• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
بدھ, مارچ 29, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

کیا ایسا کوئی طبقہ ہے جو درپردہ اب بھی عمران خان کی مدد کر رہا ہے؟

کیا ایسا کوئی طبقہ ہے جو پردوں کے پیچھے خان صاحب کی مدد کر رہا ہے جبکہ ادارہ خان صاحب کے ساتھ مزید نہ چلنے کا فیصلہ کر چکا ہے؟ اگر تو کوئی ایسا طبقہ ہے تو یہ وہی طبقہ ہے جو کئی سالوں سے خان صاحب میں سرمایہ کاری کر رہا ہے

بیرسٹر اویس بابر by بیرسٹر اویس بابر
مئی 13, 2022
in ایڈیٹر کی پسند, تجزیہ
273 2
2
کیا ایسا کوئی طبقہ ہے جو درپردہ اب بھی عمران خان کی مدد کر رہا ہے؟
321
SHARES
1.5k
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

میں اکثر گمان کیا کرتا تھا کہ اگر ایسا دن آیا کہ جب تحریک انصاف کے چاہنے والوں کو فوج یا خان صاحب میں سے ایک کو چننا پڑا تو وہ کسے چنیں گے؟ تقریباً ہر بار یہی اندازہ لگایا کہ جو بھی ہو وہ فوج ہی کو چنیں گے اور آج تک ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔

لوگوں نے بھٹو کو پھانسی پر چڑھنے دیا اور ضیاء الحق کو اپنا مائی باپ بنا لیا۔ تین مرتبہ نواز شریف کو ہٹایا گیا اور تینوں مرتبہ عوام نے فوج کو فوقیت دی۔ لیکن پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ عوام کا ایک وسیع پڑھا لکھا طبقہ کسی اور شخصیت کو فوج پر ترجیح دے رہا ہے۔ وہ شخصیت بھلا خان صاحب کے علاوہ کون ہو سکتی ہے۔ بس خان، خان اور خان۔

RelatedPosts

‘ارشد ملک ویڈیو کیس میں عمران خان اور اعظم خان نے مجھ پر شدید دباؤ ڈالا’

دیگر اداروں کو بھی مشاورت سے فیصلے کرنے چاہیے: وزیراعظم

Load More

ایسا کیا ہوا کہ لوگوں کے ذہن میں یہ بات بھی آئی کہ فوج کے علاوہ کوئی اور بھی ان کا مسیحا ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال کی ذمہ دار فوج خود ہے۔ سیاست ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے۔ اگر یہ ہر کسی کے بس کا کام ہوتا تو آج خان صاحب کے ساتھ ساتھ جاوید میانداد بھی ایک بہت بڑے سیاستدان ہوتے۔ لیکن نہیں! ایک سیاستدان ہونے کے لیے تین بنیادی شرائط ہیں۔ پیسہ، شہرت اور تعلقات۔ اگر ان تین چیزوں میں سے ایک بھی کم پڑ جائے تو سیاستدان کے برے دن آ جاتے ہیں جیسا کہ چودھری نثارعلی خان کے آئے ہوئے ہیں۔ خان صاحب کے پاس تھی تو صرف شہرت اور وہ بھی ایک کھیل کے میدان کی۔ باقی دونوں چیزیں تو بالکل نہیں تھیں یعنی سیاست کے لیے درکار پیسہ اور طاقتور لوگوں سے دوستی۔ یہ دونوں چیزیں یعنی پیسہ اور تعلقات اسٹیبلشمنٹ نے خود خان صاحب کو فراہم کئے۔

اس فراہمی کی ضرورت تب پیش آئی جب نواز شریف اور بی بی شہید نے لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کئے اور عملی طور پر یہ ارادہ کر لیا کہ ان دونوں میں سے چاہے جس کی بھی حکومت آئے دوسری پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر حکومت نہیں گرائے گی۔

میثاق جمہوریت ایک نیا آغاز بھی تھا جس میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے ایک دوسرے کے خلاف کئے گئے سارے معاملات معاف کر دیے۔ یہ وہ وقت تھا جب خان صاحب کو اس پلان کے ساتھ لایا گیا کہ ان کے ذریعے نواز شریف اور زرداری کی سیاست ختم کی جائے اور خان صاحب کو اپنا بچپن کا شوق بھی پورا کرنے دیا جائے بشرطیکہ وہ ملک ان دونوں پارٹیوں سے بہتر چلائیں اور فوج کی بات بھی مانیں۔

