پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کی کوشش میں، مایوسی بڑھنے لگی

پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کی کوشش میں، مایوسی بڑھنے لگی
26 مئی کو یکایک اپنا لانگ مارچ ختم کرنے کے بعد سے عمران خان لگتا ہے اپنی تمام تر امیدیں سپریم کورٹ سے لگائے بیٹھے ہیں، جہاں ان کی جماعت نے ان کے احتجاج کے تحفظ کے لئے درخواست دے رکھی ہے۔

بظاہر تو لگتا یہی ہے کہ یہ فیصلہ پچھلی دفعہ سکیورٹی اداروں کی جانب سے احتجاج کو بزورِ طاقت کچل دیے جانے کے بعد کیا گیا ہے۔

لیکن کیا یہی سپریم کورٹ جانے اور لانگ مارچ کے لئے نئی تاریخ نہ دینے کی اصل وجہ ہے؟

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔

عام تاثر یہ ہے کہ پی ٹی آئی قیادت قانونی موشگافیوں کو وقت حاصل کرنے کے لئے استعمال کر رہی ہے اور معاملات اس دوران کہیں اور طے ہو رہے ہیں۔

یہ تو طے ہے کہ پی ٹی آئی 25 مئی کو لانگ مارچ شروع ہونے کے وقت سے ہی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطوں میں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کھولا گیا یہ چینل عمران خان کو یہ یقین دہانی کروا کر کہ اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے انتخابات کروانے کی تاریخ کا اعلان جلد کر دیا جائے گا، بغیر دھرنے کے لانگ مارچ ختم کر کے عمران خان کو گھر بھیجنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

لیکن اس کے بعد سے معاملات عمران خان کی خواہش کے مطابق نہیں چلے۔

پی ٹی آئی کیمپ میں ایک مایوسی پھیل رہی ہے اور پارٹی ممبران سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہو گیا ہے۔ اندرونی ذرائع کے مطابق بات چیت میں تعطل کی وجہ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر اعتماد کا فقدان ہے۔

یہ بداعتمادی نئی نہیں؛ یہ اس وقت سے جاری ہے جب عمران خان کو اقتدار سے نکالا گیا تھا۔ یہ شکوک و شبہات اس وقت بھی موجود تھے جب انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی بات مان کر دھرنا نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

پھر کچھ اور بھی ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے بات چیت آگے نہیں بڑھ رہی۔ زور دینے پر ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلاف کی ایک وجہ پارلیمان میں واپسی کے لئے استعفے واپس لینے اور اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے بھی ہے۔

"یہ انڈہ پہلے یا مرغی والی صورتحال ہے"، ذرائع نے کہا۔

پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان اس کی قومی اسمبلی میں واپسی سے پہلے ہو جائے جب کہ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ چیزیں متضاد سمت میں چلیں۔ عمران خان کو ڈر ہے کہ اگر وہ الیکشن کی تاریخ لیے بنا واپس پارلیمان میں چلے گئے تو یہ معمول کی صورتحال بن جائے گی اور حکومت کو اپنا وقت مکمل کرنے کا موقع مل جائے گا۔ ساتھ ہی انہیں یہ بھی لگتا ہے کہ اس سے ان کی پارٹی کا بیانیہ بھی مر جائے گا کہ یہ PMLN حکومت کو جسے یہ امپورٹڈ حکومت کہتے ہیں کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔

لیکن پی ٹی آئی کو یہ بھی سمجھ آ رہی ہے کہ اسٹیبشلمنٹ سے مفاہمت کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ لہٰذا مشکل ہی ہے کہ عمران خان مذاکرات میں کامیابی کے بغیر 'آزادی مارچ' کی نئی تاریخ کا اعلان کریں۔

تاہم، اتحادی حکومت میں منظرنامہ بالکل الٹ ہے۔ اس جانب سینیئر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس حکومت کے چلنے کی گارنٹی اسٹیبلشمنٹ سے لے لی گئی ہے۔

ان کی دلیل یہ ہے کہ حقیقی طاقتوں سے ملنے والی ان گارنٹیوں کے بغیر حکومت پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں پر اتنے سخت فیصلے نہ لیتی۔

ایک لیڈر کا کہنا تھا کہ "اگر ہم انتخابات کے بارے میں سوچ رہے ہوتے تو پٹرول اور بجلی کی قیمتیں اتنی بڑھا کر اپنی سیاست کیوں داؤ پر لگاتے؟"

بہرحال یہ طے ہے کہ انتخابات رواں برس ہوں گے یا نہیں، اس کا فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہی ہے۔

اسی دوران ایک اور چیز ہے جس پر نظر رکھی جانی چاہیے۔ پی ٹی آئی کے اندر اس بحث کا آغاز ہو چکا ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں سے بات کر کے سیاست میں مداخلت کا راستہ مکمل بند کیا جائے۔ کیا میثاقِ جمہوریت دوئم ممکن ہے؟ اس کا دارومدار بھی اسٹیبلشمنٹ کے مستقبل کے فیصلوں پر ہے۔




باقر سجاد کی یہ رپورٹ ڈان اخبار میں شائع ہوئی جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔

باقر سجاد سینیئر رپورٹر ہیں اور ڈان اخبار سے منسلک ہیں۔