خان صاحب کو اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ خود عمران خان سے ہے!

خان صاحب کو اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ خود عمران خان سے ہے!
جب عمران خان کو اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے امکانات نظر آنا شروع ہوئے تو انہوں نے "جُملہ تمام" مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر مجھے نکالا تو "میں مزید خطر ناک ہو جاؤں گا"۔ خان صاحب کے حامیوں کو تو جو لگا سو لگا ان کے مخالفین نے اس بیان کے وہ ٹھٹھے بجائے کے پناہ۔۔۔ کسی نے کہا یہ گیدڑ بھبکی ہے، کوئی بولا خواہ مخواہ کا دباؤ بنانے کی کوشش ہے اور بہت سوں نے اس بیان کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئےکہا کہ ایک بار آپ اقتدار سے نکل گئے تو کوئی نام لیوا نہ ہو گا۔

تاہم وقت کے ساتھ ساتھ خان صاحب واقعی خطرناک ثابت ہو رہے ہیں۔ پی ڈی ایم جماعتیں ابھی عدم اعتماد تحریک کے کامیاب ہونے کا جشن بھی نہ منا پائی تھیں کہ عمران خان نے ایک خطرناک پنڈورا باکس کھول دیا۔ انکا بیرونی سازش کا بیانیہ اسقدر طاقتور ثابت ہوا کہ سپریم کورٹ سے 3 اپریل کی رات کے تمام "سرپرائز" کاالعدم ہونے اور آئین شکنی ثابت ہو جانے پر بھی اپوزیشن کے علاوہ محض چیدہ چیدہ آوازوں نے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ بنانے کا مطالبہ کیا۔

آنے والے دنوں میں یہ مطالبہ سیاسی بھُول بھلیوں اور معاشی تنگدستیوں کی بھینٹ چڑھتا رہا۔ اگرچہ حکومت نے گاہے بگاہے غداری کا مقدمہ درج کرنے کا اعلان کیا لیکن دوسری جانب سے ایسے بھرپور حملے ہوئے کہ پانچ ماہ گزرنے کے بعد بھی اس سے متعلق کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوسکی۔

اس دوران خان صاحب نے اپنے سابقہ 'کرم فرماؤں 'کو بھی آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیا اور انہیں مسلسل باور کروانے لگے کہ آپ لوگوں سے غلطی ہو گئی ہے، پہلی دفعہ ہینڈ سم وزیراعظم ملا اور اس کو اسطرح سے نکالنا جیسے سابقہ وزیر اعظموں کو نکالا جاتا ہے کچھ اچھے کا پتا نہیں دیتا۔

اقتدار کی راہداریوں سے اچانک بے دخلی کے اوائل دنوں میں عمران خان نے دبے لفظوں میں دباؤ بڑھایا لیکن وقت کے ساتھ ساتھے 'نیوٹرل ' اصطلاح کو اپنی تمام تقاریر اور بیانات میں واضح اور بامعنی جگہ دینا شروع کر دی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

گزشتہ ہفتے میڈیا آزادی پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے نیوٹرلز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب بھی وقت ہے، غلطی سدھار لیں اور ملک کو جن چوروں کے حوالے کیا ہے اس پر نظر ثانی کریں۔ جب حاضرین ان الفاظ سے خوب محظوظ ہوئے تو اگلی ہی سانس میں عمران خان نے یہ بھی کہہ ڈالا کہ ایجنسیوں نے خود مجھے انکی چوریاں دکھائی تھیں۔ جوشِ خطابت میں اگلے جملے میں انہوں نے "چائنہ ٹچ" کا اضافہ کر دیا اور کہا کہ کک بیکس کےلئے سلیمان شہباز چین پہنچا اور ساری معلومات انہی سے آئیں۔

ناقدین ابھی انہی سطروں پر تنقیدی نشتر چلا رہے تھے کہ خان صاحب نے شہباز گل معاملے پر احتجاجی ریلی میں گولہ باری کا نیا مگر آزمودہ محاذ کھول دیا۔ انہوں نے بھرے مجمعے کے سامنے آئی جی ، ڈی آئی جی اسلام آباد اور شہباز گل کا ریمانڈ دینے والی خاتون جج کےلئے 'وارننگ شاٹس ' پھینکےاور عندیہ دیا کہ انکو نہیں چھوڑیں گے۔ عمران خان کا یہ انداز 2014 والے دھرنے کی سنہری یاد تروتازہ کر گیا جب انہوں نے تب کے آئی جی کو بھی متنبہ کیا تھا جبکہ نوجوانان نےٹائیگر فورس میں بھرتی کےلئے ٹرائل سمجھ کر ایس ایس پی جونیجوکو بعد میں زود کوب بھی کر ڈالا تھا۔

پی ٹی آئی کے غیر آئینی سرپرائز ہوں، فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ ہو، شہباز گل کی بغاوتی تقریر ہو، توشہ خانہ ریفرنس یا دیگر معاملات، عمران خان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان سب کا توڑ"کی بورڈ وارئیرز" کے پاس موجود ہے۔ ان تمام معاملات کو کہاں اور کیسے "لنک" کرنا ہے یہ ان سے بہتر کون جانتا ہے۔ بچے کُچھے معاملات شام سات سے رات بارہ بجے تک کے چیختے چنگھاڑتے اینکرز سنبھال لیں گے۔ بس خان صاحب کو اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ خود عمران خان سے ہے۔ اقتدار چھن جانے کا غم وغصہ بجا ہے مگر ایک ملک گیر جماعت ہونے کے باعث عمران خان کو اپنے بیانات اور حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا۔

ہر تقریر میں اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران ہاتھ پاؤں بندھے ہونے کے شکوے کرنا اور نیب سمیت دیگر اداروں پر کسی اور کی گرفت ہونے کا رونا رونا انکی اپنی شخصی کمزوریوں اور اقتدار کی مصلحتوں کو آشکار کرتا ہے۔

عمران خان کو انکی شعلہ بیانی اپنے ہم عصروں سے جدا تو کرتی ہے لیکن اسکی وسعت انکو کہیں الطاف حسین اور نواز شریف والی فہرست میں نہ ڈال دے۔ پہلے پیمرا نے عمران خان کی لائیو تقاریر پر پابندی لگا کر انہیں اس فہرست میں شمولیت کےلئے کوالیفائی کرنے میں مدد کی اور پھر اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین عدالت کی کاروائی کا آغاز کر ڈالا۔ اب یہ خان صاحب پر ہے وہ اس فہرست میں رہنا پسند کریں گے یا سیاسی کھیل کے اصولوں کے مطابق ایک قدم پیچھے ہو کر دو قدم آگے آنے کی حکمت عملی اپنائیں گے۔