مسلمانوں کی دردناک تاریخ بھی بے سود ہے

مسلمانوں کی دردناک تاریخ بھی بے سود ہے
پچھلے چند ماہ سے ہماسیہ ملک ہندوستان میں ایک بار پھر مسلمانوں پر مذہبی لحاظ سے پابندیوں اور ظلم و ستم کی نئی داستان رقم کی جا رہی ہے۔ ہندوستان جو کہ تاریخی اعتبار سے مختلف ثقافتوں اور روایات کا مجموعہ سمجھے جانے والا ایک خطہ تھا جس نے ہر طرح کی ثقافت کو اپنی اندر سمایا ہوا تھا اب پچھلی چند دہائیوں سے یہ مذہبی معاملات کے پیش نظر انتہائی خطرناک منظر پیش کرتا نظر آتا ہے۔

بھارت میں حکمران جماعت کے رکن نے گذشتہ دنوں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں لائیو ٹیلی ویژن پروگرام میں گستاخانہ الفاظ استعمال کئے جس کے بعد بھارت سمیت دنیا بھر میں اس کی مذمت کی گئی اور ایکشن لینے کا مطالبہ ہوا۔

نوپور شرما کو تو پارٹی بی جے پی نے معطل کر دیا اور بھارتی عدالت نے بھی ہر طرح کے تنازعہ کا ذمہ دار اس کو ٹھہراتے ہوئے فوری طور پر عوامی سطح پر غیر مشروط معافی مانگنے کا حکم دیا لیکن وہیں ساتھ ساتھ ہندوستانی حکومت نے محمد زبیر جو کہ مسلمان صحافی ہیں اور جو ہندتوا اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والے پروپگنڈا کو رپورٹ کرتے ہیں کو گرفتار کیا گیا۔ مسلمانوں کا مختلف بے معنی باتوں میں بحث کرنا اور مختلف گروہوں میں بٹ جانا ہمیشہ سے ان کی سبکی کا باعث بنا ہے۔

عباسیہ حکومت کے آخری دور میں ایک وقت وہ آیا جب مسلمانوں کے دارالخلافہ بغداد میں ہر دوسرے دن کسی نہ کسی دینی مسئلہ پر مناظرہ ہونے لگا، جلد ہی وہ وقت بھی آ گیا جب ایک ساتھ ایک ہی دن بغداد کے الگ الگ چوراہوں پر الگ الگ مناظرے ہو رہے تھے۔

پہلا مناظرہ اس بات پر تھا کہ ایک وقت میں سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں؟ دوسرا مناظرہ اس اہم موضوع پر تھا کہ کوا حلال ہے یا حرام؟ تیسرے مناظرے میں یہ تکرار چل رہی تھی کہ مسواک کا شرعی سائز کتنا ہونا چاہیے؟ ایک گروہ کا کہنا تھا کہ ایک بالشت سے کم نہیں ہونا چاہیے اور دوسرے گروہ کا یہ ماننا تھا کہ ایک بالشت سے چھوٹی مسواک بھی جائز ہے۔

ابھی یہ مناظرے چل رہے تھے کہ ہلاکو خان کی قیادت میں تاتاری فوج بغداد کی گلیوں میں داخل ہو گئی اور سب کچھ تہس نہس کر گئی۔ مسواک کی حرمت بچانے والے لوگ خود ہی بوٹی بوٹی ہو گئے۔ سوئی کی نوک پر فرشتے گننے والوں کی کھوپڑیوں کے مینار بن گئے جنہیں گننا بھی ممکن نہ تھا۔ کوے کے گوشت پر بحث کرنے والوں کے مردہ جسم کوے نوچ نوچ کر کھا رہے تھے۔

آج ہلاکو خان کو بغداد تباہ کئے سینکڑوں برس ہو گئے مگر قسم لے لیجئے جو مسلمانوں نے تاریخ سے رتی برابر بھی سبق لیا ہو۔ آج ہم مسلمان پھر ویسے ہی مناظرے سوشل میڈیا پر یا اپنی محفلوں، جلسوں اور مسجدوں کے ممبر سے کر رہے ہیں کہ ڈاڑھی کی لمبائی کتنی ہونی چاہیے یا پھر پاجامہ کی لمبائی ٹخنے سے کتنی نیچے یا کتنی اوپر شرعی اعتبار سے ہونی چاہیے۔

مردہ سن سکتا ہے یا مردہ نہیں سنتا؟ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا جائز ہے کہ نہیں؟ قوالی اور مشاعرے کرنا ہمارے مذہبی فرائض میں شامل ہونے لگے۔ فرقے اور مسلک کے ہمارے جھنڈا بردار صرف اور صرف اپنے اپنے فرقوں کو جنت میں لے جانے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

دورِ حاضر کا ہلاکو خان ایک ایک کرکے مسلم ملکوں کو نیست ونابود کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ افغانستان، لیبیا، عراق کے بعد شامی بچوں کی کٹی پھٹی لاشوں کی گنتی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ بے گناہوں کی کھوپڑیوں کے مینار پھر بنائے جا رہے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر کی حالتِ زار ایسی ہے کہ زاروقطار رو کر بھی دل ہلکا نہیں ہوتا۔

آدم علیہ السلام کی نسل کے نوجوانوں، بوڑھے اور بزرگوں کی لاشوں کو کوے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں اور حوا کی بیٹیاں اپنی عصمت چھپانے امت کی چادر کا کونہ تلاش کر رہی تھیں۔

امید کرتے ہیں کہ جلد اپنی طاقت کو اور موجودہ دنیا کے حالات اور جدت کو سمجھتے ہوئے مسلمان بھی اپنی راہیں بدلیں گے، ترقی کریں گے اور دنیا میں اپنا مستقبل محفوظ بنائیں گے۔

عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@