میں عمران خان کا سخت ناقد کیوں ہوں؟

میں عمران خان کا سخت ناقد کیوں ہوں؟
میں نے بحیثیت صحافت کے طالب علم یہی سیکھا ہے کہ ہمیشہ سچ بولا جائے اور نتاٸج پر غور کئے بغیر ٹھیک کو ٹھیک اور غلط کو غلط کہا جائے اور میں اپنی دانست کے مطابق یہی کر رہا ہوں۔

مجھے کسی کو وضاحت دینے کی ضرورت نہیں لیکن میرے چند قریبی دوست جو پی ٹی آٸی سے تعلق رکھتے ہیں وہ میرے لئے بہت عزیز اور قابل احترام ہیں اور میں ان کو کھونا بھی نہیں چاہتا۔ وہ مجھے ذاتی طور پر جانتے ہوئے بھی مجھ پر لفافی کا الزام لگاتے ہیں لیکن میں ان کی سیاسی سوجھ بوجھ کی کمی اور اختلاف رائے کے فلسفے کو نہ سمجھنے کو جواز قرار دے کر انہیں کھلے دل سےمعاف کرتا ہوں حالانکہ میرے میڈیا کے کولیگز اور ساتھ کام کرنے والے جانتے ہیں کہ میں نے دو سال کی سخت محنت کے بعد ایک ٹی وی چینل میں نیوز رپورٹر کی ایک نوکری حاصل کی تھی اور وہ بھی میری نوکری سے زیادہ صحافت کے شوق اور صحافتی اصول پسندی کی نظر ہوگئی۔

مجھے اس پر کوئی افسوس نہیں بلکہ میں خوش ہوں کہ ایک ایسے وقت میں،میں نے اپنی پہلی نوکری اصولوں کی خاطر قربان کی جب میڈیا میں تیس سال تجربہ رکھنے والے لوگ بھی بے روزگار ہو رہے تھے تو ایسے میں میرے تجربے کی کیا اوقات۔ میں اس کو بھی قدرت کی جانب سے اپنی شخصیت کے نکھار کا ہی ایک سبق سمجھ رہا ہوں اور گذشتہ دو سال سے میں بے روزگار ہوں۔

چلو اپنی بات کرتے ہیں کہ میں عمران خان کا سخت ناقد کیوں ہوں؟ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان واحد سیاستدان ہیں جس کا ساتھ دینے کے لئے 40 سال سے سوئے ہوئے اور سیاست سے بیزار نوجوان پھر سے بیدار ہوئے اور سیاسی میدان میں آگئے۔

دیگر نوجوانوں کی طرح مجھے بھی ان سے امیدیں تھی لیکن چونکہ میں پاکستان کے اس غلیظ نظام سے تھوڑا بہت واقف ہوں اس لئے کبھی بھی خان کو مسیحا نہیں سمجھا اور ان کے دعوٶں کے خوابوں میں رہنے کی بجائے ان کی حکومت اور کارکردگی دیکھنے کا مشتاق تھا جو اب تک سب کے سامنے ہے۔

میں اسلام آباد میں خان صاحب کے بنی گالہ والے گھر کے پڑوس میں رہتا تھا تو جب بھی خان وزیراعظم ہائوس اپنی نوکری کے لئے نکلتے تھے تو وہ روایتی سیاستدانوں والا روٹ لگ جاتا تھا اور پروٹوکول کی تعظیم کرتے ہوئے مجھے اپنے آفس اکثر دیر سے جانا پڑتا تھا تو کیا ہالینڈ کے وزیراعظم کی ساٸیکل پر دفتر جانے کی مثالیں دینے والے وزیراعظم عمران خان کا کردار بھی ویسا تھا؟

جی نہیں سائیکل اور پروٹوکول تو چھوڑیں خان صاحب نے تو اس بھوکی ننگی عوام کے تقریباً ایک ارب روپے بنی گالا سے وزیراعظم ہاوس آفس جانے کے لئے ہیلی کاپٹر پر ضاٸع کئے حالانکہ بنی گالا سے وزیراعظم ہاوس کا راستہ روٹ کلٸیر ہونے کی وجہ سے گاڑی میں 12 یا زیادہ سے زیادہ 15 منٹ کا ہوگا تو اگر عمران خان کا کردار اتنا مضبوط نہ تھا تو ہم جیسے نوجوانوں کو اتنے حسین خواب کیوں دکھائے؟

اب تنقید بھی انتہا کی ہی ہوگی کیونکہ عمران خان ہمارے خوابوں سے کھیلا اور وہ بھی پاکستان کے کٹھ پتلی وزیراعظم کی حقیر کرسی کے لئے، انہوں نے ہمارے احساسات کو مجروح کیا۔ اب یہ دل شکستہ نوجوان نسل کسی اور پر یقین نہیں کرے گی اور خان کو لانے کا اصل مقصد بھی اس نظام سے اعتماد اٹھانے کا تھا جو بڑی حد تک اٹھ گیا ہے۔

عمران خان نے ہمیں اقوام عالم میں قرضے اور بھیک مانگنے کی وجہ سے اپنا کھوئی ہوئی عزت واپس حاصل کرنے کا سنہرا خواب دکھایا اور ہم بھی اپنی کم عمری کے باعث یقین کر بیٹھے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

پاکستان اکنامک سروے برائے سال 2021 22ء اور معروف انگریزی اخبار ڈان کے مطابق پاکستان کا مجموعی قرضہ 44 ہزار ارب روپے ہے جو مسلم لیگ ن کی حکومت نے 24 ہزار ارب پر پہنچایا تھا۔ یعنی باقی ستر سال میں پاکستان کے دیگر حکومتوں نے 24 ہزار ارب روپے قرضہ لیا تھا جبکہ اکیلے خان نے تقریباً ساڑھے تین سال کے دور حکومت میں 20 ہزار ارب روپے قرضہ لیا تو یہ تھا عمران خان کا کشکول توڑنا؟

