جھوٹی خبریں شائع کرنے والوں کو کب سزا ملے گی؟

جھوٹی خبریں شائع کرنے والوں کو کب سزا ملے گی؟
وطن عزیز میں کہنے کو اظہارِ رائے پر پابندیاں عائد ہیں۔ ہر دوسرا شخص یہی بات کہے گا کہ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں کسی کو بھی فریڈم آف سپیچ کا حق حاصل نہیں۔ اظہار رائے پر قدغن تو ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں لیکن اس سب کے باوجود ہر طرف فیک نیوز پھیلانے کا عمل پورے زور و شور سے جاری ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اپنی ریٹنگز بڑھانے کے چکر میں اس کام میں سب سے آگے ہیں۔

ایک خبر سن لیجئے جو اسی پرنٹ میڈیا کے ذریعے جنگل میں آگ کی طرح پھیلائی گئی۔ خبر یہ تھی کہ "راولپنڈی کے ایک سرکاری ہسپتال میں ایک لیڈی ڈاکٹر کو انسانی خون پینے کے الزام میں نوکری سے برخاست کر دیا گیا"۔ یہ خبر ہر جگہ پھیلائی گئی۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحبہ کو بنا کسی تحقیق یا انکوائری کے صرف ایک اخبار کی خبر پر نوکری سے نکال دیا گیا۔

سوشل میڈیا پر اس خبر کے ٹکر چلے۔ ہر فیسبک و وٹس ایپ گروپ پر یہ خبر شیئر کی گئی۔ ہر فیسبک پیج کے ایڈمن نے زیادہ لائکس حاصل کرنے کے چکر میں یہ خبر شیئر کی۔

جب بات ذرا ٹھنڈی پڑی تو ہسپتال کی انتظامیہ نے ایک انکوائری کمیٹی بنائی۔ اس نے سارے معاملے کی از سر نو تحقیق کی تو پتا چلا کہ ساری خبر جعلی تھی۔ ڈاکٹر صاحبہ کا نفسیاتی معائنہ بھی کروایا گیا جس میں ماہر نفسیات نے انہیں نارمل قرار دیا۔ اب اس انکوائری کمیٹی نے ڈاکٹر صاحبہ کو دوبارہ نوکری پر بحال کرنے کی سفارش کی ہے۔

اس واقعے پر غور کریں کہ کیسے ایک جھوٹی خبر نے ایک قابل ڈاکٹر کو نوکری سے نکلوایا بلکہ انہیں نفسیاتی مریض بھی قرار دے دیا گیا۔ ان ڈاکٹر صاحبہ کے والد بھی ڈاکٹر ہیں۔ میڈیا مہم کے جواب میں وہ بھی اپنی بیٹی کا دفاع نہ کر سکے۔ اس طرح ایک جھوٹی خبر نے ایک ڈاکٹر کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی۔

اس وقت پاکستان میں سب سے آسان کام دوسرے پر الزام تراشی ہے۔ عزت دار لوگوں پر ایسے ایسے گھٹیا الزام لگائے جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کوئی ریٹنگ کی خاطر اتنا کیسے گر سکتا ہے؟

اگر ہم اس واقعے پر نظر دوڑائیں تو ایک بات واضح ہوتی ہے کہ ہم تماش بین قوم ہیں۔ ہمیں سنسنی خیزی پسند ہے۔ ہمارے پاس جو بھی خبر لائی جائے، ہم بنا تحقیق کے اسے سچ مان لیتے ہیں اور اس خبر کو آگے بڑھانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اگر وہ خبر جھوٹی نکل آئے تو مجال ہے کبھی ہمیں شرم آئے اور ہم معذرت کریں۔ اوپر والے واقعے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ایک جھوٹی خبر کو بنا تحقیق کے سچ مان لیا گیا اور اسے آگے پھیلایا گیا۔ افسوناک ترین امر یہ ہے کہ اس کام میں پڑھے لکھے باشعور طبقے نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ اب جبکہ خبر جھوٹی ثابت ہو چکی ہے تو کسی نے بھی معذرت کرنے کی زحمت نہیں کی۔

