تحریک طالبان پاکستان تحریک انصاف

تحریک طالبان پاکستان تحریک انصاف
آج سے پہلے کبھی نہیں سنا تھا کہ کسی صوبے نے اسلام آباد پر لشکر کشی کی دھمکی دی ہو۔ یہ باتیں تحریکِ طالبان نے بھی کھل کر کبھی نہیں کی ہوں گی کہ وہ اسلام آباد آ کر قبضہ کر کے پاکستان کو خود چلائیں گے۔ وہاں سے بھی ہمیشہ ریاستِ پاکستان کے کرتا دھرتاؤں کو ہی خبردار کرنے، اللہ سے ڈرانے جیسی باتیں کی جاتی ہیں۔ لیکن خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان اور ان کے لیڈر عمران خان تو حد سے بڑھ گئے ہیں۔ ایک طرف عمران خان دھمکی دے رہے ہیں کہ سپریم کورٹ پرامن مارچ کی ضمانت دے ورنہ خود تیاری کر کے آؤں گا۔ دوسری جانب ان کے شیرو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا بھرے مجمع میں اصل منصوبہ بھی آشکار کر رہے ہیں کہ میں خیبر پختونخوا کی فورس استعمال کروں گا۔ اسی 'تیاری' کی بات عمران خان بھی کر رہے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جب مرکز میں ایک جماعت کی حکومت ہوا کرتی تھی اور صوبے میں دوسری جماعت کی۔ زیادہ دور کیوں جاتے ہیں؟ 2008 سے 2013 تک پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کی۔ دونوں جماعتوں میں مسلسل گولہ باری جاری رہتی۔ یہاں تک کہ 2009 میں پیپلز پارٹی نے پنجاب میں گورنر راج تک لگا دیا، لیکن صوبے کے وسائل استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد پر لشکر کشی کی بات کسی جماعت نے نہیں کی۔ خود شہباز شریف کہا کرتے تھے زرداری کا پیٹ پھاڑ کر پیسے نکالیں گے لیکن کسی بھی موقع پر یہ نہیں کہا کہ پنجاب کی فورس لے کر اسلام آباد پر چڑھائی کروں گا۔ کچھ ایسی ہی صورتحال 2013 سے 2018 تک یوں تھی کہ پیپلز پارٹی سندھ میں اور وفاق میں ن لیگ کی حکومت تھی۔ تب بھی وہاں سے ایسی کوئی بات نہیں کی گئی۔

آخر ہر بار عمران خان اور ان کی جماعت کی جانب سے ہی کیوں تمام حدیں پار کی جاتی ہیں؟ کیوں یہ بار بار خانہ جنگی کی بات کرتے ہیں؟ کیوں یہ بار بار خون خرابے کی بات کرتے ہیں؟ کیوں خونی مارچ کا نام لیتے ہیں؟ سپریم کورٹ کو بہت جلدی تھی، یقیناً آئندہ بھی ہوگی عمران خان کو ریلیف فراہم کرنے کی لیکن کیوں وفاقی حکومت کے ان خدشات کو نظر انداز کیا گیا کہ تحریکِ انصاف کی جانب سے مسلسل خون خرابے کی باتیں کی جا رہی ہیں اور ایسے حالات میں انہیں کھل کھیلنے کا موقع نہیں دیا جا سکتا؟

