17 جولائی کے ضمنی انتخابات: کیا مسلم لیگ نواز کامیاب ٹھہرے گی؟

17 جولائی کے ضمنی انتخابات: کیا مسلم لیگ نواز کامیاب ٹھہرے گی؟
جیسے جیسے پنجاب کے ضمنی انتخابات نزدیک آ رہے ہیں، ویسے ویسے سابق وزیراعظم عمران خان کی سیاسی بیان بازی میں شدت آ رہی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ 17 جولائی کے انتخابات مستقبل کی قومی سیاست کا رخ متعین کریں گے۔ ان انتخابات کا انعقاد ان اراکین کے حلقوں میں کیا جا رہا ہے جنہیں اپنی ہی جماعت کے خلاف ووٹ دینے پر عدالتی احکامات کے تحت عہدوں سے معزول کر دیا گیا تھا۔

حالیہ ہفتوں میں عدالتوں کو سب سے بڑے صوبے کے سیاسی معاملات کو درست کرنے کے لیے میدان میں آتے دیکھا گیا جس سے مذکورہ انتخابات مزید اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔

بطور وزیراعلیٰ اپنے عہدے پر برقرار رہنے کے لئے حمزہ شہباز کو کم از کم 9 سیٹوں کی ضرورت ہے، اور اس سے زیادہ اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لئے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پنجاب حکومت ممکنہ طور پر اگلے برس ہونے والے عام انتخابات تک برقرار رہ پائے گی۔ عام حالات میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے لئے ووٹوں کا حصول ایک عام سی بات تھی، لیکن گذشتہ دو ماہ میں معاملات ڈرامائی تبدیلی سے گزرے ہیں۔

اول یہ کہ حالیہ مہینوں میں عمران خان کی شہرت میں اضافہ ہوا ہے اور اندرونی وبیرونی سازش کا شکار ہونے کے بیانیے کو خاص کر شہری متوسط طبقے میں پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ایک حالیہ گیلپ سروے کے مطابق بھی عمران خان کی شہرت کی شماریات اپریل 2022 ء کے مقابلے میں بہتر ہوئی ہیں جب وہ طاقت سے بے دخل کئے گئے تھے۔

اتحادی جماعتیں حالیہ سیاسی بحران کے دوران ایک متبادل بیانیہ پیش کرنے میں ناکام رہیں جس نے اس معاملے کو تقویت دی۔ پھر یہ کہ پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کے خاتمے سے مہنگائی کے ایک باقاعدہ سلسلے کا آغاز اور حکومت کے لئے ایک مشکل صورتحال ابھر کر سامنے آئی۔ آنے والے دنوں میں مہنگائی کی موجودہ، 21 فیصدی شرح میں مزید اضافہ عوامی غصہ کو ہوا دے کر اسے انتخابات پر اثر پذیر بنا سکتا ہے۔

بدترین لوڈشیڈنگ اور بجلی کی تقسیم میں واضح طور پر موجود رکاوٹیں اس کے علاوہ ہیں۔ تقریباً دیوالیہ حکومت زرمبادلہ کی تلاش میں ہے تاکہ توانائی کی مہنگی درآمدات کو ممکن بنا سکے، کیونکہ ایسا کئے بغیر پاور پلانٹس کو ان کی موجودہ صلاحیت کے مطابق چلایا نہیں جاسکے گا۔

تیسرا نکتہ یہ کہ زیادہ تر انتخابی حلقوں میں پی ٹی آئی نے ٹکٹس مضبوط 'الیکٹبلز' کو دیے ہیں۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ عمران خان نے 'پاور پالیٹیکس' کھیلنے کا ہنر اپنے ماضی کے 'بہی خواہوں' اور سہولت کاروں سے سیکھ لیا ہے۔ گفتگو کی زورِ بیانی ان کی مکرّر تقریروں تک محدود جبکہ زمین پر موجود افرادِ کار کسی بھی دوسری حریص جماعت کی مانند مصروف عمل ہیں۔

اس حوالے سے آخری نکتہ یہ کہ شعلہ بیاں مریم نواز کے علاوہ نون لیگ میں انتخابی مہم کو لے کر چلنے والے عناصر نظر نہیں آتے۔ نواز شریف کی عدم موجودگی اور شہباز شریف کی روزمرہ امور میں گہری مصروفیت پارٹی کی سپورٹ بیس کو یکجا کرنے کی بھاری ذمہ داری مریم نواز پر ڈال چکی ہے۔

یہ تمام صورتحال نون لیگ کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، پنجاب کے مانوس پانیوں کو عبور کرنے سے لے کر اپنے ہی لوگوں کی نظر میں نئے بیانیے کے حوالے سے جانچے جانے تک۔ ایسے ہی امتحان کا حمزہ شہباز کو سامنا ہے، غیر متاثر کنُ وزیراعلیٰ کا ان کا میڈیا امیج یقیناً اس صورتحال میں معاون ثابت نہیں ہوگا۔

