• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
جمعہ, جنوری 27, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

تفریح کے ذرائع کو اخلاقیات اور پارسائی کے پلڑے میں مت تولیے

عماد ظفر by عماد ظفر
نومبر 18, 2019
in تجزیہ, فلم, میگزین
7 0
0
تفریح کے ذرائع کو اخلاقیات اور پارسائی کے پلڑے میں مت تولیے
38
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

اخلاقیات اور بے راہروی دو ایسے مسائل ہیں جن کے بارے میں ہمارے معاشرے کا تقریباً ہر فرد ہی فکرمند اور پریشان رہتا ہے۔ پڑوس میں رہنے والی بچی کس قسم کے کپڑے پہنتی ہے، کون سا نوجوان کس وقت گھر پر آتا ہے اور کیا کرتا ہے یا پھر سماج میں “بے حیائی” کیونکر پھل پھول رہی ہے۔ اس مدعے کو لیکر اس کے بارے میں کڑھنے میں اس قدر وقت ضائع کیا جاتا ہے کہ جیسے ہمارے قومی مسائل یہی ہیں اور ان پر قابو پانے سے ہم دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرنا شروع کر دیں گے۔ حال ہی میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے ٹی وی چینلوں کو ایک حکم نامہ ارسال کیا گیا ہے جس میں ان ٹی وی چینلوں سے کہا گیا ہے کہ ڈراموں کے موضوعات میں طلاق، ازدواجی جھگڑے، شادی شدہ خواتین و حضرات کے کسی اور سے معاشقوں جیسے موضوعات کو ڈراموں کا حصہ نہ بنایا جائے کیونکہ اس سے ہمارے معاشرے کی اخلاقیات اور ہماری تہذیب پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

PEMRA has directed TV channels to not air ‘indecent’ dramas after too many complaints

اسی طرح کے ریمارکس حال ہی میں معزز چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی دیے ہیں کہ بھارتی مواد پاکستانی ٹی وی چینلوں پر نشر کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ یہ ہماری ثقافت اور معاشرے کیلئے نقصان دہ ہیں۔ پیمرا ہو یا معزز عدلیہ ان معزز اداروں کو اخلاقی پولیس بننے کا اختیار کس نے دیا یہ بذات خود ایک سوال ہے۔

RelatedPosts

عمران خان کی تقاریر اور پریس کانفرنس نشر کرنے پر پابندی عائد

پیمرا نے بول نیوز، بول انٹرٹینمنٹ کی نشریات بند کرنے کا حکم جاری کر دیا

Load More

Image result for Pakistan TV dramas collage bold

دوسری بات یہ ہے کہ اگر ڈراموں اور فلموں میں دکھائے جانے والے موضوعات دیکھنے والوں کی زندگیوں کے حالات و واقعات کی ترجمانی نہ کریں تو ڈرامے اور فلمیں کبھی بھی دیکھے نہیں جاتے۔ کسی بھی فلم یا ڈرامے کی کہانی لکھتے اور عکسبندی کرتے وقت یہ امر ضروری بنایا جاتا ہے کہ ان میں موجود کردار اور دکھائے گئے حالات و واقعات فلم بینوں اور ڈرامے دیکھنے والوں کے موجودہ مسائل یا پھر ان کی خواہشات اور خوابوں کے مطابق ہوں۔ اگر معاشرے میں طلاقوں کی شرح بڑھ رہی ہے یا شادی شدہ افراد کی ازدواجی زندگی کا معیار اچھا نہیں ہے اور اس کے باعث وہ کہیں اور معاشقے لڑاتے ہیں تو ظاہری بات ہے ڈرامہ نگار یا فلم نگار ان مسائل کو ہی اجاگر کرے گا۔ یہ تو ممکن نہیں ہو سکتا کہ 2019 میں ڈرامہ نگار یا فلم نگار 70 اور 80 کی دہائی کے مسائل یا اس زمانے کے ناظرین کے خواب سکرین پر پیش کرے اور اسی زمانے کا لباس ہیرو یا ہیروئن کو پہنا کر مناظر عکسبند کرے۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ ہمارے ارباب اختیار آرٹ اور تفریح کے لوازمات پر بھی خود ساختہ اخلاقی قدغنیں عائد کرنا چاہتے ہیں تاکہ معاشرے کی اقدار اور ثقافت کو بچایا جا سکے۔ حالانکہ پرفارمنگ آرٹ، فلم ڈرامہ یہ تمام اصناف دراصل معاشرے کے بدلتے ہوئے رجحانات کی عکاسی کرتے ہوئے معاشرے میں تفریح اور کتھارسس کے لوازمات پیدا کرتے ہیں۔

