یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ پنجاب میں جیت سے عمران خان جیت گیا

یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ پنجاب میں جیت سے عمران خان جیت گیا
ملک کی سیاسی فضا میں گہما گہمی کی جو کیفیت تھی اُس میں بھونچال کے ساتھ ساتھ آتش فشاں بھی پھٹ پڑا ہے۔ سیاسی مبصرین کے ساتھ ساتھ تجزیہ نگاروں کے پٹاریوں میں بند تجزئیے بھی حیران کن رہے، اگر کہا جائے کہ جو ن لیگ کے کیمپ والے صحافی تھے اُن کی امیدوں پر اوس پڑ گئی اور وہ اب آئیں بائیں شائیں کر رہے ہیں کیونکہ عام لوگوں کے ساتھ خاص لوگ بھی عجیب مخمصے کا شکار ہیں کہ پی ٹی آئی نے پنجاب کا معرکہ کیسے سر کر لیا ہے ۔

کیونکہ خیبر پختونخوا تو تھا ہی خان کا اب پنجاب خان کا کیسے ہوگیا؟ اب صورتحال میں کافی تبدیلی آگئی ہے۔ نئے الیکشن کی جو بازگشت سنائی دے رہی تھی اب وہ بازگشت نہیں رہی، اب الیکشن وقت سے پہلے ہونے کے آثار پیدا ہوگئے ہیں کیونکہ پی ٹی آئی پنجاب میں حکومت بنا سکتی ہے تو وفاق میں وہ موجودہ ٹیم کو ٹف ٹائم بھی دے سکتی ہے۔ یعنی جو پاور گیم ہے اب وہ ففٹی فٹی ہوگیا ہے۔

20سیٹوں میں آخری اطلاعات آنے تک 16 سیٹوں پر پی ٹی آئی کی جیت ابھی بھی خان کی مقبولیت اور بیانیئے کو تقویت دے رہا ہے۔ اور عوام کی اکثریت خان کے دور میں مہنگائی کے طوفان کو اب بھی پرانی حکومتوں کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ خان کا جو پرانا بیانیہ تھا وہ ابھی تک زندہ ہے، جس میں وہی سوشل میڈیا کی طاقت ہے جو خان کی جماعت کا خاصہ ہے۔

حکومت سے جانے کے بعد بھی جب میڈیا پی ٹی آئی کے ہاتھ سے نکل گیا، ساری اشتہار بازیاں ن لیگ اور دیگر جماعتوں کے بیانیئے کے پرچارک بن گئیں مگر سوشل میڈیا اور بڑے شہروں میں ہونے والے پرہجوم جلسوں نے نظرئیے کو زندہ رکھا۔ جس کی بدولت وہ اگر چہ چار سیٹ ہار گئی ہے یعنی 100 میں سے 80فی صد پر ابھی تک قبضہ رکھا ہوا ہے جبکہ 20 فی صد پر ن لیگ نے کامیابی حاصل کی ہے جس سے ثابت یہ بھی ہوتا ہے کہ ن لیگ کو تھوڑی بہت کامیابی نصیب ہوئی ہے کیونکہ ان سب سیٹوں پر پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔

دوسری جانب یہ بات بھی کی جارہی ہے کہ آصف علی زرداری نے ن لیگ کو ایسے بھنور میں لا چھوڑا ہے جس سے ن لیگ کے لئے مشکلات پیش آرہی ہیں، فضل الرحمان کی جمیعت علمائے اسلام کو بھی ٹف ٹائم ملا ہے۔ اب آنے والے الیکشن میں عوام کس کو چنے گی اس کے لئے کافی وقت درکار ہے۔

کچھ سیاسی مبصرین یہ بھی تجزئیے کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے سب پارٹیوں بشمول پی ٹی آئی کو اس طرح الجھادیا ہے کہ انہیں اب سمجھ نہیں آرہی کہ کریں تو کیا کریں؟ کیونکہ کہیں پر بھی کسی کو اکثریت حاصل نہیں ہے۔ حکومت اگر الیکشن کرے تو بھی مشکلات ہوں گی اگر الیکشن نہ کرے تب بھی مسئلے اتنے بڑے ہیں کہ موجودہ حکومت کو جان کے لالے پڑ گئے ہیں۔

مہنگائی کی شرح تناسب میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے پٹرول اور ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ حکومت اگر آئی ایم ایف کی شرائط نہیں مانے گی تو حکومت کی مشینری رک جائے گی اور اگر شرائط مان لیتی ہے تو مہنگائی میں ہوش رُبا اضافہ ہوگا، جو عوام کے بس سے باہر ہوگا۔

اس وقت ضرورت اگر ہے تو ان سب مسائل کے حل کے تلاش کی ضرورت ہے، مہنگائی، کرپشن، پٹرول، دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے تواتر سے واقعات کی روک تھام ضروری ہے کیونکہ اکیلے ان حالات سے نبردآزمائی کسی بھی پارٹی کے لئے ممکن نہیں ہے اس میں اسٹیبلشمنٹ بھی شامل ہے۔ جو ان پارٹیوں کے ساتھ مل کر ہی کام کرتی ہے اکیلے وہ بھی کچھ نہیں کرسکتے۔ جس کا ہم نے ہر دور میں ہر حکومت میں دیکھا ہے ۔ یعنی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ پنجاب میں جیت سے عمران خان جیت گیا ہے ابھی مزید بھونچال راستےمیں ہیں ۔جس سے مزید ہلچل مچ سکتی ہے۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