'عمران خان کچھ خاص علاقوں میں شہرت رکھتے ہیں، لیکن ضروری نہیں یہ حمایت پارلیمانی فتح میں تبدیل ہوگی'

'عمران خان کچھ خاص علاقوں میں شہرت رکھتے ہیں، لیکن ضروری نہیں یہ حمایت پارلیمانی فتح میں تبدیل ہوگی'
رواں ماہ کے اوائل میں لندن کے ہائڈ پارک میں بنائی گئی ایک ویڈٰیو میں ایک شخص کو ایڈیڈاس ٹرینر قریب میں موجود ایک پوسٹر پر مارتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ شخص پورے اطمینان سے پاکستان کی سپریم کورٹ کے ان پانچ ججز کی تصویروں کو ادھیڑ رہا ہے جنہوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے انعقاد کے حق میں فیصلہ دیا۔

کرکٹ لیجنڈ خان جنہوں نے 1990 کے وسط میں سیاست میں قدم رکھا، پاکستانی پارلیمنٹ میں 174 ووٹوں کا سامنا کرنے کے بعد منصب سے ہٹا دیے گئے۔ حزب اختلاف کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے 172 ووٹ درکار تھے اور عدالت عالیہ نے دیکھا کہ عمران نے ووٹنگ کے انجماد کی کوشش میں غیر آئینی طرزعمل اختیار کیا۔

"میں اس کا چشمہ توڑ ڈالوں گا"، ویڈیو میں موجود شخص ایک جج کی تصویر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔ اس دوران ایک اور شخص نے، جس کی ویڈیو صحافی مرتضیٰ علی شاہ نے بنائی، پوسٹر پر تھوک ڈالا۔

لندن میں خان کے حامیوں کی مخاصمت اس وقت دیکھنے میں آئی جب حزب اختلاف کے سیاستدانوں نے کئی ہفتوں تک سابق وزیر اعظم پر اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے عوام میں بے چینی پیدا کرنے کے الزامات عائد کیے۔

خان کا دعویٰ ہے کہ انہیں طاقت سے ہٹائے جانے کے پیچھے امریکہ کی سربراہی میں کی جانے والی سازش ہے اور اس کی وجہ ان کا فروری میں ماسکو کا دورہ منسوخ کرنے سے انکار تھا۔ امریکہ نے ان الزامات کی تردید کی ہے لیکن خان نے پیچھے ہٹنے سے قطعی انکار کر دیا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کے لئے 'آخری بال' تک لڑتے رہیں گے۔

تحریک انصاف کی جانب سے ایسی ہی ریلیوں کا انعقاد دبئی اور لندن میں بھی کیا گیا، جس میں رچمنڈ میں خان کی سابق اہلیہ جمائما گولڈ سمتھ کے گھر کے باہر منعقدہ مظاہرہ بھی شامل ہے۔ میٹروپولیٹن پولیس کے مطابق مظاہرے کے دوران فورس کے افسران موجود رہے اور کوئی گرفتاری نہیں کی گئی۔

خان کی شہرت سماجی میڈیا پر خاصی نمایاں ہے جہاں وہ بڑی تعداد میں موجود اپنے حامیوں سے براہ راست مخاطب ہوتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے ٹوئٹر سپیس پر منعقدہ سیشن نے سامعین کے حوالے سے نیا ریکارڈ قائم کیا اور اس لائیو ایونٹ میں 160،000 سے زائد لوگوں کی شرکت دیکھی گئی۔

خان کے رخصت ہونے کے بعد ان کی پوزیشن مزید مضبوط ہو گئی ہے لہٰذا سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ان کی طاقت کے ایوانوں میں واپسی عین ممکن ہے۔ ممکن ہے کہ انہیں دوبارہ کبھی منتخب نہ کیا جائے، لیکن فقط 75 سال قابل معرض وجود میں آنے والے ملک کا سیاسی منظرنامہ شاید کبھی بھی پہلے جیسا نہ رہے۔

پرستشِ خان

2018 میں اقتدار سنبھالنے والے خان نے کرپشن کے خاتمے اور معیشت کی بحالی کا وعدہ کیا تھا۔ اس بلند و بانگ دعوے کی کشش نے بڑے مجمعوں کو اکھٹا کیا لیکن مہنگائی نے ملک کو تباہ اور لاکھوں لوگوں کو غربت کی جانب دھکیل دیا۔

حالیہ مہینوں میں عوامی رائے پر مبنی سروے میں خان کی مقبولیت کو گرتے دیکھا گیا، جس کی ممکنہ وجہ روزمرّہ اخراجات میں بڑھتا ہوا اضافہ اور عوام میں انتخابی نعروں کے پورے نہ ہونے کا احساس ہے۔ حزب اختلاف کا بھی یہی کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد خان کی جانب سے وعدے پورے کرنے میں ناکامی اور مہنگائی اور دیگر معاشی دبائو کی وجہ سے پیش کی گئی۔

