حکمرانوں کا توشہ خانہ اور عوام کا خالی خزانہ

حکمرانوں کا توشہ خانہ اور عوام کا خالی خزانہ
بات سوچ، نیت اور عمل کی ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہمارے نام نہاد سیاستدان جن کو ہم حکومت چلانے کی اہم ذمہ داری سونپتے ہیں، ان کی ذہنی حالت کا کیا حال ہے۔ وہ قوم، ملک اور آئین کو کیا درجہ دیتے ہیں۔

ان کے نزدیک اس منصب کی حیثیت کیا ہے۔ یہ کوئی نیا معاملہ نہیں، اگر پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لے کر اب تک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اکثریت کا حال قابل شرم ہے۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔

گھڑیاں، انگوٹھیاں، ہار، قالین، بندوقیں، مرسڈیز، بی ایم ڈبلیو اور بہت کچھ کوڑیوں کے بھائو گھروں میں لے گئے۔ کیا یہ تحائف ان کو ذاتی تعلق اور حیثیت میں دیئے گئے؟ اگر وہ سربراہ یا عہدے کی حیثیت نہ رکھتے ہوتے تو بھی ان کو یہ تحائف ملتے؟ ان کا یہ عمل اخلاقی، اسلامی یا آئینی اقدار میں کہاں ٹھہرتا ہے۔ عوام کے لئے قابل تشویش اور غور طلب ہے۔

ان کی خود غرضی اور ذہنی استعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے عوامی نمائندہ طاقت کے ذریعے سے قوائد ضوابط ہی ایسے بنا لیے ہوئے ہیں جن سے ان کی مفاد پرستی واضح عیاں ہوتی ہے جس کی رو سے وہ ریاست کو ملنے والے تحفوں کی بازاری قیمت کا بیس فیصد خزانے میں جمع کروا کر تحفے ساتھ لے جا سکتے ہیں۔

شاہ خرچیاں قومی خزانے سے چلائیں اور جب قومی معاملات کو چلانے کی بات ہو تو پھر اس کا بوجھ عوام پر اور اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو عوام کے نام پر بیرونی قرضے حاصل کر لیتے ہیں تاکہ ان کی اور ان کے حواریوں کی عیاشیاں چلتی رہیں۔

ہر نیا آنے والا حکمران آتے ہی پہلا اعلان یہ کرتا ہے کہ اسے خزانہ خالی ملا ہے۔ یہ سب کچھ عوام کو سنا رہے ہوتے ہیں کیونکہ یہ ملک عوام کی ملکیت ہے اور وہ تو عوام کے خدمت گار اور نوکر ہیں۔ کیسا دور آ گیا ہے کہ عوام کنگلے اور نوکر بادشاہ۔

جب عوام سے ووٹ لینے جاتے ہیں تو جھک کر ملتے ہیں اور اپنے آپ کو عوام کا خادم کہتے ہیں اور جب حکومت میں پہنچ جاتے ہیں تو عوام اچھوت بن جاتے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں محافظوں کی ایک فوج کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔

رہن سہن دیکھ کر شاہوں کو بھی شرمندگی ہوتی ہوگی اور ان کے محلوں کے داخلی راستوں میں عوام کا داخلہ بھی ممنوع ہو جاتا ہے۔ رہنا تو درکنار اس کی جھلک بھی عوام پر حرام قرار دے دی جاتی ہے۔

عوام کا کوئی پرسان حال نہیں جو 70 سالوں سے انتظار کر رہے ہیں کہ کوئی آئے اور ہماری قیادت کرے جس سے ملک و قوم کی تقدیر بدلے مگر ہر آنے والا دن پہلے سے بھی بدتر ہوتا جا رہا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ تبدیلی کی یہ اپروچ ٹھیک نہیں ہے۔ لہذا عوام کو اپنی سوچ  بدلنا ہوگی۔

معاشرے خود قیادت کو پیدا کرتے ہیں۔ ملکی قیادت کہیں باہر سے نہیں آتی۔ یہ سب ہم میں سے ہی ہیں اور قوم نے ہی تعلیم وتربیت سے معاشرے کی کردار سازی کرکے افراد کو اخلاقی اقدار سے بہرہ ور کرنا ہوتا ہے۔

آج کل عمران خان صاحب کے ان تحائف پر حق کے چرچے ہیں جن کو حکومت کی طرف سے سکینڈل کہا جا رہا ہے جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے وضاحتیں پیش کی جا رہی ہیں جس سے صاف تاثر مل رہا ہے کہ سیاست کی جا رہی ہے۔ اگر حکومت اتنی ہی مخلص ہے تو اس قانون کو بدل کیوں نہیں دیتی۔ جہاں نیب اور انتخابی بل پیش کئے جا رہے ہیں وہاں ایک چھوٹا سا بل یہ بھی ڈال دیا جاتا۔

اور سب سے بڑی تعجب کی بات یہ ہے کہ جب عوام اس بارے جاننے کی کوشش کریں تو عدالت سے سٹے آرڈر حاصل کر لیتے ہیں جس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ وہ بات کو چھپائے رکھنا چاہتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ اس کام کو معیوب نہیں سمجھتے تو پھر چھپانے کی کیا ضرورت ہے۔ اب تو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف کے بھی ریمارکس آ چکے ہیں کہ تمام تحائف ان سے لے کر خزانے میں جمع کروائے جائیں۔

