ویٹو پاور کی سیاست میں نیوٹریلیٹی۔۔ سراب یا حقیقت؟

ویٹو پاور کی سیاست میں نیوٹریلیٹی۔۔ سراب یا حقیقت؟
پاکستان میں آج کل نیوٹرلٹی کا بڑا چرچہ ہے، کچھ ہفتے پہلے کی بات ہے کہ یہ اصطلاح سابقہ اپوزیشن فخریہ انداز میں بیان کرتی تھی۔ اس فخر میں ان کا یقین بھی جھلکتا تھا۔ اپوزیشن نیوٹرلٹی کے یہ معنی نکالتی تھی کہ عمر رسیدہ سیاسی بچہ عمران تو گیا !

لیکن عمران خان نے اس اصطلاح میں سے جانور نکال لائے، کہا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔ پھر اسلام کی تاریخ کے بڑے سپہ سالار کا حوالہ دیا اور جنرل باجوہ کا نام لیئے بغیر کہا کہ حق کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ۔ لیکن جنرل باجوہ ان کے ساتھ کھڑے ہونا تو دور کی بات کندھے سے اٹھاکر نیچے پھینکا اور صف ہی چھوڑ گئے۔

عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں نئے نئے سیاسی فلسفے اور جغرافیئے دریافت کیئے۔ بچپن سے ہمیں سیاسی استاد بتایا کرتے تھے کہ نیوٹرل تو پتھر ہوتا ہے۔ جسے جس طرف ٹھڈا مارو وہاں کھسک جاتا ہے۔ جانور اور انسان تو نیوٹرل ہو ہی نہیں سکتا۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ بھرے مجمعے میں قصائی بکری کاٹے اور آپ کہیں کہ " نہیں بھئی میں تو نیوٹرل ہوں" حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا، آپ تو قصائی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن عمران خان یہ اصطلاح جنرل باجوہ کو بتانے کیلئے تیار نہیں تھے، کیونکہ اس میں قصائی کا ذکر تھا۔ اس لیئے جانور کی اصطلاح پر کام چلالیا گیا۔

لیکن عمران خان جس جنرل باجوہ کو جمہوریت پسند جرنیل کہا کرتے تھے اب پی ٹی آئی کے جلسوں میں اسی جرنیل کے خلاف اسٹیج سے نعرے لگوائے جاتے ہیں۔ غصہ صرف یہ ہے " نہ وہ پشاور جاتا اور نہ حکومت جاتی"

لیکن تھوڑا پیچھے چلتے ہیں ۔۔یہی کوئی 71 سال پہلے۔۔ وطن عزیز کی فوج نے پہلے ملک کی خارجہ پالیسی پر اور اسکے بعد سولین اقتدار پر ویٹو پاور حاصل کرلیا۔ امریکہ سے 1951 میں جب فوجی امداد آنا شروع ہوئی تو ہماری اسٹیبلشمنٹ ایک طاقتور ادارا بن گئی اور بنتی ہی چلی گئی۔ وہ دن اور آج کا دن ہے اس کے راستے میں جو بھی رکاوٹ آئی اس نے اسے حقارت سے اٹھاکر باہر پھینک دیا گیا۔۔ سیاست اور سیاستدانوں پر تجربات کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے۔ بقول عائشہ صدیقہ کے، "بے ایمان جرنیلوں کو ایماندار سیاستدانوں کی تلاش ہوتی ہے" اور یہ ہی تلاش انہیں مختلف تجربے کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