باقی حکومتوں کے قرضے میں جو ڈیویلپمنٹ پاکستان میں نظر آ رہی ہے وہ بھی ہوٸی اور بقول خان ان لوگوں نے چوری بھی کی تو عمران خان بتائے انہوں نے چوری نہ کرتے ہوئے بھی اتنی بڑی رقم لے کر کیا کیا؟

آپ نے ہمیں کرپشن سے پاک پاکستان کا وہ خواب دکھایا جو ایک دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے لیکن ہم یقین کر بیٹھے۔ ہمیں یہ بتائیں کہ جب آپ تقریباً ساڑھے تین سال حکومت میں رہے آپ نے نواز شریف، زرداری اور مولانا سمیت آپ کے دیگر سیاسی مخالفین جنہیں آپ چور کہتے ہیں۔ ان سے چوری کے کتنے پیسے ریکور کئے؟

اگر آپ ثبوت کے ساتھ 10 روپے کی ریکوری بھی دھکا سکے تو میں دیوانے کا کرپشن فری پاکستان کا یہ خواب پھر سے دیکھنے کے لئے تیار ہوں۔ چلو اس سوال سے آگے بڑھتے ہیں خان صاحب کو سوال زیادہ اچھے نہیں لگتے کیا کوٸی یہ بتا سکتا ہے کہ عمران خان کی حکومت میں ان کی کابینہ کے ارکان میں شامل وزرا کے اثاثوں میں 76 فیصد اضافہ کیسے ہوا؟ ان کے وزرا کے اثاثوں کی مجموعی مالیت جو 2018ء میں 10 ارب 20 کروڑ تھی وہء 2020 میں 18 ارب کیسے ہوگئے؟ شاید ان کا سیاست کا کاروبار اچھا چلا ہو ورنہ تو ان دنوں میں تو عام شہری کاروبار کا رونا ہی رو رہا تھا۔

خان صاحب آپ تو مثالیں ریاست مدینہ اور حضرت عمر کی دیتے ہیں، وہ عمر جس سے سوال کیا گیا کہ جو کپڑا عام شہریوں میں تقسیم کیا گیا ہے اس سے تو پورا لباس نہیں بن سکتا تو آپ نے بیت المال سے کیوں ہم سے زیادہ کپڑا لیا؟

عمران خان صاحب ریاست مدینہ کے رکھوالے حضرت عمر غصہ ہونے اور الزام تراشی کی بجائے وضاحت دے گئے تھے کہ میں نے اپنے لباس کے لئے اپنے بیٹے کا حصہ بھی استعمال کیا ہے۔ تو آپ بتائیں آپ نے توشہ خانہ سے 14 کروڑ 20 لاکھ روپے کے تحفے صرف 3 کروڑ 81 لاکھ روپے کے عوض کیوں خریدے؟ ٹھیک ہے قانون آپ کو اجازت دیتا ہے لیکن جو اخلاقی درس آپ قوم کو صبح شام دیتے ہے وہ اس کی اجازت دیتا ہے؟

آپ نے وزیراعظم ہائوس اور گورنرز ہائوس کو تعلیمی ادارے بنانے کا سنہرا خواب دکھایا مانتے ہیں، وہ سیاسی نعرہ تھا لیکن جس تعلیم کے نام پر قوم نے آپ پر اعتماد کیا اس تعلیم کے لئے آپ نے کیا کیا؟ آج بھی پاکستان کے 32 فیصد یا دو کروڑ سے زاٸد بچے بنیادی تعلیم اور سکول جانے سے محروم کیوں ہیں؟ گذشتہ 9 سال سے خیبر پختونخوا میں آپ کی حکومت ہے جبکہ ساڑھے تین سال آپ مرکز میں رہے تو آپ نے اعلیٰ تعلیم اور جامعات کا بجٹ 175 ارب روپے سے کم کرکے 65 ارب روپے کیوں کیا؟ یہ تھی آپ کی تعلیمی ایمرجنسی؟

آج خیبر پختونخوا کی بیشتر جامعات معاشی بحران کی زد میں کیوں ہیں اور ان کے پاس تنخواہیں دینے کے لئے پیسے تک نہیں جبکہ دوسری طرف آپ کے صوباٸی حکومت نے چند دن پہلے 1096 سوشل میڈیا انفلوٸنسرز کو بھرتی کرکے ان کی ایک سال کی تنخواہ کے لئے 87 کروڑ روپے مختص کئے مطلب آپ کی سیاسی ساکھ اس قوم کے بہتر اور روشن مستقبل سے زیادہ اہم ہے؟

ان سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی بھرتی کا مقصد یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ حکومتی کارکردگی کی تشہیر اور عوام کو آگاہی فراہم کرینگے جبکہ خدشہ ہے وہ سوشل میڈیا پر ´ نیا پاکستان´ ان کی بورڈ وارٸیرز کی طرح بنائیں گے جنہوں نے سوشل میڈیا پر اتنا پروپیگنڈا کیا کہ حقیقت میں کچھ تھا یا نہیں لیکن فیس بک اور سوشل میڈیا پر ´ نیا پاکستان´ بن چکا تھا۔

خان صاحب وہی کریں جو انہوں نے نوجوانوں کو خواب دکھائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ نوجوان سوشل میڈیا سے نکل کر حقیقی دنیا میں ´ نیا پاکستان´ تلاش کرنے نکل جائیں اور پھر آپ اور آپ کا نیا پاکستان بنانے والے پرانے مستریوں کو چھپنے کی جگہ نہ ملے۔