سیاسی مبصر اور کورنیل یونیورسٹی، نیویارک کے اساتذہ میں شامل رضا احمد رومی کا کہنا ہے کہ پاکستانی اپنے ملک کی معاشی مشکلات کا درد واضح محسوس کر رہے تھے، جس کی وجہ 'شیمبولک' طرز حکمرانی تھا۔

لیکن اس کے باوجود خان نے بہت جلد گفتگو کا رخ مہنگائی سے امریکہ کی سربراہی میں کی جانے والی مبیّنہ سازش کی جانب موڑ دیا۔ رومی کےمطابق پاکستان میں امریکہ مخالف بیانیہ خاصا طاقتور ہے اور خان نے اسے اپنی حمایت میں اضافے کے لئے کھل کر استمال کیا۔

رومی نے نیا دور کو بتایا کہ خان نے سماجی میڈیا کے عقلمندانہ استعمال کے ذریعے اپنے مخصوص بیانیے کی ترویج اور اپنی حمایت کو بحال کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ "ان کے حامیوں کا خیال ہے کہ خان مظلوم ہے اور اس کے ساتھ صحیح معاملہ نہیں ہوا، اور یہ کہ ایک غیرملکی سازش کی گئی اور فوج اور ججوں نے انہیں نکال باہر کیا۔ اور انہوں نے اسی بیانے کو استعمال بھی کیا۔"

رومی نے متنبہ کیا کہ خان ہزاروں لوگوں کو تو جمع کر سکتا ہے لیکن اس بات کو ان مخصوص شہروں کی آبادی کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے جہاں خان نے لاکھوں افراد پر مشتمل ریلیاں منعقد کیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی خان کی بڑی عوامی حمایت کا تاثر پیدا ضرور کر سکتی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ حقیقت بھی یہی ہو۔

اگرچہ 2018 میں پی ٹی آئی نے سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کیں لیکن پارٹی نے صرف 32 فیصد 'پاپولر ووٹ' حاصل کیا۔ سیاسی سائنسدانوں کے مطابق پی ٹی آئی سب سے زیادہ شہرت مڈل کلاس اور شہری علاقوں میں رہنے والے لوگوں میں رکھتی ہے، لیکن پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصّہ ان دونوں ہی اقسام میں شامل نہیں۔

"جب بات اگلے انتخابات پر آئے تو ضروری نہیں کہ یہ سب پاپولر ووٹ یا پارلیمنٹ کی سیٹوں میں تبدیل ہو سکے،" رومی نے کہا۔ "وہ کچھ خاص علاقوں میں شہرت رکھتے ہیں اور کوئی شک نہیں کہ معاملہ یوں ہی رہے، لیکن یہ کہنا کہ اسی کا نام اکثریت کا حصول ہے، درست نہ ہوگا۔"

ایک طرف پی ٹی آئی کا اپنے حلیفوں کی حمایت کھونا کامیاب تحریک عدم اعتماد پر منتنج ہوا تو دوسری جانب خان بظاہر فوج کی حمایت بھی کھو بیٹھے۔ 1947 میں معرض وجود میں آنے کے بعد سے پاکستان بہت بار مارشل لا کا سامنا کر چکا ہے اور ملک کی سربراہی اکثر فوج یا فوجی سربراہ نے کی۔

خان کو فوج کی حمایت حاصل تھی یہاں تک کہ ان پر حزب اختلاف کی جانب سے یہ الزام موجود تھا کہ انہیں 2018 میں کامیابی کے لئے 'سلیکٹ' کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ، پاکستانی پولیٹیکل سائنٹسٹ اور ریسرچ ایسوسی ایٹ، ایس او اے ایس یونیورسٹی آف لندن نے اضافہ کیا کہ اس نوعیت کے ٹکرائو نے خان کی لیڈرشپ میں دراڑیں پیدا کر کے انہیں ایک جانے بوجھے راستے پر دھکیل دیا۔

"انہوں نے سابق سیاسی رہنمائوں کی غلطی دہراتے ہوئے فوجی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کی کوشش کی، یہ سمجھے بغیر کہ بطور ادارہ فوج کیسے کام کرتی ہے،" صدیقہ نے کہا۔

"جنوبی ایشیا کی سیاست کے ساتھ مذاق یہی ہے کہ یہ یا تو موروثی یا پھر کسی کی پرستش پر مبنی ہوتی ہے اور دوسری قسم ہمیشہ خاصی مہنگی پڑ جاتی ہے۔ عمران خان دوسری قسم کے نمائندہ ہیں اور ان کی پشت پر کوئی پارٹی سٹرکچرموجود نہیں۔ مطلب یہ کہ پارٹی تو ہے، لیکن خان کی عدم موجودگی میں وہ برقرار رہ پائے گی؟ بالکل نہیں۔ ایک منٹ کے لئے بھی نہیں۔"