ایوب خان نے اقتدار میں آتے ہی روائتی سیاستدانوں، جاگیرداروں، گدی نشینوں ،مذہبی جماعتوں اور دیگر قوتوں کو ساتھ لیا اور اپنے اقتدار کو جواز فراہم کرنے کیلئے انہیں مزید طاقتور بنادیا۔ جنہیں ساتھ ملایا ان کا عوام کے مسائل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ ملک کی فوج کو ایسی ہی سیاست وارا کھاتی تھی۔ مذہب پرستی کے ذریعے لوگوں کو متحد رکھنے اور جو کچھ ان کی زندگی میں ہے اس پر شکر صبر کرنے کی تلقین عام تھی، لوگوں کو تب بھی اور آج بھی یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان کی ذلت آمیز زندگی کا تعلق قسمت سے نہیں بلکہ ریاست سے جڑا ہے۔ لوگوں کو کہا گیا کہ صبر شکر کرو، روز قیامت اس کا اجر ملے گا۔ لوگوں نے ان کی بات مانی، وہ دن ہے اور آج کا دن، تب سے لیکر آج تک حکومت ہو یا ہماری عوام دونوں امداد کے آسرے پر زندگی اور ملک کو چلاتے آرہے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو ، محمد خان جونیجو ،محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے ادوار۔ اس کے بعد پرویز مشرف، یہ وہ سیاسی کہانیاں ہیں جن کے ہیروز الگ اور ولن ایک ہی ہے، سب پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے، اس کیلئے اپنے ہمنواؤں اور قلم کے طبلچیوں کے فن کمال پر گیت کاروں نے گیت بنائے اور پھر اس کو عکسری سیاسیوں نے گایا۔ لوگوں کا ذہن بنانے کیلئے کام جاری رکھا گیا، اس کامیاب پروجیکٹ کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی پاکستان کے کسی چھوٹے شہر کی ٹوٹی سڑک کے کنارے پڑےہوئے تعفن زدہ کوڑے کے ڈھیر کے ساتھ کھڑے کسی عام آدمی سے پوچھیں کہ اس ملک میں سب سے بڑا کرپٹ کون ہے تو وہ آپ کا بتائے گا کہ آصف زرداری یا نواز شریف۔

لاہور یا اسلام آباد میں پاپاجونز کے پیزا کی شاپ کے اندر موجود نئے ماڈل کے آئی فون استعمال کرتے نوجوان بھی یہ ہی بات دھراتے ہیں، یعنی ایک بات تو ثابت ہوئی کہ کم از کم اس معاملے پر تو سبھی ایک ہیں۔

مشرف دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف زرداری کی حکومت نے ایک وزیراعظم کی قربانی کے بعد پانچ سال پورے کیئے، ٹی وی اسکرینوں پر " عجب کرپشن کی غضب کہانی بیان کی جاتی " ایسا تاثر دیا جاتا کہ حکومت کل گئی۔

نواز شریف کی حکومت نے پانچ سال تو پورے کیئے لیکن وہ خود کو تاحیات ناہل ہونے سے نہ بچا پائے۔ ان کے دونوں ادوار کو کرپشن کے تاریخی دور قرار دیا گیا۔ عمران خان کو ایک مسیحا کے طور پر پیش کرنے کا پروجیکٹ شروع ہوچکا تھا۔ نواز شریف نے 2013 کے انتخابات میں اس پروجیکٹ کو ناکام بنایا تو بدلے میں تاحیات پارلیمانی سیاست سے اٹھاکر جیل بھیج دیا گیا، یہ تو اس کی خوش قسمتی تھی کہ پنجابی ہونے کے باعث اسے طبی بنیادوں پر باہر بھیجنے کا بندوبست اسٹیبلشمنٹ نے ہی کیا، نہیں تو عمران خان تو اسے جیل سے زندہ نکالنے کو تیار ہی نہ تھا۔

خدا خدا کرکے 2018 کے انتخابات میں کرپشن سے پاک نیا پاکستان پروجیکٹ شروع ہوا۔ ریاستی سطح پر بے انتہا سرمائے اور جس جذبے کے ساتھ کریکٹر بلڈنگ شروع ہوئی اس نے عمران خان کو ایک نجات دہندہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہر ٹی وی چینل ،موبائل اسکرین یا اخبار کی خبروں اور مضامین سے یہ ہی تاثر ملتا کہ اب بنے گا نیا پاکستان، ملک میں موجود غیر عمران حامی لوگ بھی یہ کہتے سنے گئے کہ " یار لگتا ہے کہ کچھ کرجائے گا"

ایک منظم ریاستی مہم عمران خان کے مسیحا ہونے کا ایک بھرپور تاثر قائم کرچکی تھی۔ ملکی تاریخ کی پہلی ووٹ والی حکومت جس کیلئے اسٹیبلشمنٹ نے آنکھیں بچھائیں اور اختتام سے چند دن پہلے تک کوشش کی کہ وہ اپنا تجربہ کامیاب بنالے تاکہ آنے والے وقتوں میں ملک کا سیاسی نظام ہی تبدیل کردیا جائے۔ لیکن پروجیکٹ ناکام ہوا۔ پھر نیوٹرل نہ بنتے تو کیا کرتے۔