تب بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کے لئے انتخابات کوئی آسان معاملہ نہیں۔ ایک طرف انہیں سابقہ خراب کارکردگی کا سامنا ہے تو دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی واضح خلیج موجود ہے۔ یہ وہی عنصر ہے جو تقریباً ہمیشہ پنجاب کی سیاست پر اثر انداز ہوتا ہے۔ پنجاب میں انتخابات اندرونی ڈھرا بندی، برادری، 'بہی خواہی' اور جی ایچ کیو سے ملنے والے سگنلز کا ایک پیچیدہ مجموعہ ہوتے ہیں۔

کسی بھی انتخابی کامیابی کے لئے ان حقیقتوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے جن کی تشکیل گذشتہ چار دہائیوں کی فوجی اور ہائبرڈ حکومتوں کے ادوار میں ہوئی۔

مزید یہ کہ ضمنی انتخابات کا نتیجہ ہمیں یہ بھی بتائے گا کہ 2018ء کے بعد سے اب تک عمران خان کس حد تک سیاسی اثر ورسوخ اکھٹا کرنے میں کامیاب رہے۔ سماجی ومین سٹریم میڈیا پر بظاہر نہایت کامیاب مہم چلانے کے باوجود، ان کے لئے چیلنجز جوں کے توں ہیں۔ عوامی یاداشت کمزور ہوتی ہے لیکن پی ٹی آئی کے ڈیجیٹل ببل کے خیالات جتنی کمزور بھی نہیں ہے۔

اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان ریاستی اداروں پر دبائو بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سابق وزیراعظم نے آرمی چیف اور سپریم کورٹ کے ججوں کو اعلانیہ ہدف بنائے رکھا، اور اب نشانہ چیف الیکشن کمشنر ہیں۔

ستم ظریفی یہ کہ سکندر سلطان راجا کا تقرر پی ٹی آئی کے دور میں کیا گیا اور سربراہ تحریک انصاف اور ان کے وزرا کو ان کا مداح دیکھا گیا۔ لیکن اصولوں پر کاربند چیف الیکشن کمشنر نے عہدہ سنبھالنے کے بعد آزادانہ کام کیا اور اہم طور پر ڈسکہ کے وہ ضمنی انتخابات منسوخ کر دیے جنہیں پی ٹی آئی نے کھلم کھلا بذریعہ دھاندلی جیتنے کی کوشش کی تھی۔ اب تک الیکشن کمیشن نے دبائو ڈالنے کے عمرانی حربوں کے آگے ڈھیر ہونے سے انکار کیا ہے۔

باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ نون لیگ 20 میں سے 10 سیٹیں حاصل کر سکتی ہے جبکہ پی ٹی آئی بھی مناسب تعداد میں ان کا حصول ممکن بنا سکتی ہے۔ لیکن اگر نون لیگ زیادہ تر سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو کیا ہوگا؟ کیا عمران خان نتائج ماننے سے انکار کرتے ہوئے نئے مظاہروں کا اعلان کریں گے؟ ان کا ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے ایسا ہی ہوتا نظر آتا ہے۔ تو کیا اس سے اسلام آباد اور لاہور کی اتحادی جماعتوں کی حکومتیں خطرے میں پڑ جائیں گی؟ نہیں! 'ڈیپ سٹیٹ' اور 'سپر اے ٹی ایمز' کی حمایت کھونے کے بعد ایسے مظاہرے چائے کی پیالی کا طوفان ثابت ہوں گے۔ ہاں اگر راولپنڈی کے 'فیو گڈُ مین' کے کچھ اور پلان ہوں، تو بات اور ہے۔

لیکن ایسی غیر متوازن صورتحال مارکیٹس اور بیرونی معاشی اداروں کے اعتماد کے لئے مجروح کن ہوتی ہے۔ شاید نون لیگ درپیش امتحان میں کامیاب ٹھہرے لیکن یہ وقت ہے عمران خان کے ساتھ گفتگو کے رابطے استوار کرنے کا تاکہ معاشی معاملات اور اگلے برس انتخابات کے انعقاد پر اتفاق رائے حاصل کیا جا سکے۔ شہباز شریف کا کردار بنیادی ہے تاکہ ماضی کے جان لیوا سیاسی کلچر کو ماضی ہی کی نظر کیا جا سکے۔

مصنّف نیا دور میڈیا کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ اس سے قبل وہ روزنامہ ڈیلی ٹائمز اور فرائڈے ٹائمز کے مدیر تھے۔ ایکسپریس اور کیپیٹل ٹی وی سے بھی منسلک رہ چکے ہیں۔