نیوٹرلیٹی اور غیر جانبداری ایک چال، سیاست پر کنٹرول کو نئی شکل دیدی گئی

نیوٹرلیٹی اور غیر جانبداری ایک چال، سیاست پر کنٹرول کو نئی شکل دیدی گئی
کمزوری جارحیت کو دعوت دیتی ہے۔ یہ معقولہ پاکستان کے سیاسی قیادت سے زیادہ اور کس پر صادق آتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اس ملک پر تقریباً ستر سالوں سے مختار کل کے طور پر حکمرانی کر رہی ہے۔ ساری ریاستی وسائل اور مشینری پر اس کا گرفت ہے۔

قومی سے لے کر مقامی سطح تک اس نے اپنا ایک جال بنایا ہے۔ اس نے ہر سطح پر مالی، سیاسی، معاشی اور مذہبی اثر والے افراد پر مشتمل مفاداتی گروہ پیدا کیا ہے جو کل وقتی طور پر اس کے اشارہ ابرو کے منتظر اور سرگرم عمل ہوتے ہیں۔ پراپیگنڈا، نشر واشاعت اور ابلاغیات کے اکثر ذراءع ان کے غیر مرئی آمرانہ تسلط میں ہیں۔

نصاب تعلیم سے لے کر ہر قومی بیانیہ وہ ترتیب اور تشکیل دیتا ہی۔ یونیورسٹی سے لے کر پرائمری سکول اور محلے کی مسجد تک ان کے زیر نظر ہے کہ اس میں کیا سکھایا اور پڑھایا جاتا ہے۔ دنیاوی اور دینی دونوں نظام تعلیم اور بحث ومباحثہ میں عوامی جمہوری، آئینی اور پارلیمانی بالادستی، کثیر الانواع، فلاحی نظام ریاست اور دنیا خصوصاً پڑوسی ممالک کیساتھ پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر تعلقات جیسی اصطلاحات کا استعمال اور اس کو زیر بحث لانا تقریباً شجر ممنوعہ ہے۔

الغرض سیاست، معیشت، سماج اور مذہب کی کھوپڑی پر اسٹیبلشمنٹ کا آہنی شکنجہ کسا ہوا جو یہ ایک قائم حد سے باہر نہیں پھل پھول سکتا۔ مقصد شعوری طور پر وہ سیاسی، سماجی اور مذہبی ذہین سازی کرنا ہے جس کو اسٹیبلشمنٹ جس طرف موڑنا چاہے آسانی سے موڑ سکے۔

اس نے یہ قوت اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلئے دینے کیلئے کی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ مہینوں میں نئی سیاسی پارٹیاں کھڑ کر سکتی ہے۔ پہلے سے موجود جماعتوں کو توڑ کر نئے سیاسی گروپس وجود میں لا سکتی ہے۔ مذہبی اور جہادی تحریکیں تشکیل دے کر ان کو اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاسی قوتوں کے خلاف استعمال کر سکتی ہے اور مزاحمتی آوازوں کو ماورائے آئین دبا سکتی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ کرپٹ اور اخلاقی طور پر دیوالیہ کو صادق وامین کا سرٹیفیکیٹ عطا کر سکتی ہے۔ ان کے بیانیہ اور سیاسی تسلط کے مخالفوں کو غدار، چور اور کرپٹ جیسے القابات سے نواز سکتی ہے۔ جو ان کی زبان نہیں بولتا، ان کو غائب کرکے مہینوں اور سالہا سال عقوبت خانوں میں رکھ سکتی ہے۔ ان کے اور ان کے خاندانوں کا دانہ پانی بند کر سکتی ہے۔ پٹوار کے دفتر سے لے کر سپریم کورٹ تک اپنے ہرکارے بھرتی کر سکتا ہی جو اپنے فرائض منصبی، قوائد وضوابط یا آئین وقانون کے بجائے ایک ٹیلیفون کال یا واٹس ایپ پیغام کے مطابق انجام دیتے ہیں۔

