جناب اعلیٰ! آخر کیوں سب باری باری آپکے خلاف ہوتے جا رہے ہیں؟

جناب اعلیٰ! آخر کیوں سب باری باری آپکے خلاف ہوتے جا رہے ہیں؟
جناب اعلیٰ غور کریں! یہ سب کیا ہو رہا ہے آخر کیوں سب باری باری آپکے خلاف ہوتے جا رہے ہیں؟ اخر اسکی کیا وجہ ہے؟ کون سے ایسے گھمبیر معاملات ہیں جن کی وجہ سے ہر کوئی اپنا وقت آنے پر آپکے خلاف ہو جاتا ہے؟ چاہے وہ ادیب ہو، صحافی ہو، دانشور ہو، قانون دان ہو یا سیاست دان۔ اسیے بے شمار ہیں جو آپکی آشر باد سے میدان عمل میں قدم رکھتے ہیں اور آپ کے فرمودات کی تشریح میں لگ جاتے ہیں مگر جب وہ کچھ اپنا کرنا چاہیے تو آپ انکے خلاف ہو جاتے ہیں۔

جناب عالی! آخر صرف آپ ہی عقل کل تو نہیں، آپ میر تقی میر تو نہیں ہیں جو کہتا تھا 'سارے عالم پہ میں ہوں چھایا ہوا، مسند ہے میرا فرمایا ہوا'

آخر یہ گمان آپ کو کیوں ہے کہ صرف آپ ہی محب وطن ہیں باقی سب غدار ہیں، یہ مادر وطن، یہ مٹی سب کی ہے۔ سب نے اسی مٹی میں دوگز نچے جانا ہے پھر جھگڑا کیسا ہے؟

جناب اعلیٰ شروع سے اسیا ہی ہے آپ نے کبھی کسی کو دل سے قبول نہیں کیا، کبھی ادبیوں شاعروں سے ناراض ہوئے تو رواپنڈی سازش کیس بنا دیا سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، حمید اختر جسے گوہرِ نایاب پابندِ سلاسل کر دے گئے، صحافیوں سے ناراض ہوئے تو امروز، پاکستان ٹائمز، لیل و نہار جیسے اخبارات کو بند کر دیا گیا۔ بائیں بازو کی سیاست آپ کو شروع سے ہی ناپسند تھی، آپ نے حسن ناصر کو جس بے جا میں مار دیا، کیا قصور تھا اس کا؟ صرف یہ ہی کہ وہ اپنی مرضی کی سیاست کرنا چاہیے ہیں مگر وہ نظریاتی سیاست شاید آپ کو پسند نہیں تھی کیونکہ بنام مطالعہ پاکستان آپ شاید جو پڑھانا چاہتے تھے وہ ان احباب کو منظور نہیں تھی۔

جناب اعلیٰ! آپ کے ایک پیش رو نے ایک بہت ذہین فطین جاگیر دار کو وزیر خارجہ بنایا مگر جب وہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو بن گیا تب اسے آپ نے تختہ دار پر لٹکا دیا۔

جناب عالی! یہ سب کیا ہے کہ آپ کو کوئی منصف بھی تب تک پسند آتا ہے جب تک آپکی کی مرضی کے فیصلے کرتا رہے جب وہ اپنی مرضی سے فیصلے کرتا ہے تو وہ فارغ ہو جاتا ہے۔

جناب اعلیٰ! آپ نے بھٹو کی بیٹی کو روکنے کے لیے ایک سرمایہ دار کو سیاست کے میدان میں اتارا، وہ جی بھر کے بدعنوانیاں کرتا رہا مگر آپ کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا کیونکہ آپ کا بغل بچہ تھا مگر جب وہ خود مختار ہوا تو آپ کے زیر عتاب آگیا ہے، پھر آپ کو اساطیری شخصیت کا حامل کرکٹر پسند آگیا مگر اب وہ اس ملک کا سب سے مقبول ترین سیاست دان بن گیا ہے اب آپ اسکے بھی خلاف ہو گئے ہیں، آپ کو علی وزیر محسن داوڑ بھی پسند نہیں،

جناب اعلیٰ! کل تک آپ جن کو چور ڈاکووں کا گروہ قرار دیتے تھے، اب ان کو مسند اقتدار بخش دیا ہے۔

جناب اعلیٰ، یہ ملک کس کا ہے آپ کا یا بائیس کروڑ عوام کا؟ کیا صرف آپکی ضد چلے گی کیا صرف آپکی انا کی تسکین ہو گی؟ نہیں جانتا جناب اس یدھ کا انجام کیا ہوگا، یہ ضد انا پرستی کی لڑائی کا خاتمہ کہاں ہو گا؟ مگر ایک بات حرف آخر کبھی تو خلق خدا کو کامیابی ملے گی۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