کرکٹ پلے بوائے

کئی مبصورین نے خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کا موازنہ کیا ہے، ٹرمپ وہ شخصیت جو رئیلیٹی ٹی وی سے وائٹ ہائوس تک شہرت کے گھوڑے پر سوار رہے۔ نیوکلیئر فِزیسِسٹ اور ایکٹیوسٹ پرویز ہودبھائی نے 2015 میں دونوں کے درمیان مشترکات کا اظہار کیا اور حالیہ برسوں میں اس پیش گوئی کے بارے میں مزید لکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ خان اور ٹرمپ دونوں ہی کی سیاسی 'ٹول کِٹ' میں 'حامی گروہوں کو بھڑکانے کے لئے تند و تیز زبان بکثرت پائی جاتی ہے۔'

ہودبھائی کے بھارتی آن لائن اخبار دی پرنٹ میں گذشتہ ماہ شائع بیان کے مطابق عمران خان کی سیاست 'اسی طرح وعدوں کا عمل ہے جو پورے نہ بھی ہو سکیں تب بھی ان کے چاہنے والوں میں 'فینٹیسی' ضرور پیدا کر دیتے ہیں۔'

90 کی دہائی میں سیاست میں قدم رکھنے کے بعد خان نے اپنے پلے بوائے پرسونا سے دوری اختیار کرتے ہوئے واضح طور پر ایک مخلص مسلم کی حیثیت اختیار کی۔

رومی نے یہاں پر کہا کہ ناصرف خان نے اپنی مذہبی بنیادوں کو دریافت کرنا شروع کیا بلکہ کولونیئل ازم کے خلاف آرٹیکلز لکھنے کا بھی آغاز کیا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اگرچہ خان کے مذہبی جوش و خروش میں خلوص کا پہلو موجود تھا، کئی افراد کا سمجھنا ہے کہ اس نے اس کا استعمال سیاسی مقاصد کے لئے کیا۔

رومی نے مزید اضافہ کیا کہ امریکہ مخالف بیانے کے بعد اگر کوئی عمل پاکستان میں سیاستدانوں کے لئے کامیاب ٹھہرتا ہے تو وہ مذہب اور مذہبی اصطلاحوں کی طرف پلٹنا ہے، اور اس حوالے سے انہوں نے خان کی جانب سے پاکستان کو ریاست مدینہ میں تبدیل کرنے کی خواہش کی طرف اشارہ کیا، ایک ایسی ریاست جس کا قیام اللہ کے پیغمبر محمدﷺ کی جانب سے عمل میں لایا گیا تھا۔

"اگر آپ دیکھیں تو خان کا یہ نعرہ کچھ 'میک امیریکا گریٹ اگین' کے نعرے سے مماثلت رکھتا ہے۔" ٹرمپ نے یہ نعرہ اپنی انتخابی مہم کے دوران لگایا تھا۔ "لہٰذا خان مذہبی نوعیت کے ایسے فیصلے کرتے رہے ہیں جن سے وہ خود کو متقی مسلمان ثابت کر سکیں۔"

مشکل راستہ

خان کے لئے آگے کا راستہ مشکل ہو سکتا ہے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ان کی جماعت الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کیس کا سامنا کر رہی ہے اور اس کا فیصلہ آنے والے ہفتوں میں کیا جانا ہے۔

ان الزامات کا آغاز 2014 میں ہوا جب پارٹی کے ایک بانی رکن نے کہا کہ بیرونی مالی امداد غیر قانونی طور پر کی گئی اور اس کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا۔ خان کو ایک ایسے فیصلے کا سامنا ہو سکتا ہے جس کے تحت وہ سیاست سے پانچ سال تک بے دخل کر دیے جائیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور دیگر معاشی مسائل کے سبب آنے والے ہفتے ملک میں رہنے والوں کے لئے مشکلات کے تسلسل کا باعث بن سکتے ہیں اور اسی بات کو خان کی جانب سے اپنے حامیوں میں بے چینی پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

یہی بے چینی مزید جارحانہ احتجاج میں تبدیل ہو سکتی ہے، صدیقہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لوگوں نے کسی انقلاب کی طرف جھکائو ظاہر نہیں کیا ہے۔ لیکن جو بات ان کے لئے تشویش کا باعث ہے وہ یہ کہ خان سے بڑی تعداد میں جذباتی طور پر وابستہ لوگوں کے پاس ان کے سیاست کو خیرباد کہنے کے بعد صرف شدید غم و غصے کی کیفیت ہی باقی رہ جائے گی۔

کیتھرین سانز آئرش اخبار 'بزنس پوسٹ' کی سینیئر رپورٹر ہیں۔