سابقہ اپوزیشن کی جماعتیں پشاور سے سال بعد پنڈی پہنچنے والے فیض سے خوفزدہ تھیں، کہ کہیں 2023 والے انتخابات ہی ہاتھ سے نہ نکل جائیں، ادھر جی ایچ کیو کی گدی پر موجود جرنیل کو اندازہ ہوگیا کہ ملک کے اندر باہر جن قوتوں پر تکیہ کیئے بیٹھے ہیں اس نے ان کو اور ہمیں بھی آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں۔ اس لئے دونوں کے مفادات جب ایک ہوئے تو پھر نیوٹرلٹی کا دور شروع ہوا۔

لیکن یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ اس سوال کو جاننے کیلئے پہلے آپ کو یوٹیوب پر عمران خان کی 26 جولائی 2018 والی تقریر سننا پڑے گی۔ جب وہ عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے وزیراعظم بننے کیلئے تیار تھے۔ عمران خان کے خطاب کی ابتدا میں جو ڈرامہ کیا گیا ہے اس نے تاثر دیا کہ ہمارا بننے والا وزیراعظم کتنا سادہ ہے، نہ کوئی پروٹوکول ہے نہ کوئی ٹھاٹھ باٹھ۔۔ اصل میں عوام کو الو بنانے کا یہ بھی ایک تسلسل ہی تھا۔

وزیراعظم بننے سے پہلے ہی وزیراعظم کے طور پر قوم سے کیئے گئے عمران خان کے خطاب کے چند چیدہ چیدہ اہم نکات یہ ہیں۔

پہلی بار ریاست مدینہ کا تذکرہ کیا ۔۔دولت مندوں سے دولت لیکر غریبوں میں تقسیم کرنے اور اپنے ذات پر حملہ کرنے والوں کا معاف کرنے کا اعلان کیا۔۔۔

کسی بھی مخالف کے خلاف سیاسی انتقامی کارروائی نہ کرنے اور قانون کی بالادستی کی یقین دھانی کرائی۔۔ کہا کہ ایسے ادارے بنائیں گے جو مجھ سمیت میرے وزرا پر نظر رکھیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ عوام کے پیسوں کی حفاظت کروں گا۔ مجھے شرم آئے گی کہ میں پی ایم ہاؤس میں قیام کروں، ہماری حکومت فیصلہ کرے گی کہ وزیراعظم ہاؤس کا کیا کرنا ہے؟ پی ایم ہاؤس کو کسی تعلیمی ادارے کیلئے استعمال کریں گے۔ منسٹر انکلیو میں چھوٹی سی جگہ دیکھیں گے جہاں وزیراعظم قیام کرے گا۔ ہم ملک کے تمام گورنر ہاؤسز کو عوام کیلئے استعمال کریں گے۔ نتھیا گلی میں قائم گورنر ہاؤس کو ہوٹل بنادیں گے۔ جہاں سرکاری ریسٹ ہاؤسز ہیں ان کا کاروباری استعمال ہوگا اور وہاں سے حاصل ہونے والی رقم عوام کیلئے استعمال ہوگی۔

لیکن وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان نے سب سے پہلے ہیلی کاپٹر پر اپنی ذاتی رہائش گا بنی گالا آنا جانا شروع کیا، کہا گیا کہ لوگوں کو روزانہ کے روٹ لگنے کی تکلیف سے بچانے کیلئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے، جب اپوزیشن نے شور مچایا تو فواد چوہدری نے کہا کہ " اگر 55 روپے فی کلومیٹر اخراجات ہوں تو ہیلی کاپٹر پرجانے میں کیا قباحت ہے" اقتدار ختم ہوا تو پتہ چلا کہ ہیلی کاپٹر کے یومیہ اخراجات 8 لاکھ روپے تھے۔

