سقوطِ کابل نئی نسل کے لیے تابناک و تاریک مستقبل کے سوا کچھ نہیں

سقوطِ کابل نئی نسل کے لیے تابناک و تاریک مستقبل کے سوا کچھ نہیں
جنگ کے بادلوں کی گرج چمک، طوفانی بارشوں کی مانند گولیوں کے نشان،آواز میں پلنے والا افغان کہیں کا نہیں۔ اُس پار کا مظلوم ہے اور اس بارڈر کی مدَ مقابل کا ظالم۔

افغانستان کے شہزادوں کے سروں پر خون کی ہولی کھیلی گئی۔ نوجوانوں کے خواب کو تاریک کیا گیا ہے۔ باقی مانند زندگی کو قبرستان بنا دیا گیا۔
ہزاروں قبروں کے عقب میں دس مائیں بنا شناخت کے قبروں کو اپنا سمجھ کر پتھروں کو چھو رہی ہیں۔ اجتماعی قبروں کو دفنانے کے لیے نوجوان آلات کے ساتھ کھڑے چاک و چوبند ہیں۔

بہنوں کے شہری حقوق اور انفرادی زندگی اور آزادیاں برقعے میں قید ہیں۔ انفرادی آزادی اجتماعی کی مانند ہے۔ چوراہے پر کھڑی بہن کب تک سر تاپہ برقعے سے آزادی کے لیے کھڑی رہے گی اور کن مشکلات کا شکار رہے گی۔

بیٹی کا تعلیم تین گھنٹے کا تمسخر ہے۔ باریش جنگجو جسے اب انتظامی معاملات میں دنیا کا نمبر ون عالم کہا جاتا ہے مستقبل کے شعور، آگاہی، آشناہی، امید جسے علم کہا جاتا ہے کہ کرسی پر بیٹھ کر اسکول کھولنے کی سمن دیتا ہے اور پھر انفرادی نفسیاتی موڈ کو جانچتے ہوئے بند کرنے کی احکامات دیتا ہے۔

چوک و چوبند بینکرز کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر کیا گلہ۔ قابلیت اور آرورڈ،کابل یونیورسٹی یا دارلعلوم طالب کے عالم پر کیا شکوہ جو ملکی سرکاری بینک میں شعبہِ صحت کی فقدان کو پُر کرنے یا زرِ مبادلہ کے زخائر کو بروئے کار لاتے ہوئے خوشحال افغانستان بنائے۔

فال آف کابل کا ہیش ٹیگ مسرت اور موضوعِ بحث تھا۔ اب فال آف کابل نئی نسل کے لیے تابناک و تاریک مستقبل کے سوا کچھ نہیں۔ اڑتیس ملین انسان تاریک راہوں میں زندہ ہیں۔

میزبان پر اور کیا گلہ کہ کراچی کا اخباری فرد افغانی کو "تشدد زدہ افغانی" کو "پُر تشدد افغان" کہنے پر دریغ نہ کرے۔

شہرِ قائد کی اس میزبانی پر کوئی شک نہ کیا جائے جو محافظ کی وردی میں سادہ لوح انسان علاج و معالجہ کے لیے کراچی آنے والے کو بنگلہ کی طبق کی ریاضی کے جرم پر تین ہزار بمشکل بارگین کے ساتھ وصول کرے۔ اُس میزبان کے لیے اُنگلی نہ اٹھائی جائے جو رکشے کا ڈرئیور بن کے آپ کو صادق و امین چور کے دروازے پر لے جائے یا پھر اُس پر جو گن پٹی پر رکشے کو روک کر سمسنگ ڈوز توشہ خانے میں جمع کرنے کے لیے لے جائے۔
کندھے پر آٹے کی بوری رکھ پر افغان مزدور پر تشدد ہے۔ پان کی دکان کا خوشحال خان اور سڑک پر کمبل بیچنے والا افغان پر تشدد ہے۔

یوسف بلوچ ایک اردو کالم نگار اور طالب علم ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