قریباً اسی عرصہ میں جیو نیوز پر ایک پروگرام چلا جس کی میزبانی ڈاکٹر شاہد مسعود کر رہے تھے۔ اس خاص پروگرام کے تین مہمان تھے اور ان تینوں کے نام سنتے ہی آپ سمجھ جائیں گے کہ یہ کوئی عام روٹین کا شو نہیں تھا بلکہ خان کی نئی سیاسی زندگی کی شروعات تھی۔

وہ تین مہمان تھے حسن نثار، ہارون رشید اور عمران خان۔ یعنی اگر یوں کہا جائے کہ حسن نثار اور ہارون رشید کی تو پہلے ہی دن سے خان صاحب کی شخصیت کو عوام کے سامنے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی ڈیوٹی لگا دی گئی تو شاید کچھ غلط نہ ہوگا۔

بہرحال شو کا عنوان یہ تھا کہ آخر عمران خان سیاست میں ناکام کیوں ہیں؟ کوئی شخص بھلا اپنی ہی ناکامی پر تبصرہ ہونے والے شو کا مہمان کیوں بنے گا؟ مگر ایک نئی شروعات کے لئے ان کو یہ کڑوی گولی کھانی تھی۔ ہارون رشید نے خان صاحب کی خوبیوں اور خامیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ “مجھے یقین ہے کہ اگر عمران خان کو موقع دیا جائے تو وہ ملک کو صحیح ڈگر پر چلا دیں گے اور ویسے بھی خان صاحب کو نوجوان نسل کی خاصی پذیرائی حاصل ہے”۔

حسن نثار نے اپنے منفرد انداز میں تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ عمران خان اتنا ایماندار ہے کہ وہ سیاست کے لئے بنا ہی نہیں ہے۔ شو کے آخر میں خان صاحب نے کہا کہ انہوں نے اپنی غلطیوں سے بہت سیکھا ہے اور اب وہ ایک نئے قسم کے سیاستدان بن کے ابھریں گے۔ ان کے کہنے کا اصل مطلب یہ تھا کہ وہ آج سے لوٹوں کو سیاست میں لیں گے اور وزیراعظم بننے کے لئے ہر وہ کام کریں گے جو ان کو کرنا پڑے۔

دیکھتے ہی دیکھتے فضا بدل گئی۔ ایک اس وقت کی چلتی پھرتی حکومت کے وزیر خارجہ نے اپنے کئی سالوں کی پارٹی چھوڑ دی اور آتے ہی تحریک انصاف کا نائب چیئرمین لگ گیا۔ جاوید ہاشمی جو کہ ن لیگ کے قابل فخر رہنما تھا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔

جسٹس وجیہہ الدین جیسے برینڈڈ لوگ بھی یکے بعد دیگرے شامل ہونے لگے اور ماحول اس حد تک گرم ہو گیا کہ خان صاحب کو یقین تھا کہ وہ 2013ء کا الیکشن جیتیں گے اور وزیراعظم بھی بنیں گے۔

تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کی کاوشیں اپنی جگہ مگر ابھی تحریک انصاف اتنی مضبوط بھی نہ تھی کہ پنجاب میں صوبائی اور وفاقی دونوں سطحوں پر سب کو شکست دے سکتی۔ گویا ہوا یوں کہ خان صاحب جیتے تو مگر صرف اور صرف خیبر پختونخوا میں اور وزیراعظم بن گئے نواز شریف۔

چونکہ خان صاحب نے الیکشن سے بہت پہلے سے ماحول گرم کر رکھا تھا وہ حقیقت میں یہ سمجھنے لگے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے اور وہ اس شکست کو اور اس حقیقت کو کسی صورت تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے کہ اب اگر وہ وزیراعظم بنے بھی تو ان کو 5 سال انتظار کرنا پڑے گا۔