اس کے بعد پی ایم ہاؤس کی بھینیسیں، گاڑیاں فروخت کی گئیں، ایوان صدر اور گورنر ہاؤسز کو عوام کیلئے دو تین بار کھولا گیا۔ لوگ تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔ بھینسیں اور کٹے پالنے کے معاشی فرمودات بیان کیئے گئے۔ میڈیا کا معاشی طور پر گلا دبایا گیا تو اس نے چیخنا شروع کردیا تو فوج کے ترجمان نے ہدایت کی کہ مثبت رپورٹنگ کریں۔ اس کے بعد مثبت رپورٹنگ کا دور شروع ہوا، آزاد میڈیا پریس رلیز میڈیا بن گیا۔

قومی اسمبلی میں بجٹ اور اہم قانون سازی کے دوران ارکان کو اکٹھا کرنے کا ذمہ بھی عمران خان نہیں نبھاتے تھے۔ وہ ان کوکہتے کہ یہ میرا کام نہیں۔ جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تب بھی عمران خان کو لگا کہ اسے ناکام بنانا بھی اس کا کام نہیں۔

2023 کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت کیلئے 2020 میں ہی کام شروع کردیا گیا، لوگوں کو تاثر دیا گیا کہ ملک میں صدارتی نظام آئے گا ، عمران خان صدر بنے گا اور ملک کو مکمل طاقت کے ساتھ چلایا جائے گا۔

لیکن فیض حمید کے ڈی جی آئی ایس آئی برقرار رکھنے کے معاملے پرعمران خان کی ضد نے اسٹیبلشمنٹ کی اہم شخصیات کو احساس دلایا کہ پروجیکٹ برے طریقے سے ناکام ہورہاہے۔ یہ پہلی بار تھا کہ عمران خان کی وجہ سے فوج کی اہم شخصیات کے درمیان دوریاں پیدا ہوئیں۔ مارچ میں جمع ہونے والی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کا عمران خان کو شاید اس لیئے یقین تھا کہ پشاور سے کمک پہنچ جائے گی۔ پھر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یقینی ہوگئی تو اس نے یہ بھی پلان بنالیا کہ اگر وہ نہیں رہے گا تو پھر کوئی نہیں رہے گا۔ لیکن وہ ناکام رہا ۔ نیوٹرلٹی کی جہ جہ کار ہوگئی۔

پاکستانی حیران ہیں کہ ہماری فوج آئین کی بالادستی کیلئے کیا کچھ کرنے کو تیار ہے؟ لیکن عمران خان ماننے کو تیار نہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ کندھوں پر بٹھاکر لایا گیا اور اب تمام خرابیاں میرے کھاتے ڈال کر خود کو الگ کرلیا۔ وہ اپنی نااہلی کا پورا بوجھ خود پر ڈالنے کیلئے تیار نہیں۔

ایک بات یقینی ہے کہ عمران خان کا ناکام تجربہ اسٹیبلشمنٹ اور موجودہ حکومت کو چین سے نہیں بیٹھنے دے گا۔ پنجاب سمیت بڑے شہروں میں اشرافیہ، متوسط اور عسکری بیورو کریسی اور اس کے بچوں کی عمران خان کو اچھی خاصی حمایت حاصل ہے۔ عمران خان، جس نے حکومت میں رہتے ہوئے اور اقتدار سے آئینی بیدخلی کے بعد مذہب اور ملک کی خودمختاری کا چورن نہ صرف کامیابی سے بیچا بلکہ لوگوں کو اس کا عادی بھی بنایا، نتیجے میں چورن خور فوج کو گالیاں دے رہے ہیں۔

فوج کی قیادت عمران خان سے تنگ ضرور ہے لیکن اس کی دشمن نہیں، اگر وہ اپنی اوقات میں رہا تو ممکن ہے کہ نظام میں اس کیلئے گنجائش نکال لی جائے۔ لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ جسے سیاست میں ویٹو پاور کا اختیار ہے وہ کسی طور بھی نیوٹرل نہیں ہوسکتا۔ یہ اصطلاح صرف ان لوگوں کیلئے ہے جنہیں یہ گمان ہے کہ پاکستان میں جمہوریت جڑ پکڑنے جارہی ہے۔ لیکن جلد ہی جمہوریت کے پودے کو اکھاڑ کر چیک کیا جائے گا کہ اس نے جڑ پکڑی ہے کہ نہیں؟

مصنف اسلام آباد میں مقیم سینیئر سیاسی رپورٹر ہیں۔ ملکی سیاست پر ان کے مضامین و تجزیے مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