صحافت سے قطبیت ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ عمران خان جھوٹ بولنا چھوڑ دیں

صحافت سے قطبیت ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ عمران خان جھوٹ بولنا چھوڑ دیں
سینیئر تجزیہ کار سید طلعت حسین نے کہا ہے کہ عمران خان کو جن صحافیوں پر یقین ہے کہ وہ پیسے لیتے ہیں ان کے ساتھ انٹرویوز کر لیں۔ یقین کریں ان کو سٹوڈیو سے بھاگنے کا راستہ نہیں ملے گا۔

جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ” میں گفتگو کرتے ہوئے طلعت حسین کا کہنا تھا کہ صرف پاکستانی میڈیا کے اندر خرابی نہیں، دنیا بھر میں آپ کو سنجیدہ میڈیا بھی ملے گا اور ان ہی ممالک کے اندر ایسا میڈیا بھی ملے گا جسے پڑھ کر وہاں کے لوگ بھی شرمندہ ہوتے ہیں۔ جن ممالک کی ہم مثالیں دیتے ہیں، وہاں پاپا رازی بھی ملتے ہیں یعنی ایسے لوگ کہ جب لیڈی ڈیانا حادثے میں مر رہی تھی تو اس کی تصاویر اتار کر اپنے پاس رکھ رہے تھے جب کہ ہمیں وہاں جرائم پیشہ لوگ بھی ملتے ہیں۔ یہ لوگ اسی انڈسٹری کا حصہ ہیں۔ میڈیا میں قطبیت ہے لیکن اسے ختم کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ عمران خان جھوٹ بولنا چھوڑ دیں۔

سید طلعت حسین نے کہا کہ میری تجویز یہ ہے کہ عمران خان تمام صحافیوں کے ساتھ ایک ایک کر کے ون آن ون انٹرویو کر لیں جن پر ان کو حتمی طور پر یقین ہے کہ وہ پیسے لیتے ہیں۔ ان کے پاس اتنا بڑا انفراسٹرکچر موجود ہے کہ ان کو کوئی نہ کوئی ثبوت مہیا ہو جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں عمران خان سے کہتا ہوں کہ وہ تیاری کر کے آ جائیں اور لائیو ڈیبیٹ کریں، ہم بھی تیاری کر کے آئیں، اور ون آن ون انٹرویوز کی ایک سیریز چلائیں، عمران خان کو سٹوڈیو سے بھاگنے کا رستہ نہیں ملے گا۔

طلعت حسین کے علاوہ اس پروگرام میں صحافی عاصمہ جہانگیر اور فہد حسین بھی موجود تھے۔ طلعت نے کہا کہ ہم چاروں کو عمران خان علیحدہ علیحدہ انٹرویو دے لیں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم پیسے لے کر ان پر تنقید کرتے ہیں۔ ہم بھی ان کے سامنے حقائق رکھیں گے اور وہ ہمارے سامنے اپنا نقطۂ نظر رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی شاید ریاست کا 30 فیصد حصہ ایسا ہے جو عمران خان کو ایسے صحافیوں کے خلاف کوئی ثبوت ہوئے تو لازمی فراہم کر دے گا۔ تو وہ ثبوت بھی لے آئیں۔ اور دوسری جانب ہم بھی مکمل تیاری کر کے آ جاتے ہیں۔

طلعت حسین نے یہ چیلنج گذشتہ روز عمران خان کی ایبٹ آباد میں کی گئی تقریر کے بعد دیا جہاں عمران خان نے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ میڈیا کے کچھ لوگوں پر بھی نام لیے بغیر غداری کا الزام عائد کیا تھا۔ عمران خان نے جہاں ایک طرف الزام لگایا کہ امریکہ کے حکم پر پاکستان میں حکومت تبدیل کی گئی، وہیں انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ یہ تبدیلی پاکستان میں بیٹھے میر جعفروں اور میر صادقوں کی مدد سے لائی گئی۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میر جعفر سراج الدولہ کا آرمی چیف تھا۔ اس کے بعد انہوں نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت پر چوری اور کرپشن کے علاوہ امریکہ کی غلامی کا الزام لگایا۔ پھر فرمایا کہ عدالتیں رات کو 12 بجے کھل گئیں۔ یاد رہے کہ سابق وفاقی وزیر اسد عمر نے بھی ایک حالیہ انٹرویو میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ ہم جاننا چاہتے ہیں عدالتیں رات 12 بجے کیوں کھلیں۔ اور پھر عمران خان صاحب نے میڈیا پر بھی اس سازش کا حصہ ہونے کا الزام لگا دیا۔