لیکن ایک پشتو محاورہ ہے کہ پہاڑ خواہ جتنا بھی بلند ہو، اس کے سر پر سے راستہ گزرتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے آج تک نام نہاد سیاسی قوتوں نے اس راستے پر سے گزرنے کی اہمیت ہی نہیں کی۔ جب بھی وقت آیا سیاستدانوں نے سیاست اور نظام ریاست کو ان کے پنجوں سے آزاد کرانے کے بجائے بے اختیار کرسی پر بیٹھ کر ایوان اقتدار کی غلام گردشوں میں اسے اسٹیبلشمنٹ کے اسیر بننے کو ترجیح دی۔

یہ کوئی راز نہیں ہے کہ 1971ء کے بعد اس وقت اسٹیبلشمنٹ ایک بار پھر سیاست کی بند گلی میں پھنس گئی تھی۔ اس وقت بھی اسٹیبلشمنٹ کے پاس صرف بندوق رہ گئی تھی کیونکہ عوام کی اکثریت شیخ مجیب کے ساتھ تھی، اور سقوط ڈھاکہ کے بعد مغربی پاکستان کی عوام ان سے بدظن۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سقوط کے بعد پاکستان میں دوبارہ الیکشن ہوتے اور عوام معروضی سیاسی حالات کے مطابق اپنا فیصلہ کرتے، لیکن کرسی کی ہوس میں بھٹو نے اپنا کندھا پیش کیا۔

شروع میں ذوالفقار علی بھٹو بھی اس وقت کا عمران خان تھا۔ ان کا بھی شاید یہ خیال تھا کہ فوج کو شکست کی ندامت سے باہر نکال کر سیکورٹی سٹیٹ ماڈل کو بحال، مضبوط کرکے یہ زیر نگین رہ کر ان کی بالادستی قبول کرے گی۔ اس زعم میں مبتلا ہوکر انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگا کر ختم کرنے کے ٹھان لی۔ پارٹی کو تنظیمی طور پر منظم کرنے کے بجائے کلٹ سیاست کو فروغ دیا۔ اس لئے جب رات کے اندھیرا چھا گیا تو اس چراغ میں روشنی ہی نہ تھی۔ جب اسٹیبلشمنٹ سنبھل گئی تو بھٹو کو نشان عبرت بنا دیا۔

اب ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ بند سیاسی گلی میں پھنس گئی تھی اور وہاں سے نکلنے کیلئے وقتی غیر جانبداری کا ڈرامہ رچایا۔ پچھلے ڈیڑھ مہینہ سے جو ہو رہا ہے، اس سے تو یہ خیال تقویت پکڑتا ہے کہ نیوٹرلیٹی اور سیاسی غیر جانبداری ایک چال ہے۔ بھلا ستر سالوں سے پھیلی سیاسی جڑیں اور حکمرانی کا ہوس جس کیلئے آدھا ملک قربان کیا، بغیر کسی معاہدے اور چارٹر حجاب وقبول کے، کسی ایک پریس کانفرنس سے ختم ہو سکتا ہے؟

لگ تو یہ رہا ہے کہ سیاست میں مداخلت یا اس پر کنٹرول کی نئی شکل تشکیل دی گئی ہے۔ ایک طرف سے اس نے ہاتھ کھینچ لیا کیونکہ مزید وہاں کی حرارت ناقابل برداشت ہو رہی تھی اور ہاتھ جلنے کا اندیشہ تھا۔

اس لئے تو یہ لگ رہا ہے کہ پی ڈی ایم اور خصوصاً مسلم لیگ ن کو قربانی کیلئے اقتدار کے خالی ایوان میں دھکیل دیا گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی حکومت کے ذریعے جس شرائط پر آئی ایم ایف کیساتھ معاہدہ کیا تھا، اس پر عمل درآمد سے مہنگائی کے طوفان نے ہی آنا تھا، جس کا ملبہ عمران حکومت کیساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ پر بھی گرنا تھا۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کی حکومت میں یہ صلاحیت شاید نہیں تھی کہ وہ ان سخت شرائط پر آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج لینے کے بعد بھی معیشت کے سانسیں بحال کرتے۔

نتیجتاً سری لنکا والئ صورتحال نے جنم لینا تھا اور ہجوم بنی گالہ کیساتھ ساتھ جی ایچ کیو کے دروازے پر جمع ہونا تھا۔ اب اگر موجودہ حکومت اس معاہدہ کی سخت شرائط پر عمل نہیں کرتی تو آئی ایم ایف بقایا قسط نہیں دیگا اور اگر آئی ایم ایف قرض نہیں دے گا تو دوسرے دو طرفہ مالی ادارے، ذرائع اور ملکوں سے بھی پیسہ ملنے والا نہیں ہے۔

