نیرہ نور: سُر انسان بنا دیتا ہے، سُر رحمان ملا دیتا ہے

نیرہ نور: سُر انسان بنا دیتا ہے، سُر رحمان ملا دیتا ہے
قلندرگذشتہ ایک ہفتے سے بہت اداس تھا۔ چرس یا بھنگ والی بریانی بھی نہیں کھا رہا تھا۔ مریدوں سے بات چیت تک چھوڑ دی تھی۔ سب ہی اس شش و پنچ میں مبتلا تھے کہ آخر ایسا کیا ہو گیا ہے جو قلندر کو چپ لگ گئی ہے۔ کہاں تو اس کی زبان تالو سے نہ لگتی تھی۔ اب زبان پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ قلندر کے مرید اس سے پوچھ کیوں نہیں لیتے کہ حضور کونسی آفت آ گئی ہے جو سرکار چپ کا روزہ رکھے اداس تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ بھئی مسئلہ یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ قلندر سے سوال کرنے کی جرات تو اسکا منہ چڑھا مرید اسحاقہ کنجر ہی کر سکتا تھا۔ اسحاقہ تو سپیشل امیگرینٹ ویزا لے کر امریکہ چلا گیا۔ لے دے کے امید اب صرف ریشماں سے ہی تھی۔ صرف وہ ہی آستانے کی واحد شخصیت تھی جو قلندر سے کچھ بھی کسی بھی وقت پوچھ سکتی تھی۔ بھئی ایسا کیوں نہ ہو۔ اعلیٰ پائے کی رقاصہ تھی۔ پکی کنجری مراثن ۔ بے پناہ تیار۔ بڑے سے بڑا مراثی اسکے ساتھ طبلہ بجانے کی جرات نہ کرتا۔ یہ صرف قلندر ہی تھا جو اسے طبلے پر نچا سکتا تھا۔ حالانکہ قلندر محض اتائی تھا۔ مگر ریاضت کر کر کے مراثیوں کو بھی پیچھے چھوڑ گیا۔ سو سب ہی مریدوں نے ریشماں کو دم دیا کہ وہ قلندر کے گلے میں گھنٹی باندھے۔ ریشماں ذاتی طور پر تو ایسا کرنے کے حق میں نہ تھی مگر مریدوں کے اصرار پر کڑوی گولی نگلنے کو تیار ہو گئی۔

'لگتا ہے سرکار سیلاب کی تباہ کاریوں سے پریشان ہیں۔ حالانکہ ہمارا تو لنگر پورے پاکستان میں چل رہا ہے۔ ۔۔' ریشماں قلندر سے بات کرنے کا بہانہ ڈھونڈتے شروع ہوئی۔
'سیلاب سے کون کم بخت پریشان ہے۔ سیلاب تو اب آنے ہی آنے ہیں ۔ تجھے کیا کلائمیٹ چینج climate changeکا کچھ پتہ نہیں؟ ' قلندر بولا۔

'کچھ زیادہ علم نہیں سرکار۔' ریشماں بولی۔
'تو پھر کل کے ڈان اخبار میں علی توقیر شیخ کا کالم پڑھ لے۔ کلائمیٹ چینج کی ماہر بن جاوے گی منٹوں سیکنڈوں میں' قلندر بولا۔
'یہ علی توقیر شیخ کون ہے؟ ریشماں نے پوچھا
'اپنا ہی مرید ہے ۔ بے مرادا ہو کر آستانہ چھوڑ گیا اور اب کلائمیٹ چینج کا سب سے بڑا سپیشلسٹ ہے ۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف بھی اسکے چرن چھوتے ہیں۔ لیکن چھوڑ۔ تو بتا تیرا ریاض کیسا چل رہا ہے؟'قلندر نے جواب میں کہا۔

'حضور ریاض کیا خاک ہو گا۔آپ اداسی کے چنگل سے باہر آئیں ۔ طبلہ سر کریں تو ریاض بھی ہو۔' ریشماں اپنی خاص ادا دکھاتے بولی۔
'ہو گا ہوگا۔ ریاض بھی جلد ہو گا۔ دراصل نیرہ کے جانے کے بعد ریاض کا دل نہیں کرتا۔' قلندر بولا
'سرکار نیرہ تو سلامت ہے۔ کل ہی ایوان صدر میں زبردست مجرہ کر کے آئی ہے۔ آپکو معلوم نہیں اپنے صدر مملکت کی رسم ختنہ تھی کل' ریشماں حیرانگی سے بولی۔
'ابے نیرہ بائی کی نہیں نیرہ نور کی بات کر رہا ہوں۔۔۔اور یہ صدر کو بھی اپنی رسمِ ختنہ سیلابوں کے دور میں ہی کرنی تھی۔ کوئی اور موقع نہ ملا نا ہنجار کو؟'

'پر نیرہ میں ایسی کیا خاص بات تھی جو آپ 'شامِ غریباں' والا حلیہ اختیار کیے بیٹھے ہیں۔ وہ تو عام سے گانے گایا کرتی تھی۔ ہاں آواز خوبصورت تھی اور سر میں تھی۔ مگر ہزاروں گانے والے ہیں جنکی آواز سر میں بھی ہے اور خوبصورت بھی۔ ' ریشماں بولی۔

'ہاں تو ٹھیک کہہ رہی ہے ریشماں پر اسکے سر میں اور دوسروں کے سر میں فرق ہے۔'
'کیا فرق ہے۔ کچھ تو بتائیں۔ ہمیں تو کچھ خاص فرق محسوس نہ ہوا!

'دوسرے سر میں ضرور ہیں مگر ان کا سر فرش پر ہی ہے۔ نیرہ کا سر ایسا لگا کہ عرش تک پہنچ گیا اور اس کا ناطہ سر بنانے والے سے جڑ گیا۔ اس کے بعد اس نے سنیاس لے لیا۔ وہ ولی عورت تھی۔ ہماری طرح جعلی قلندر یا پیر نہیں! اسی طرح وہ سر کی سچی بھگت تھی۔ تب ہی تو اس کا سر ایسا لگا کہ دنیا کی حقیقت اسکے آنکھوں کے سامنے آ گئی۔ یاد رکھوں سر کی سچائی کا پہلا درجہ ہے: سر انسان بنا دیتا ہے۔ اگر تمہارے سر نے تمہیں انسان نہیں بنایا تو تمہار ا سر نہیں لگا۔ رب انسان بننے کے بعد ہی ملتا ہے۔ اگلا درجہ بہت کٹھن ہے۔ عمر بھر کی ریاضت کے باوجود اس کا سراغ تک نہیں ملتا۔ بڑے بڑے اولیاء ، پیر ، فقیر، قلندر اور ملنگ اس درجے کی خواہش میں عمر کی جنگ ہار گئے۔ نیرہ ان چند گنے چنے انسانوں میں تھی کہ جن کا سر ایسا لگا کہ 'رحمان' مل گیا: سر انسان بنا دیتا ہے سر رحمان ملا دیتا ہے! اب آیا سمجھ میں؟! قلندر بولا اور ریشماں خاموشی کے سمندر میں ڈوب چکی تھی۔

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