مدعا ان کا بنیادی طور پر یہ ہے کہ کسی کا نام نہ لیا جائے تاکہ ان کو یوٹرن لینے میں آسانی رہے۔ مثلاً اتوار کو سراج الدولہ کے سپہ سالار کو غدار کہنے کے بعد انہوں نے سوموار کو مزید وضاحت دی کہ ان کی مراد یہاں نواز شریف اور شہباز شریف سے تھی۔ اب وہ کس ملک کے سپہ سالار رہے ہیں، یہ عمران خان نے واضح نہیں کیا۔ اسی طرح وہ میڈیا میں بھی کسی کا نام نہیں لینا چاہتے۔ یوں ان کے دو مقاصد حل ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ پچھلی دفعہ جب انہوں نے نجم سیٹھی پر نام لے کر جھوٹا الزام لگایا تھا، جو کہ بعد میں انہوں نے خود تسلیم کیا کہ 'سیاسی بیان' تھا، اس کے لئے انہیں اب تک ایک ہتک عزت کیس کا سامنا ہے۔ تو ایک تو وہ ان ہتک عزت کے کیسز سے بچنا چاہتے ہیں۔ دوسرا مقصد یہ حل ہوتا ہے کہ اب کوئی بھی صحافی ان کے خلاف بات کرے، اس پر سازش میں شامل ہونے کا الزام لگایا جا سکتا ہے کیونکہ انہوں نے کسی کا نام نہ لے کر تمام میڈیا کو ہی اپنے سپورٹرز کے لئے ہدف بنانے میں آسانی کر دی ہے۔

ایسے میں طلعت حسین کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جانا انتہائی اہم ہے۔ اگر تمام میڈیا عمران خان سے ناموں کا مطالبہ شروع کر دے تو شاید وہ ایسے بے سروپا الزامات دہرانا چھوڑ دیں۔ لیکن کیا کیجیے کہ ملکی سیاست کی طرح صحافت بھی یوں دھڑوں میں تقسیم ہے کہ اس نیک کام کے لئے بھی خود عمران خان نہیں بلکہ ان کے حامی اینکر اور وی-لاگر سامنے آئیں گے۔ وہی جن کو وہ انٹرویو دیتے ہیں اور جو نجم سیٹھی کے الفاظ میں ان کو فل ٹاس گیندیں کرواتے ہیں تاکہ خان صاحب اٹھا اٹھا کے چھکے ماریں۔

پاکستان میں صحافیوں کی قطبیت تو اپنی جگہ۔ طلعت حسین کا چیلنج بھی خیال تو اچھا ہے لیکن ایک خیال سے بڑھ کر کچھ نہیں کیونکہ عمران خان صاحب واقعتاً نہیں سمجھتے کہ ان پر تنقید کرنے والے صحافی امریکہ سے ہدایات لیتے ہیں، وہ تو غداری کارڈ کو محض ایک سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہماری عدالتیں اس طرح کے الزامات کو سنجیدگی سے لینا شروع کر دیں، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس متحد ہو کر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے اور اس کے سامنے دستِ سوال دراز کرے کہ ملک بھر کے صحافیوں کے کردار پر سوالیہ نشان لگانا اور نتیجتاً پورے میڈیا کو discredit کرنا جمہوریت پر حملے کے مترادف ہے اور ججز بھی اپنی عزتیں بچانے کی فکر سے آزاد ہو کر میرٹ پر فیصلے دیں تو عمران خان کے اس قوم کو تقسیم کرنے کی خواہش پر مبنی بیانیے کو لگام ڈالی جا سکتی ہے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.