اور بہانہ یہ کہ دوست ممالک جن سے یہ تحائف ملے ہوتے ہیں ان کی توہین ہوتی ہے۔ ایسی بھونڈی دلیل جسے سن کر ہنسی بھی آتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنی شرمساری کو انتہائی گھٹیا دلیلوں کے پیچھے چھپانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ جب عالمی برادری ان کی اس حرکت کو جانتی ہوگی تو ان پر پاکستانی قوم کے بارے کیا تاثر ابھرتا ہوگا۔

اندازہ لگائیے کہ اگر ان کی نظر دوست ممالک سے ملنے والے تحائف پر ہوتی ہے تو پھر ان کے باقی معاملات کا کیا حال ہوگا۔ کس کس طرح سے یہ اپنے عہدوں اور اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہونگے۔ پاکستان کے اندر سے ان کو ملنے والے تحائف کا تو کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہوتا جو براہ راست ان کے گھروں میں اور بینکوں میں چلے جاتے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت میں آنے سے پہلے والے اثاثوں کے بعد جتنے بھی اثاثے کسی بھی مد میں بڑھے ہوں، سب ضبط کرکے قومی خزانے میں ڈال دیئے جائیں۔ مگر کرے کون؟ مفادات کے حصول میں سیاستدان کیا حکومتی اہکار، محافظ اور انصاف کے علمبردار سب ایک ہی سوچ کے مالک ہیں۔

عوام کا خزانے پر محض خالی ملکیت تک کا حق ہے اس کے استعمال پر نہیں جس کی بنیاد ضروریات اور برابری نہیں بلکہ حکومت سے تعلق، اختیار اور طاقت ہے۔ جو جتنا ان صلاحیتوں میں آگے ہے اتنا ہی وہ خزانے سے زیادہ مستفید ہو رہا ہے۔ اس کا مشاہدہ آپ اداروں میں صاحب طاقت اور اختیار کی مراعات اور تنخواہوں سے لگا سکتے ہیں۔

جیسے عدالتیں فل کورٹ ریفرنس سے اپنے مفادات اور مراعات کے حصول کو تحفظ فراہم کئے ہوئے ہیں، اسی طرح سب ادارے ایک دوسرے کو بلیک میل کرکے اپنے اختیارات کو مفادات اور مراعات کے حصول کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔

ہر ادارے کی افسران بشمول ججز کو جو تنخواہیں اور مراعات حاصل ہیں، وہ نچلی سطح کے طبقے کو میسر نہیں۔ جب اس تقسیم کی بنیاد ضرورت اور برابری کی بجائے طاقت، اختیار اور ریاست سے قربت ہوگی تو پھر ناہمواری اور تفریق کا یہی عالم ہوگا۔

صرف خزانہ ہی نہیں بلکہ تعلیم ، صحت اور سیکورٹی کے متعلق سہولیات کی تقسیم کا بھی یہی حال ہے۔ جن اداروں نے ایک دوسرے کے اختیارات اور ذمہ داریوں کی نگرانی کرکے نظام کے توازن کی برقراری کو یقینی بنانا ہوتا ہے اگر وہ ہی اپنے فرائض سے غافل ہوں تو پھر بنیادی ضروریات سے محروم مظلوم عوام کی شنوائی خدا کی عدالت میں ہی ممکن ہے۔

اسلامی تاریخ میں اس بارے بہت ہی اعلیٰ مثالیں ملتی ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ایک صحابی کو محصولات کو اکٹھا کرنے کی ذمہ داری دی اور جب وہ جمع کروا کر گھر جانے لگے تو کچھ چیزیں ساتھ لے لیں جس پر آپ نے وضاحت طلب کی اور فرمایا کہ اگر تم ماں کے گھر ہوتے تو کوئی آپ کو یہ تحفے دیتا۔

لہذا ان تحائف کو بیت المال میں جمع کروانے کا حکم دیا۔ اسی طرح حضرت عمر فاروق نے گورنر کو فرمایا تھا کہ "اگر تم گورنر نہ ہوتے تو تمہیں یہ تحائف ملتے"۔ تحائف کو بیت المال میں جمع کروا دیا۔ یہاں تک کہ اگر کسی نے اس دوران کاروبار کیا تو وہ آمدن بھی بیت المال میں جمع کروا دی گئی۔ آج ہم اور ہمارے حکمران بھی زبانی دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر ہمارے اعمال مکمل طور پر اس کے برعکس ہیں۔

لہذا اگر تو موجودہ حکمرانوں میں خوف خدا ہے تو کابینہ کو چاہیے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے قانون کو ختم کریں اور سابقہ تمام حکومتی وزرا وعہدیداران سے تحائف واپس لے کر خزانے میں جمع کروائیں اور آئندہ ایسے تحائف کی نیلامی کروا کر قومی خزانے میں جمع کروائے جانے کا قانوں بنایا جائے۔

صرف یہی نہیں بلکہ ایک جنرل قانون بنا دیا جائے کہ سرکاری کسی بھی محکمے کے کسی بھی عہدے پر خدمات انجام دینے والوں کو ملنے والی تنخواہیں اور مراعات برابری کی بنیاد پر ہونگی اور کوئی بھی اضافی مراعات کی اجازت نہیں ہوگی اور پچھلی تمام ایسی مراعات بمعہ منافع واپس لی جائیں۔

اس سے ناصرف مساوات قائم ہوگی بلکہ معاشرے کے اندر پائی جانے والی محرومیوں کا بھی خاتمہ ہوگا اور قوم وملک بھی ان مراعات یافتہ طبقات کے شر، سازشوں اور خود غرضی کا نشانہ بننے سے محفوظ رہیں گے۔