گئے ہیں تاکہ نئی حکومت آنے کے بعد اپنے خلاف ہونے والی متوقع کاروائی سے بچ سکیں۔

راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ ایک اور بڑا کرپشن سکینڈل ہے جو اس دور تبدیلی میں سامنے آیا۔ اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور پراپرٹی ڈویلپرز کو فائدہ پہنچانے کے لیے راولپنڈی رنگ روڈ کے نقشے میں من پسند تبدیلیاں کی گئیں۔ اس منصوبے میں کرپشن کی خبریں باہر آنے کے بعد سابق وزیراعظم کے چہیتے مشیر زلفی بخاری کو استعفیٰ دینا پڑا لیکن چند بڑے افسروں پر ساری ذمہ داری ڈالنے کے بعد ایک دفعہ پھر بات صرف ایک استعفیٰ تک ہی محدود رہی نہ کوئی ریفرنس نہ تحقیقات نہ سزا اور سارے معاملے مٹی ڈال دی گئی۔

سلیکٹڈ حکومت کی امانت اور دیانت پاکستان کے ایک بڑے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کو لندن کی نیشنل کرائم ایجنسی کے جانب سےعائد کیے جانے والے ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کے جرمانے کی مد میں موصول ہونے والی رقم کے معاملے میں بھی بے بس نظر آئی۔ نیشنل کرائم ایجنسی لندن نے ملک ریاض سے وصول شدہ رقم ایک سو نوے ملین پاؤنڈ پاکستان کے حوالے کر دی لیکن صادق اور امین عمران حکومت نے ایک سو نوے ملین پاونڈ کی خطیر رقم برطانیہ سے وصول ہونے کے بعد قومی خزانے میں جمع کروانے کی بجائے سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے بحریہ ٹائون کراچی کیس میں ریاض ملک کو ہونے والے جرمانے کی وصولی کے لیے کھولے گئے بینک اکائونٹ میں جمع کروا دی۔ دوسرے لفظوں میں ملک ریاض نے برطانیہ میں ہونے والا جرمانہ برطانیہ میں ادا کیا جو صادق اورامین عمران خان نے پاکستان میں ملک ریاض کو واپس کر دیا۔ صداقت اور امانت کی ایسی مثال بھی پراجیکٹ عمران خان میں ہی مل سکتی ہے۔

خاتون اوّل کی فرنٹ لیڈی فرخ گجر کی کرپشن کی داستانیں بھی زبان زدِ عام ہیں۔ عمران حکومت ختم ہونے سے چند روز پہلے فرخ گجر کو پورے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ بیرون ملک فرار کروا دیا گیا بلکہ دروغ بر گردنِ راوی مبینہ طور پر اس فرار کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب کا سرکاری طیارہ استعمال کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ڈپٹی کمشنر سے لے کر تھانیدار تک ہر ٹرانسفر اور پوسٹنگ کا ریٹ مقرر تھا اور خاتون اوّل کو باقاعدہ طور پر اس میں ملوث قرار دیا جا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے بھائی اور رشتہ دار بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے اور کھلم کھلا لمبی چوڑی دیہاڑیاں لگاتے رہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ اس لیے کسی کو ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر کوئی حیرانگی نہیں ہونی چاہیے۔

پراجیکٹ عمران خان کے صادق اور امین وزیراعظم عمران خان کی بہن علیمہ خان جو شوکت خانم ہسپتال کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی بھی رُکن ہیں ان کی دبئی اور امریکہ میں اربوں کی پوشیدہ جائیدادیں سامنے آئیں۔ ایسی جائیدادیں جو ایف بی آر سے چھپائی گئی تھیں۔ اب سوال تو بنتا ہے کہ اگر یہ جائیدادیں حلال کے پیسے سے بنائی گئی تھیں تو پھر چھپائی کیوں گئیں اور ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے ذریعے انہیں ریگولرائز کیوں کروایا گیا اور جرمانہ کس بات کا ادا کیا گیا؟ صادق اور امین عمران خان کا ہی قول ہے کہ وہ ٹیکس ایمنسٹی سکیموں کے خلاف ہیں کیونکہ چور اور ڈاکو ان سکیموں کے ذریعے اپنے کالے دھن کو سفید کرتے ہیں۔ یہاں ایک بار پھر صادق اور امین عمران خان سے سوال بنتا ہے چونکہ ان کی اپنی بہن علیمہ خان نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھا کر اپنی پوشیدہ جائیدادوں کو ریگولرائز کروایا ہے تو کیا علیمہ خان کو بھی چور اور ڈاکو ہی کہا جائے گا؟ شوکت خانم ہسپتال جیسا پراجیکٹ جس کے لیے سارے پاکستان کے عوام نے دل کھول کر عطیات دئیے تھے لیکن عمران خان اور علیمہ خان کی بدعنوانیوں نے بہت سے لوگوں کا دل شوکت خانم ہسپتال کی طرف سے میلا کر دیا ہے۔

صاف شفاف اور امانت اور دیانت پر مبنی حکومت کا دعویٰ کرنے والے اور اپنے سوا باقی سب کو چور اور ڈاکو کہنے والے عمران خان کا اپنا حال یہ ہے کہ توشہ خانے کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ سعودی ولی عہد کی جانب سے تحفہ میں دی جانے والی کروڑوں روپے کی گھڑی توشہ خانے سے اونے پونے خرید کر کروڑوں روپے میں بیچے جانے کا اعتراف تو سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے بھی کیا جا چکا ہے۔

فروخت ہونے والی یہ گھڑی اب واپس سعودی ولی عہد کے پاس پہنچ چکی ہے لیکن اس کے بعد نہ تو ہمارے سعودی عرب سے ویسے تعلقات باقی رہے اور نہ پھر سعودی ولی عہد نے اس کے بعد صادق اور امین عمران خان سے کبھی ملاقات کی۔ اس سارے قصے میں پراجیکٹ عمران خان کا تو کچھ نہیں گیا البتہ دوست ملک کا تحفہ بیچنے پر ملک کا وقار مٹی میں مل گیا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ جو خبریں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق صادق اور امین کی وزارت عظمیٰ کے دوران جتنے بھی تحائف وصول ہوئے ان سب پر ہاتھ صاف کیا گیا ہے۔

اس سب کے باوجود ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ کرپشن میں گوڈے گوڈے دھنسے ہونے کے باوجود آج بھی موصوف عمران خان اپنے آپ کو واحد ایماندار، صادق اور امین بنا کر پیش کر رہے ہیں اور اپنے سیاسی مخالفین کو آج بھی چور اور ڈاکو کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں جبکہ صورتحال یہ ہے کہ ایک سرکاری افسر کا کہنا ہے کہ ساڑھے تین سالہ پراجیکٹ عمران خان کے دور میں اس لیول کی کرپشن کی گئی اور ایسی ایسی داستانیں سامنے آ رہی ہیں کہ جن کی مثال ماضی کی کسی حکومت میں نہیں ملتی۔

پراجیکٹ عمران خان قسط دوئم

تحریر: آفتاب احمد گورائیہ