شہباز، حمزہ اور مریم مل کر نواز شریف کی دہائیوں پر محیط محنت پر پانی پھیر رہے ہیں

شہباز، حمزہ اور مریم مل کر نواز شریف کی دہائیوں پر محیط محنت پر پانی پھیر رہے ہیں
میری پیدائش 1977 کی ہے اور عمر کے پہلے حصے میں میری تعلیم امیر المومنین کے جاری کردہ نصاب کے تحت جہاد کے فضائل اور کرامات ذہن نشین پر مشتمل رہی۔ نسیم حجازی کے لہو گرما دینے والے قصوں نے بھی اس میں ایک کردار ادا کیا۔ جمہوریت سے میری پہلی باضابطہ ملاقات بینظیر بھٹو کی پاکستان واپسی پر ہوئی اور 1988 کے انتخابات ذہن پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو گئے۔ رات کے پچھلے پہر تک جاگ کر میں قاسمی صاحب کے تحریر کردہ ڈرامے دیکھتا اور روزنامہ جنگ میں دیا گیا انتخابی نتائج کا چارٹ بھرتا۔ میرے نسیم حجازی ذہن میں اسلامی جمہوری اتحاد ایک مجاہدانہ انتخابی جماعت کے طور موجود تھی چنانچہ پیپلز پارٹی کی انتخابی فتح پر خاصا رنجیدہ بھی ہوا۔ 1990 میں اٹھاون دو بی کے تحت حکومت بدلی اور ایک بار پھر پاکستان ٹیلی وژن کی انتخابی نشریات سے محظوظ ہونے کا موقع ملا۔

لیکن 1992 وہ سال تھا جب بحیثیت پاکستانی میں نے پہلا سیاسی انقلاب دیکھا اور نواز شریف کی صورت میں ایک سیاسی رہنما افق جمہوریت پر مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا۔ اس سے قبل کوئی ایک سیاسی جماعت ایسی نہ تھی جو اپنے بل بوتے پر بھٹو کی پیپلز پارٹی کا مقابلہ کر سکتی۔ پیپلز پارٹی کی تین سالہ حکومت نے پاکستانی عوام کو بالعموم اور پنجاب کے شہری کو بالخصوص متنفر کر دیا اور جب فاروق لغاری نے ایک اور انتخابی نشریات کا اہتمام کیا تو نواز شریف اکثریت سے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ اس کے بعد 26 برسوں میں مشرف زرداری حکومت عمران خان کی آمد پانامہ مقدمہ اسیری اور لندن روانگی جیسے واقعات بھی پنجاب میں نواز شریف کی مقبولیت کو کم نہ کر پائے۔

گذشتہ چار ماہ کا سلسلہ اس کے برعکس ہے اور مسلم لیگ ن آج کی تاریخ میں بے پناہ تنزلی کا شکار ہے۔ اس تحریر میں ہم ان عوامل پر بحث کریں گے جو فدوی کی کوتاہ اندیش نگاہ میں اس زوال کا سبب بنے۔

تحریک عدم اعتماد: اس سیاسی حماقت کے بارے گو جماعت خوف فیض سے لے کر حب الریاست جیسی بے بہا تاویلیں گھڑ رہی ہے مگر عملی واقعات شاہد ہیں کہ شہباز شریف اینڈ سنز کی ٹیکس چوری کے مقدمات اس سیاسی خود کشی کی بنیادی وجہ ثابت ہوئے۔ بظاہر فیض سے زیادہ مقصود کا خوف جماعت کو لے ڈوبا۔

2۔ ایک حماقت پر سلسلہ رک جاتا تو شاید کچھ بچت کے امکانات ہوتے لیکن عمران حکومت کی 55 ارب روپے پر مبنی تیل کی رعایت کی بارودی سرنگ پر مفتاح اسماعیل نے 186 ارب روپے مزید خرچ کر ڈالے۔ یوں بارودی سرنگوں سے بھرے میدان پر کمبھ کا میلہ سجا کر عوام الناس کے چیتھڑے اڑانے کا بند و بست کیا گیا۔ سب کچھ لٹا کر جب ہوش میں آئے تو تیل کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ کیا گیا اور یوں صارفین سے بارہا اور مسلسل مغلظات اور بددعاؤں کے حصول میں بھی کامیابی حاصل کی۔

3۔ آج کے جدید مواصلاتی دور میں جہاں دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی ذی روح سے مفصل گفتگو ممکن ہے، وزیر اعظم اور کابینہ نے لندن یاترا کا منصوبہ بنایا اور عوام کو یہ تاثر دیا کہ عملی طور پر ملک خداداد لندن اور اسلام اباد سے بیک وقت چلایا جائے گا۔

4۔ ایک ایسا ملک جہاں 95 فیصد آبادی کا شہنشاہ تھانیدار ہوتا ہے اور لوگ نیب کی ہجے سے بھی ناواقف ہیں وہاں نیب پر قانون سازی کر کے عوام کو واضح پیغام دیا گیا کہ غربت بمع غریب حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔

5۔ عدالتی شکست کے بعد جب مریم نواز جماعت کا پرچم تھامے ضمنی انتخابات کی مہم پر نکلیں تو تمام تقاریر عمران خان کی گردان پر مشتمل تھیں۔ تحریک انصاف کی سب سے بڑی کمزوری عثمان بزدار کا ذکر خیر محترمہ نے مناسب نہ سمجھا۔ دوسری جانب عمران خان نے بھی پوری مہم میں بزدار کو ایک سرکاری راز کی طرح چھپائے رکھا اور ن لیگ نے اپنا سب سے اہم اور کارآمد ہتھیار سرے سے استعمال ہی نہیں کیا۔

6۔ پے در پے شکست خوردہ مسلم لیگ بجائے اپنی خامیوں کا جائزہ لینے کے نقل عمران میں مظلومیت اور مزاحمت کا مضحکہ خیز بیانیہ اپنانے کی جستجو میں ہے۔ پاکستان کی اکثریت مظلومیت کی ایک تصویر ہے اور وہ حاکم وقت سے کارکردگی کی توقع کرتے ہیں۔ اگر حاکم خود کو مظلوم ثابت کرنا چاہے تو اس کا منفی اثر ہوتا ہے۔ اگر اشیائے خوردونوش اور تیل کی قیمتوں میں کمی کی خبر ہو تو عوام عدالت عظمیٰ سے آپ کی عداوت میں شاید آپ کے ساتھ کھڑی ہو مگر موجودہ حالات میں یہ امید بعید از قیاس ہے۔ ایک شاہی خاندان جس کا ہر فرد انہی عدالتوں کی دی گئی ضمانتوں پر آزاد ہے، عدلیہ مخالف مہم سے اپنے اہداف حاصل نہ کر پائے گا۔

فی الوقت شہباز، مریم اور حمزہ پر مشتمل سیاسی تکون نواز شریف کی دہائیوں پر محیط محنت کو برباد کرنے پر تلی ہے۔ نواز شریف کی وطن واپسی شاید اس انزال کو روک پاتی مگر حصول حکومت کے معاہدے کے تحت اس اقدام کی گنجائش نظر نہیں آتی۔

مصنف برطانیہ میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