فی الحال اس کا سیاسی نقصان سب سے زیادہ مسلم لیگ ن کو ہو سکتا ہے۔ اگر اس کو معشیت کو سنبھالنے اور عوام کو ریلیف دینے سے پہلے چلتا کیا، کیونکہ اس کیلئے کم از کم ایک سال کا وقت چاہیے۔ دوسری طرف سیاسی قوتیں آج بھی اتنی کمزور ہیں کہ ملک معاشی دیوالیہ پن کے دہانے پر ہے اور سارا بوجھ غریب عوام پر لادا جا رہا ہے لیکن کوئی بھی دفاعی اور غیر ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی بات ہی نہیں کر سکتا۔

چونکہ اس دفعہ اسٹیبلشمنٹ کیلئے معاشی بحران اور عمران خان حکومت کی نااہلی کے علاوہ بڑا خطرہ مسلم لیگ ن کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور ووٹ بینک تھا۔ خصوصاً پنجاب میں۔ اگر آئی ایم ایف سے پیسہ ملتا ہے، بجٹ پاس ہو جاتا اور اس کے دو تین مہینے بعد حکومت کی پیروں کے نیچے سے قالین کھینچا جاتا ہے، تو اس صورت میں مسلم لیگ ن کیلئے سیاسی نقصان پر قابو پانا مشکل ہو جائیگا۔ لیکن دوسری سیاسی جماعتیں خصوصاً زرداری بھی کچھ زیادہ حاصل نہیں کر پائیں گے۔

لہذا سیاستدانوں کیلئے ضروری ہے کہ مزید کمزوری نہ دکھائیں جس کا نیتجہ سو پیاز بھی اور سو جوتے بھی ہوں۔ ضروری ہے کہ اول تو کوئی آزاد فورم مثلاً پاکستان بار کونسل یا سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سیاسی جماعتیں، میڈیا اور دیگر سول سوسائٹی کے نمائندوں کی گول میز کانفرنس منعقد کرے۔ بصورت دیگر پی ڈی ایم یہ ذمہ داری لے اور قومی، سیاسی، معاشی اور آئینی مسائل پر سیر حاصل بحث مباحثہ کرکے ایک قومی میثاق پر متفق ہو جائے۔

اس فورم پر آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی اور غیر جمہوری قوتوں کی سیاست میں مداخلت کا راستہ بند کرنے اور ان کو آئینی دائرہ میں رکھنے کے علاوہ دفاعی اخراجات سے، اعلیٰ عدالتوں کی سیاسی نوعیت کے فیصلوں کے جانچ پڑتال، ججوں کی تقرری، سوموٹو اور توہین عدالت کے اختیار کی حدود وقیود پر بھی بحثیں ہوں۔ اس وقت ملک کی سلامتی کو سب سے بڑا خطرہ معاشی ہے جو جہازوں، ٹینکوں، میزائلوں اور بڑی فوج سے نہیں لڑی جا سکتی بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اس معاشی بحران کی ایک وجہ ہے۔

اب عوام میں مزید قربانی کی سکت نہیں ہے۔ اب وقت ہے کہ قومی سلامتی کا اسرنو جائزہ لے کر اس کی روایتی تعریف وتوصیف کو بدل دیا جائے۔ قوم کو یہ بتانا بھی لازمی ہے کہ ان کے نام پر پچھلے پونے چار سالوں میں تقریباً 20 ہزار ارب روپے کا جو قرض لیا ہے وہ کہاں اور کس چیز پر خرچ ہوا؟

اب مزید گنجائش نہیں کہ اپنے کمزوری اور مصلحتوں کو قومی اور عوامی مفادات کا نام دیا جائے۔ یہ بلا بسم اللہ سے ٹلنے والا نہیں، لڑائی لڑنا پڑے گی۔ اگر آپ لوگ نہیں چاہتے کہ آخر میں عوام کا نزلہ آپ پر اترے تو جوڑ توڑ کے بجائے عوام کی درست رہنمائی کریں۔

طالعمند خان فری لانس صحافی ہیں اور نیا دور کے لئے لکھتے ہیں۔