لہٰذا خان صاحب نے ن لیگ کے خلاف ایک شدت سے بھرپور دھاندلی کا پروپیگنڈا رچایا۔ پینتیس پنکچر، چار حلقے کھولو اور نہ جانے کیا کیا ان کے ہتھیار بنے۔ جب ان چھوٹے موٹے نعروں سے کچھ نہ بنا تو جا کے بیٹھ گئے اسلام آباد کے ڈی چوک میں اور وہاں 126 دن کا قیام کیا۔ اس سب کے دوران ان کو اسٹیبلشمنٹ کا آشیربااد حاصل تھا۔ آج جو آگ خان لگا رہا ہے اس کا ایندھن خود فوج کے چند اہلکاروں نے خان کو بھرپور تعداد میں دیا ہے۔ ناصرف یہ بلکہ اس دھرنے سے اس ملک کی مختلف اشتعال پسند تنظیموں کو راستہ مل گیا کہ اگر ان کو ریاست کی توجہ حاصل کرنی ہو تو وہ بھی اسلام آباد آ کر بیٹھ جائیں۔

اب جبکہ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ فوج کے اندر ایک ایسا طبقہ ہے جو خان صاحب کو دوبارہ طاقت سونپنا چاہتا ہے تو اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے بڑی محنت کی جا رہی ہے۔ یہاں تک کے ریٹائر فوجی افسروں کی ویڈیوز بنا کر جذباتی  پیغامات دینے پڑ رہے ہیں کہ پاک فوج میں دو دھڑے ہونا ناممکن ہے وغیرہ وغیرہ۔

کیا ایسا کوئی طبقہ ہے جو پردوں کے پیچھے خان صاحب کی مدد کر رہا ہے جبکہ ادارہ خان صاحب کے ساتھ مزید نہ چلنے کا فیصلہ کر چکا ہے؟ اگر تو کوئی ایسا طبقہ ہے تو یہ وہی طبقہ ہے جو کئی سالوں سے خان صاحب میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور اس طبقے میں صرف فوجی شامل نہیں ہیں بلکہ اس میں کئی نامی گرامی صحافی، افسر اور شاید کچھ جج بھی شامل تھے۔ آخر تحریک انصاف بڑے فخر سے اسی لیے تو کہتی ہے کہ عمران خان سپریم کوٹ سے سرٹیفائیڈ صادق اور امین ہے۔ اب اس طبقے کے لیے خان صاحب کو چھوڑنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے نہیں کہ ان کو خان سے پیار بہت ہے بلکہ اس لیے خان صاحب کا خاتمہ ان حواریوں کا بھی خاتمہ ہو گا۔ ان لوگوں نے اپنی پوری پوری زندگی خان صاحب کو دی ہے اور اس شدت سے کہ ان کے لیے اب ممکن نہیں رہا کہ ایک کمپنی چھوڑ کے دوسری میں چلے جائیں۔

کیا علی محمد خان کل کو درود شریف پڑھ کے زرداری صاحب کا دفاع کرتے ہوئے اچھا لگے گا؟ کیا زرتاج گل ن لیگ میں شامل ہو کر مریم نواز کے حق میں نعرہ لگاتے ہوئے اچھی لگے گی؟ کیا حسن نثار، ہارون رشید اور عمران ریاض کا سارے کا سارا کیرئیر ہی ختم نہ ہو جائے گا کہ جن کی ساری ساری صحافت چل ہی اسی فارمولے پر رہی ہے کہ وہ خان صاحب کو اپنی لغوی صلاحیت استعمال کرکے ایک مسیحا کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ آخر یہ لوگ جائیں تو کہاں جائیں؟

اقتدار ایک ایسی پرکشش کیفیت ہے کہ جب تک ملا نہ ہو تو آدمی مرتے دم تک اس کی خواہش میں اپنی باقی ساری خواہشات قربان کر دیتا ہے۔ اور اگر اقتدار مل جائے تو آدمی اس کو اپنی آخری سانس تک اسی طرح لینا چاہتا ہے کہ جیسے سانس۔ یہ بھی ایک عجب حقیقت ہے کہ مقتدر اس بات کو ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا کہ اگر وہ بھوکا ہے تو صرف اور صرف اقتدار کا۔ مقتدر عموماً یہی کہتا ہے کہ وہ تو طاقت کا خواہشمند ہے ہی نہیں۔ وہ تو یہ سب ملک کے لیے کر رہا ہے۔ اس کے پاس تو کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ وہ چاہتا تو ایک لطف اور فرصت کی زندگی گزار سکتا تھا لیکن اس نے یہ سب کچھ آپ کے لیے قربان کر دیا۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ درحقیقت ان سب میں ایک بھی مسیحا نہیں ہے بلکہ سب کے سب اپنی ساکھ بچانے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔

اب جبکہ حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں تو اس ملک کی بقا کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ فوج اپنے آپ کو سیاست سے ہمیشہ کے لیے دستبردار کر دے اور یہ ہم پر چھوڑ دے کہ ہم کس کو اپنا مسیحا بنانا چاہتے ہیں۔ ایک نہ ایک دن اللہ تعالیٰ حقیقت میں اس سرزمین کا مخلص اور قابل رہنما عطا فرمائے گا۔ لیکن اگر آپ حسن نثار اور ہارون رشید جیسے رفقا کے ذمے لگائیں گے کہ وہ ہمارے ذہنوں کے ساتھ کھیل کر اور عجیب عجیب قسم کی تاویلیں دے کر ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کریں کہ بس 22 کروڑ میں صرف ایک ایماندار آدمی ہے تو یہی ہوگا جو ہوا۔ وہی آدمی آ کر ایک دن آپ کو جانور کہے گا۔

Tags: ArmyCharter of DemocracyestablishmentImran KhanpakistanPoliticsPTIاسٹیبلشمنٹپاک فوجپی ٹی آئیعمران خانمیثاق جمہوریت
Previous Post

عدالتی احکامات کی دھجیاں اڑا دی گئیں، پی ٹی آئی کے غنڈے چرچ کی جگہ پر جلسہ کرانے کیلئے بضد

Next Post

عمران خان پاکستان کو تباہی کے دہانے پر دھکیل رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کام کرنے کے لیے تیار ہے: حامد میر

بیرسٹر اویس بابر

بیرسٹر اویس بابر

Related Posts

ہئیت مقتدرہ ‘پروجیکٹ 1985’ کے ذریعے اب کپتان کا راستہ روک رہی ہے

ہئیت مقتدرہ ‘پروجیکٹ 1985’ کے ذریعے اب کپتان کا راستہ روک رہی ہے

by حسنین جمیل
مارچ 28, 2023
0

جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء زوروں پر پہنچ چکا تھا۔ سماج میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف نفرت عروج پر تھی...

طاقت کے عالمی سنگھاسن پہ پھر سے کمیونسٹ بلاک براجمان ہو رہا ہے؟

طاقت کے عالمی سنگھاسن پہ پھر سے کمیونسٹ بلاک براجمان ہو رہا ہے؟

by یوسف بلوچ
مارچ 27, 2023
0

ایک بات تو ہمیں برسوں کی طرح اس بار بھی پلے باندھ لینی چاہئیے کہ بین الاقوامی طور پر دو ممالک کی...

Load More
Next Post
عمران خان پاکستان کو تباہی کے دہانے پر دھکیل رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کام کرنے کے لیے تیار ہے: حامد میر

عمران خان پاکستان کو تباہی کے دہانے پر دھکیل رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کام کرنے کے لیے تیار ہے: حامد میر

Comments 2

  1. Shahid says:
    11 مہینے ago

    Excellent analysis. Appreciate thought.

    جواب دیں
  2. محمّد says:
    11 مہینے ago

    مجھے تو ابھی بھی فوج ہی کے چند جیرنلز لگ رہیں ہیں ۔سازش اگر ہوئی ہے تو یہ ہوئی ہے کہ اسکو ہٹا کر لایا جائے ۔کیوں کہ خود جاتا تو آنا مشکل تھا ۔اور ایسا لگتا ہے کے یہ پاکستان کو ختم کرنے کا پروگرام بنا چکے ہیں ۔نیازی کو لایئں گے ایٹمی پروگرام رول بیک کرا کر ۔اتنا کمزور کر دیں گے کے کوئی بھی قبضہ کر لے اور پھر یہ افغانستان والوں کی طرح لڑنے کے قابل بھی نہیں ہے پاکستانی قوم ۔پھر اندازہ کر لیں کیا تباہی ہونی ہے

    جواب دیں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
1

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In