مشرقِ وسطیٰ کیلئے امریکی خارجہ پالیسی اور مجوزہ نئی دفاعی حکمتِ عملی

مشرقِ وسطیٰ کیلئے امریکی خارجہ پالیسی اور مجوزہ نئی دفاعی حکمتِ عملی
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہی مشرق وسطیٰ عالمی طاقتوں کے لئے خصوصی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ کے ساتھ ہی یہ خطہ خصوصی طور پر امریکہ کے لئے اقتصادی اور دفاعی اعتبار سے اہمیت اختیار کرتا چلا گیا۔ دراصل نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی نیا سامراجی نظام مشرقِ وسطیٰ میں تشکیل دیا گیا۔ یہ نیا سامراج ہی دراصل خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے نئے اِستعماری نطام کے فروغ کے لئے حکومتوں میں تبدیلی کا باعث بھی رہا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کے ممالک تیل کی پیداوار سے مالا مال ہیں اِس لئے تاریخی اعتبار سے امریکہ کے علاوہ برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور دیگر کئی یورپی ممالک کے لئے بھی یہ خطہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی تاریخی اور دفاعی اہمیت کے اعتبار سے امریکی صدر جوبائیڈن کا مشرقِ وسطیٰ کا دورہ امریکی انتظامیہ کے لئے نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے۔

دورے کا تنقیدی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی انتظامیہ مشرقِ وسطیٰ کے لئے ایک مخصوص دفاعی حکمت عملی تشکیل دے رہی ہے۔ دورے کے پہلے حصے میں امریکی صدر جوبائیڈن کا اسرائیل کی حکومت کی جانب سے شاندار تاریخی استقبال کیا گیا۔ اِس کے بعد امریکی صدر فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے ملے اور ایک دفعہ پھر ”دو ریاستی فارمولے“یعنی "Two State Formula"کو دہرایا اور اسے خطے میں امریکی خارجہ پالیسی کا حصہ قرار دیا۔ اِس موقع پر صدر بائیڈن نے فلسطینی عوام کے لئے خصوصی امدادی پیکج کے اعلان کے ساتھ ساتھ امریکی نژاد فلسطینی صحافی شیریں ابو عاقلہ کی شہادت پر غم اور افسوس کا اظہار بھی کیا۔

دورے کے دوسرے مرحلے میں امریکی صدر جوبائیڈن اسرائیل سے براہ راست سعودی عرب پہنچے جہاں اِن کے استقبال میں تاریخی گرم جوشی دیکھنے کو نہ مل سکی تاہم امریکی صدر جوبائیڈن کی ولی عہد شاہ سلمان سے ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور کے علاوہ انسانی حقوق، سکیورٹی اور توانائی سے متعلق امور کے علاوہ علاقائی سلامتی اور دفاعی حکمتِ عملی کے ساتھ ساتھ واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خشوگی کے قتل کا معاملہ بھی زیر بحث رہا۔ اِس موقع پر امریکی صدر جوبائیڈن نے ایک دفعہ پھر جمہوریت کے دعویدار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو عالمی انسانی حقوق کا علمبردار قرار دیا۔ پھر ولی عہد شاہ سلمان بھی انسانی حقوق پر امریکا کے دہرے معیار کا تذکرہ کئے بغیر نہ رہ سکے اور اپنی گفتگو میں عراق اور افغانستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا۔

یاد رہے امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی ولی عہد شاہ سلمان کو واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خشوگی کے قتل کے حوالے سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا ور شاہ سلمان کے لئے غیر مہذب اور غیر سفارتی زبان کا اِستعمال کئے بغیر نہ رہ سکے تھے۔

محققین کے مطابق جمال خشوگی کے معاملے پر یقیناً دونوں لیڈروں کے متضاد آرا ہونے کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات خطے میں مشترکہ مفادات کی بدولت متاثر نہیں ہونگے۔