فلم اور ڈرامے کے کرداروں میں  ہر فلم بین یا ڈرامہ دیکھنے والا شعوری یا لاشعوری طور پر اپنا عکس تلاش کرتا ہے اور وہ تمام ناتمام خواہشات اور خواب خواہ وہ رومانوی ہوں یا مادی ان کو پردہ سکرین پر دیکھ کر کچھ لمحات کیلئے زندگی کی تلخیوں کو فراموش کر کے اپنے آپ کو ہلکان محسوس کرتا ہے۔ اسی وجہ سے ڈراموں اور فلموں کو تفریح کا بہترین ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔ اگر تفریح کو بھی حجاب اور پردہ پہنانے کی کوشش کی جائے جیسا کہ ضیاالحق کے دور میں کی گئی تھی تو اس کے انتہائی مضر اثرات معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔

ہم نے ضیا دور کی خود ساختہ اسلامائزیشن کے نتیجے میں ڈراموں اور فلموں میں “بے حیائی” جبراً روکنے کا نتیجہ معاشرے کی حس جمالیات کے زوال اور ڈرامہ اور فلم انڈسٹری کے زوال کی صورت میں بھگتا ہے۔ ہماری برصغیر کی ثقافت صدیوں پرانی ہے اور فنون لطیفہ کی ایک زبردست تاریخ رکھتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار عربی ثقافت کو ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے۔ مذہب اور ثقافت کے فرق کو سمجھنے اور سمجھانے کی یہاں کبھی کوشش ہی نہیں کی گئی ہے۔ ہماری ثقافت میں وارث شاہ کی ہیر بھی ہے اور بلھے شاہ کی بلھا کی جاناں میں کون، یہاں لال قلندر کی دھمالیں بھی ہیں اور امراؤ جان کی ادائیں بھی۔ منٹو کے بیباک افسانے بھی ہیں اور حسینہ معین کے جاندار ڈرامے بھی۔

ہم برصغیر کے لوگ صدیوں سے رقص، موسیقی، شاعری اور افسانوں سے محظوظ ہوتے آئے ہیں اور یہ ہمارے مزاج یا یوں کہیے کہ ڈی این اے میں شامل ہے۔ اس کو جبری طور پر تبدیل کرنے کی کاوشوں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے ہمیں اس ثقافت کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے اور فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح جن معاشرتی اقدار کے تباہ ہونے کا رونا ہم روتے ہیں وہ اقدار خود ساختہ اور فطرت کے خلاف ہیں۔ اکیسویں صدی میں آپ کسی بچی کو شرم حیا کی گردانیں الاپ کر اس کی زندگی کو مردانہ حاکمیت یا فرسودہ رسومات کی دیواروں میں مقید نہیں رکھ سکتے۔

اسی طرح کوئی بھی نوجوان زبردستی وہ طور طریقے نہیں اپنا سکتا جن کی بنا پر اسے معاشرے میں “پارسائی” کی سند عطا ہوتی ہے۔ انٹرنیٹ پر یو ٹیوب اور نیٹ فلکس جیسی بے شمار ویب سائٹس کی موجودگی میں اپنے ڈراموں اور فلموں پر خود ساختہ اخلاقی قدغنیں لگانے کا نتیجہ محض ان صنعتوں کی تباہی کی صورت میں ہی نکلے گا اور ناظرین اپنی آسودگی انٹرنیٹ پر موجود ویب سائٹس سے حاصل کر لیں گے۔ ویسے بھی جن اخلاقیات کا رونا ہمارے ہاں رویا جاتا ہے وہ محض جنسی جبلیات اور آزادانہ طور طریقوں سے اپنی زندگی گزارنے کے متعلق ہیں۔ شاید پچھلی صدی تک تو بنیادی جبلتوں اور زندگی گزارنے کے طور طریقعوں کو زبردستی قابو میں لایا جا سکتا تھا لیکن اس صدی میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔

دنیا اب مواصلاتی ذرائع میں ترقی کے باعث ایک گاؤں کی مانند ہو چکی ہے اور اب ایک مشترکہ تہذیب اور ثقافت پروان چڑھ رہی ہے۔ ایسے میں ڈراموں اور فلموں کی نمائش پر پابندی سے اخلاقیات اور اقداروں پر مرتب ہونے والے اثرات پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔ تہذیب یا ثقافت جامد نہیں ہوا کرتی اس کو وقت اور عصر حاضر کے تقاضوں میں ڈھل کر آگے بڑھنا ہی ہوتا ہے۔ انسانی مزاج اور رویوں پر بے پناہ تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچا گیا ہے کہ آرزوؤں اور امنگوں کو کسی بھی قدغن کی زد میں لا کر دبانے کی کوشش کی جائے تو معاشرے کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔

ڈراموں اور فلموں میں لباس کیسا ہونا چاہیے، ان کا موضوع کیا ہونا چاہیے یا ان میں کن مسائل کو دکھانا چاہیے اور کیا نہیں؟ یہ طے کرنے کیلئے پیمرا یا عدالت عالیہ کو فنون لطیفہ، برصغیر کی صدیوں پر مبنی ثقافتی تاریخ اور عصر حاضر کے بدلتے ہوئے سماجی اور پرفارمنگ آرٹ کے تقاضوں کو جاننا اور ان علوم پر دسترس رکھنا بیحد ضروری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں اداروں کے پاس نہ تو اس کی صلاحیت موجود ہے اور نہ ہی ان اداروں کو سماج کی اخلاقیات طے کرنے کا حق حاصل ہے۔ کم سے کم تفریح کے ذرائع کو بے حیائی اور پارسائی کے پلڑوں میں تولنا بند کیجئے تاکہ ہمارے سماج کو کتھارسس کیلئے کم از کم یہ ذرائع تو میسر آ سکیں۔

Tags: (پیمرا) کی جانب سے ٹی وی چینلوںPEMRAبے حیائیڈراموں اور فلموں
Previous Post

2018 کا بولی وُڈ: کیا بولی وُڈ میں خانز کا دور ختم ہونے کو ہے؟

Next Post

مولا جٹ: پاکستانی “کاؤ بوائے” کلاسک سے متعلق دلچسپ حقائق

عماد ظفر

عماد ظفر

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔

Related Posts

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 26, 2023
0

16 سال قبل میں محمد نواز شریف کے ساتھ ان کے خاندان کے مشہور پارک لین فلیٹس میں بیٹھا جیو نیوز کے...

علی وزیر اور راؤ انوار کے لئے ملک میں الگ الگ قانون ہے

علی وزیر اور راؤ انوار کے لئے ملک میں الگ الگ قانون ہے

by طالعمند خان
جنوری 26, 2023
0

پاکستان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی شروع دن سے ایک ہی پالیسی رہی اور وہ ہے؛ 'ہم یا کوئی نہیں'۔ لیکن اب حالات...

Load More
Next Post
مولا جٹ: پاکستانی “کاؤ بوائے” کلاسک سے متعلق دلچسپ حقائق

مولا جٹ: پاکستانی "کاؤ بوائے" کلاسک سے متعلق دلچسپ حقائق

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 26, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

by پیٹر جیکب
جنوری 14, 2023
0

...

Ahmad Baloch Kathak dance

بلوچستان کا ایک غریب چرواہا جو بکریاں چراتے چراتے آرٹسٹ بن گیا

by ظریف رند
جنوری 6, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In