پھر انہوں نے عدالت کو تڑی لگائی کہ اگر آپ نے کردار ادا نہ کیا تو آپ کے بچے آپ کو معاف نہیں کریں گے، تاریخ معاف نہیں کرے گی۔ یہ اداروں کو تو ایسے تڑیاں لگاتے ہیں جیسے ان کے ذاتی ملازم ہیں، اور ان کے بچوں کی زندگیاں، مستقبل ان کے حکومت بنانے یا نہ بنانے سے منسوب ہیں۔ کوئی پیپلز پارٹی والا تصور کر سکتا ہے اس قسم کی زبان استعمال کرنے کا؟ اس سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کا بانی، اس ملک کا وزیر اعظم، اس کا ہیرو قتل کر دیا۔ جرات نہیں کر سکتا کوئی ان کے بارے میں جیالا ایسی بات کرنے کی۔ اٹھا کر فوراً توہینِ عدالت کے کیس میں بلا لیا جائے گا۔ مسلم لیگ ن کے تین لیڈران طلال چودھری، دانیال عزیز اور نہال ہاشمی توہینِ عدالت پر پانچ، پانچ سال کے لئے نااہل کر دیے گئے۔ اِدھر یہ صاحب ہیں کہ سپریم کورٹ کے احکامات کو جوتے کی نوک پر رکھا تو چیف جسٹس نے فرمایا ممکن ہے انہیں احکامات صحیح طریقے سے ملے نہ ہوں۔ پتہ نہیں لاڈلے پن میں یہ سب بدتمیزیاں برداشت کی جاتی ہیں یا واقعی خوف ہے کہ بچے معاف نہیں کریں گے۔ لیکن یہ طے ہے کہ اس شخص کی محبت میں اس ملک کا نظامِ انصاف جتنا متنازع ہوا ہے، پہلے کبھی نہ تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ پارٹی کے اندر اندھیر مچی ہوئی ہے۔ تمام تر 'تیاریوں' اور اعلانات کے باوجود درجنوں ایسے چوٹی کے رہنما تھے جو لانگ مارچ کے دن کہیں نظر نہیں آئے۔ اب ان کی فہرستیں تیار ہو رہی ہیں، ان کو عہدوں سے ہٹایا جا رہا ہے، ان کے خلاف کارروائیوں کا آغاز ہو رہا ہے، گویا اس سے لوگوں کے دلوں میں خوف بیٹھ جائے گا کہ خان ہمیں عہدوں سے ہٹا رہا ہے۔ موصوف بھول رہے ہیں کہ یہ تو پارٹی چھوڑنے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہوں گے اس وقت۔ قومی اسمبلی سے استعفے دینے کے لئے کوئی تیار نہیں۔ جو خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ثابت کرنے پر تلے ہیں اور علی الاعلان استعفوں کا اعلان کر چکے ہیں، وہ تو خود آس لگائے بیٹھے ہیں کہ خان صاحب کا پتہ صاف ہو تو پارٹی پر قبضہ کریں۔ غالب اکثریت پارلیمنٹ میں واپس آنا چاہتی ہے۔ شاہ محمود قریشی، فواد چودھری، اسد عمر، پرویز خٹک سمیت تمام قیادت عمران خان کی پالیسی پر متفق نہیں لیکن اتنی ہمت بھی نہیں کہ کھل کر اختلاف کر سکیں۔

عمران خان یہ بڑھکیں مار کر صرف اپنے کارکنان کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ابھی بھی ان کے ترکش میں کچھ تیر باقی ہیں۔ وہ خیبر پختونخوا سے پنجاب پر فوج کشی کروا سکتے ہیں۔ اور سپریم کورٹ میں ان کے حمایتی موجود ہیں۔ کیونکہ دھرنے میں یہ تماشہ تو ختم ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ اب بھی میرے ساتھ ہے۔ اگر وہ ساتھ ہوتا تو اسی دن نظر آ جاتا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔ جو تھوڑا بہت دباؤ اسٹیبلشمنٹ محسوس کر بھی رہی ہوگی، وہ اسی دن ہوا ہو چکا۔ سپریم کورٹ سے فیصلہ لیں گے تو زیادہ سے زیادہ اس دن والا فیصلہ آ جائے گا کہ ایک پارک میں جگہ دے دی جائے۔ یہ تڑیاں، دھمکیاں محض کارکنان کو حوصلہ دینے کے لئے ہیں۔ ورنہ اندر کی کہانی یہ ہے کہ پارٹی بربادی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ جب اسٹیبلشمنٹ کے سہارے بنی ہو تو یہ سہارا ہٹنے سے کچھ ایسی ہی صورتحال بنتی ہے۔ اگلے چند دنوں میں صورتحال مزید واضح ہو جائے گی۔ پھر کس کو دھمکیاں دیتے پھریں گے خان صاحب؟ اور کون سنے گا ان کی دھمکیاں؟

اس ملک میں ایک پارلیمان ہے، ایک عدالت ہے۔ یہی ادارے ہوتے ہیں عوامی نمائندگی اور انصاف فراہم کرنے کے لئے دنیا بھر میں۔ ایک میں اکثریت کھو دی تو اس ملک پر ایٹم بم گرانے کو تیار تھے۔ دوسری نے بات نہ سنی تو دھمکی ہے فوج کشی کروا دوں گا۔ آخر کیا یہ ریاست اتنی کمزور ہے کہ ایک شخص اسے ہر وقت گن پوائنٹ پر بٹھا کر رکھے؟ عمران خان کو تو سمجھانا شاید اب کارِ عبث ہے لیکن اگر ان کے ارد گرد کسی کی وہ بات سنتے ہیں تو انہیں مشورہ دیں کہ اس ملک کو چلنے دیں، پارلیمنٹ میں واپس آئیں اور جمہوری عمل میں حصہ لیں۔ آپ کی دھمکیوں سے کوئی نہیں ڈرتا۔ بہتر یہی ہے کہ خود کو ضرورت سے زیادہ سنجیدگی سے لینا چھوڑ کر مرکزی دھارے کے لیڈران کی طرح behave کریں۔ سیاست نام سے آپ کو چڑ ہے لیکن ملک کی خاطر اب تھوڑی سیاست آپ بھی سیکھ ہی لیں۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.