سیلاب کا عذاب صرف غریبوں پر ہی کیوں آتا ہے؟

سیلاب کا عذاب صرف غریبوں پر ہی کیوں آتا ہے؟
وطن عزیز کے بیشتر علاقوں میں سیلابی پانی سے تباہ کاریاں جاری ہیں۔ اب تک ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق اور ہزاروں خاندان متاثر ہو چکے ہیں۔
کرونا وائرس سے بچنے کے بعد یہ سیلاب عذاب بن کر اہل وطن پر ٹوٹ پڑا ہے۔ جو معاشی ترقی کرونا کال کے بعد رکی تھی اور پھر آہستہ آہستہ حالات بہتری کی طرف رواں دواں ہونے شروع ہوئے تھے ان کو پہلے مبنہ طور آپریشن رجیم چنج اور اب سیلاب سے شدید نقصان پہنچا ہے۔

مہنگائی پہلے ہی ساتویں آسمان پر ہے اور موجودہ مکس اچار حکمران اتحاد ایک عالمی مالیاتی ادارے سے سخت ترین شرائط کے بعد ملنے والی قرض کی رقم پر اس طرح شادیانے بجا رہا ہے جیسے بہت بڑی معاشی کامیابی حاصل کرلی ہے۔ ان شرائط کی قیمت اس بد نصیب ملک کے غریب عوام نے ادا کرنی ہے۔ اس مکس آچار حکمران اتحاد کے تمام بڑے نام بیرون ممالک میں جائیدادیں اور سرمایہ کاری کیے ہوئے ہیں۔ ان کے لیے یہ مہنگائی کچھ بھی نہیں، جان تو غربیوں کی نکلے گی۔

ایک بات تو طے ہےکہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ہمارے ادارے کوئی منصوبہ بندی نہیں کرتے۔ جب آفت سر پر ٹوٹتی ہے تب ان کو ہوش آتا ہے، ایسے میں صرف ایک منظم ادراہ پاک فوج ہی کام آتا ہے۔ پھر دوسری طرف ہمارے وہ نام نہاد مذہبی رہنما جو کبھی آفت زدہ علاقوں میں فلاحی کاموں میں نظر نہیں آتے صرف یہ کہہ کر کنی کتراتے نظر آتے ہیں کہ سیلاب زلزلے اور وبائیں خلق خدا پر اس لیے نازل ہوتی ہے کہ ملک میں فحاشی بہت ہے اور ہم لوگ مذہب سے دور ہو چکے ہیں۔

خدا ان کی دماغی حالت پر رحم کرے جن کو یہ نہیں پتہ اگر یہ سب آفات اس لیے نازل ہوتی ہیں کہ ہمارے اعمال ٹھیک نہیں تو پھر غریبوں پر ہی کیوں نازل ہوتی ہیں؟ آخر غربیوں کو ہی کیوں ان گناہوں کی سزا ملتی ہے؟ اس ملک کے بالا دست طبقے کیوں نہیں ان آفات سے متاثر ہوتے؟ اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔

اس سیلاب کے دروان ایک بار پھر جب فنڈ جمع کرنے کا موقع آیا تو سابق وزیراعظم عمران خان ایک بار سب پر بازی لے گئے ہیں۔ انہوں نے صرف دو گھنٹے کے دروان ٹیلی تھون نشریات کے ذریعے 5 ارب روپے جمع کیے جو پنجاب اور خیبر پختونخوا کے بینکوں میں جمع ہوئے مگر اس رقم کا استعمال پورے ملک میں کیا جائے گا۔

اس پروجیکٹ کی نگرانی ڈاکٹر ثاینہ نشتر جیسی اچھی ساکھ والی خاتون کرے گی جن کی زیرِ نگرانی احساس پروگرام کامیابی سے چلا تھا جس کا اعتراف بین الاقوامی سطح پر کیا گیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے بڑھ کر الخدمت فاؤنڈیشن اور المصطفیٰ ٹرسٹ والوں نے کام کیا ہے۔

حرف آخر اس ملک کو سندھ کو سیلاب سے بچانے کے لیے عمران خان دیگر فلاحی ادارے جو کام کر رہے ہیں وہ تو ہے ہی مگر ایک نوجوان جس کا نام ذوالفقار علی بھٹو جونیئر ہے جس کا سیاست میں کوئی کردار نہیں جس طرح سندھ کے غریب عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر کام کر رہا ہے سندھ کے ان عرب پتی سیاست دانوں سے پوچھ رہا ہےکہ تمہارے پاس مبنہ طور آپریشن رجیم چنج میں اراکین اسمبلی کو خریدنے کے اربوں روپے تھے مگر غربیوں کے لیے کچھ بھی نہیں۔ مجھے یقین ہے آصف علی زرداری اس ملک میں کرپشن، نفرت اور عوام دشمنی کی علامت بن گیا ہے، اسکے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کی بھی سیاسی تدفین کا باعث بنے گا۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