ذرا ایک لمحے کے لئے خود کو ان ڈاکٹر صاحبہ کی جگہ پر رکھ کر سوچیں کہ اگر یہ سب کچھ ہمارے ساتھ ہوتا تو ہمیں کیسا محسوس ہوتا؟ کیسے ایک لمحے میں ایک عزت دار شخص کی عزت و احترام کو سرعام پامال کیا گیا، کیسے کیسے گھٹیا میمز بنائے اور شئیر کیے گئے، کیسے ان کا مذاق اڑایا گیا، تو شاید ہمیں کچھ احساس ہو لیکن آفرین ہے ان ڈاکٹر صاحبہ پر جنہوں نے اس طوفان بد تمیزی کا دلیری سے مقابلہ کیا اور سرخرو ہوئیں۔

محکمہ صحت پنجاب کو چاہئیے کہ سب سے پہلے اس ہسپتال کی انتظامیہ کو فی الفور معطل کرے اور باقاعدہ انکوائری کروائے کہ کیسے ایک ڈاکٹر صاحبہ کو بنا کسی انکوائری کے صرف ایک خبر پر نوکری سے برخاست کیا گیا۔ اگر ان پر الزام لگا تو پہلے انکوائری ہوتی پھر سزا دی جاتی لیکن یہاں سزا پہلے دی گئی اور تحقیقات بعد میں کی گئیں۔ جنہوں نے یہ مکروہ حرکت کی، انہیں کڑی سزا دی جائے۔

آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی(APNS) سے بھی میری درخواست ہے کہ اس واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں کہ کیسے ایک اخبار نے ایک ڈاکٹر صاحبہ پر اتنا بڑا الزام لگایا۔ کیا اس اخبار کا کوئی ایڈٹیوریل بورڈ نہیں ہے؟ اگر تحقیقات میں اس اخبار کی انتظامیہ ملوث پائی جاتی ہے تو اس کی اشاعت پر فی الفور پابندی لگائی جانی چاہئیے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت فیک نیوز کے حوالے سے قانون سازی کرے۔ فیک نیوز چھاپنے والے عناصر کو کڑی سزا دی جائے تو ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہے۔

جس چیز پر سب سے پہلے قانون سازی کی اشد ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں میڈیا اور نام نہاد صحافیوں کے داخلے پر فوری طور پر پابندی لگائی جائے۔ مقامی صحافی اور اخبارت کے مالکان سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز اور عملے کو اپنے ناجائز کام کے لئے بلیک میل کرتے ہیں۔ پسندیدہ رپورٹ لکھوانے کے لئے اپنے صحافی ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اگر کوئی ڈاکٹر انکار کر دے تو اسے بلیک میل کیا جاتا ہے۔ لوکل اخبارات پر ان کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ لوکل چینلز پر ان کے خلاف میڈیا مہم چلائی جاتی ہے۔ چھوٹے شہروں میں ایسے واقعات اب روزمرہ کا معمول ہیں۔ اس طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

راولپنڈی کی ڈاکٹر صاحبہ جس ذہنی ٹارچر سے گزریں یہ صرف وہی جانتی ہیں لیکن اس واقعے نے ہماری اخلاقی و ذہنی پسماندگی کو مزید آشکار کر دیا ہے کہ ہم صرف معاشی طور پر ہی بدحال نہیں، ہم اخلاقی طور پر بھی بدحالی کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو چکے ہیں۔

ڈاکٹر صاحبہ کو ان کی نوکری پر بحال کرنے کے احکامات جاری ہو گئے ہیں۔ لیکن سوال وہی ہے کہ کیا ان کے دکھ اور غم کا مداوا ممکن ہے؟ جس ذہنی کرب سے وہ اور ان کا خاندان گزرا، کیا اس کی خلاصی ممکن ہے؟ کیا فیک نیوز چھاپنے اور اسے آگے شیئر کرنے والوں کو اپنے کئے پر ذرا بھی ندامت ہے؟

جنہوں نے اس گھناؤنے عمل میں حصہ لیا، ان میں اتنی ہمت اور طاقت نہیں کہ وہ ڈاکٹر صاحبہ سے معذرت کر سکیں۔ کم از کم وہ سوشل میڈیا پر لگائی گئی اپنی پوسٹس ہی ڈیلیٹ کر دیں لیکن شاید وہ یہ بھی نہ کر سکیں۔ میں ڈاکٹر صاحبہ کے مستقبل کے لئے دعاگو ہوں کہ وہ ہر میدان میں سرخرو ہوں۔

مضمون نگار ڈاکٹر ہیں اور سر گنگارام ہسپتال لاہور میں آرتھوپیڈک سرجری کی ٹریننگ کر رہے ہیں۔