دونوں ممالک خلیج فارس میں ایران کے اثر ونفوذ کو ناصرف کم کرنا چاہتے ہیں بلکہ ایران کے جوہری پروگرام کو مشرقِ وسطیٰ اور دنیا کے لئے خطرہ بھی قرار دے چکے ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن مندرجہ بالا امور کے علاوہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں استحکام لانے کے لئے بھی سعودی قیادت سے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کے خواہش مند دکھائی دیتے ہیں۔ اِس کے علاوہ امریکی صدر جوبائیڈن اسرائیل اور سعودی عرب میں سفارتی تعلقات کی جلد بحالی کے لئے بھی خاصے گرم جوش دکھائی دے رہے ہیں۔ تاہم سعودی قیادت کی جانب سے اِیسے کسی بھی تاثر کا اظہار نہیں کیا گیا اور نہ ہی مستقبل قریب میں کوئی اندیشہ دیا گیا ہے۔ تاہم حال ہی میں سعودی عرب نے اسرائیل کے لئے بھی مسافر بردار طیاروں کے لئے اپنی فضائی حدود کھول دی ہیں۔

ایک مغربی صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے سعودی وزیر خارجہ نے واضح کہا جب تک مشرقِ وسطیٰ میں ”دو ریاستی فامولہ“"Two State Formula" کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاتا اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

مبصرین کے مطابق حالیہ افراطِ زر نے ناصرف ترقی پذیر ممالک بلکہ ترقی یافتہ ممالک کو بھی متاثر کیا ہے۔ امریکہ میں حالیہ شدید افراطِ زر بھی امریکی صدر جوبائیڈن کی مقبولیت میں کمی کا باعث بنی ہے۔ شاید سعودی تیل کی پیدوار میں اضافہ امریکی معیشت کو استحکام اور جوبائیڈن کے سیاسی مستقبل کو تقویت دے سکے۔

مشرقِ وسطیٰ میں سعودی قیادت کی سربراہی میں ہونے والے عرب ممالک کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر جوبائیڈن نے فرمایا کہ امریکہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے دیرپا تعلقات چاہتا ہے اور کسی بھی صورت میں چین اور روس کو خطے میں کسی بھی قسم کا خلا پُر کرنے کا موقع نہیں دے گا۔

ایک مغربی صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے سعودی وزیر خارجہ نے وضاحت کی کہ سعودی عرب اُوپیک پلس (Opec-Plus) ممالک پر تیل کی مزید پیداوار کے سلسلے میں کسی بھی دباؤ کا ارادہ نہیں رکھتا اور اِس سلسلے میں پہلے سے طے شدہ ”میکنزم“پر ہی اکتفا کرے گا اور تیل کی پیداوار کے سلسلے میں اُوپیک پلس ممالک کے ساتھ مل کر مشترکہ لائحہ عمل ہی اختیار کرے گا۔

بحرین، اسرائیل اور متحدہ عرب امارت کے درمیان ابراہام اکارڈ "Abrham Accord"کے بعد امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں قیام امن کے لئے اب دوسرے کئی عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان پرامن اور سفارتی تعلقات کے قیام کا خواہش مند دکھائی دیتا ہے۔ تاہم مبصرین کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں دیرپا امن کے لئے ”دو ریاستی فارمولہ“Two State Formula کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ اس سلسلے میں موثر عملی اقدامات کرنے ہونگے۔

”دو ریاستی فارمولہ“ پر امریکہ، سعودی عرب اور فلسطینی قیادت اور عرب ممالک کے درمیان اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔ لیکن اب ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِس سلسلے میں موثر عملی اقدامات اُٹھائے جائیں تاکہ ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا خواب بھی پُورا ہو سکے تب ہی مشرقِ وسطیٰ میں دیرپا امن قائم ہو سکتا ہے۔ ایک بین الاقوامی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے فلسطین کے وزیراعظم نے فلسطین پر سعودی قیادت کے موقف کی تائید کی اور واضح کیا کہ سعودی حکومت ایک ”آزاد فلسطین ریاست“ کے قیام تک کسی بھی صورت میں اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ اُمید واثق ہے کہ عالمی برادری مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے جلد اہم اور موثر اقدامات کرے گی اور فلسطین کے عوام بھی ایک آزاد اور خود مختار فلسطین ریاست میں سکون کا سانس لے سکیں گے۔

تحریر: پروفیسر کامران جیمز (شعبہ سیاسیات)ایف سی کالج لاہور