'بعض لوگ شہباز گل کی رہائی کو عمران خان اور جنرل باجوہ کی ملاقات سے جوڑ رہے ہیں'

'بعض لوگ شہباز گل کی رہائی کو عمران خان اور جنرل باجوہ کی ملاقات سے جوڑ رہے ہیں'
معروف قانون دان عبدالمعز جعفری نے کہا ہے کہ جب قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس آیا تو روایت کے مطابق ان کا بطور ادارہ دفاع کرنے کی بجائے اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب نے ان کے سامنے بات رکھ دی کہ آپ تھوڑی سی صفائی پیش کر کے دیکھیں۔ یہ ریفرنس آنے کے بعد اندازہ ہوا کہ ججوں کے مابین آپس کے معاملات پر ڈسکشن کرنے کی گنجائش کم ہے اور انہیں اپنی بات دوسرے تک پہنچانے کے لئے خط لکھنے پڑ رہے ہیں۔

نیا دو ٹی وی کے پروگرام 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں قانون کے اوپر قانون کے چار کونوں میں رہ کر تبصرہ کرنا ایک انتہائی ناممکن بات ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہباز گل کا کیس جس طرح تیار کیا گیا، وہ سارا اسٹرکچر ہی فرسودہ ہے۔ جتنے بھی الزامات لگائے جا سکتے تھے وہ شہباز گل پر لگا دیے گئے۔ ان کولونیل قوانین کی کسی زندہ معاشرے میں مثال نہیں ملنی چاہئیے۔ اتنے سارے الزامات لگے اور ایک ماہ میں انہیں گنجائش بھی مل گئی۔ یہ گنجائش غیر معمولی ہے۔ دوسری طرف مریم نواز کو کیلبری فونٹ کے معاملے میں جیل جانا پڑا، انہیں یہ گنجائش نہیں دی گئی۔ علی وزیر کو بھی یہ گنجائش نہیں دی جاتی۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگ شہاز گل کی رہائی کو مبینہ طور پر عمران خان اور جنرل باجوہ صاحب کے درمیان ہونے والی ملاقات سے جوڑ رہے ہیں۔

آرمی چیف کی توسیع سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ہم عمران خان کے کامران خان کے ساتھ انٹرویو کے بعد ایک ایسی مشکل صورتحال میں ہیں کہ شاید جس کو ایکسٹینشن مل رہی ہے اسی کے اوپر شک ہے کہ اسے ایکسٹینشن چاہئیے یا نہیں کیونکہ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی دونوں ایکسٹینشن دینے کو راضی ہیں۔

پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے معروف صحافی عنبر شمسی کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں ہمیں جو خلیج نظر آ رہی ہے یہ سلسلہ عمران خان کا دور شروع ہونے سے ذرا پہلے شروع ہو گیا تھا۔ ایک طرف علی وزیر ہیں جو پارلمینٹ کے رکن ہیں انہیں ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود رہائی نہیں ملی۔ دوسری طرف شہاز گل کی قید پر جس طرح آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے اس سے عدالت کی ترجیحات کا پتہ چلتا ہے۔ علی وزیر 2020 سے جیل میں ہیں ان پر غداری کے 4 مقدمات بنائے گئے ایک میں ان کو ضمانت مل جاتی تھی تو دوسرا کیس فائل کردیا جاتا، انہوں نے جو تقریر کی تھی وہ کتنے لوگوں نے سنی تھی۔ انہوں نے کہا کہ میں غداری کے مقدمات کے خلاف ہوں مگر شبہاز گل کیس اور علی وزیر کیس کا موازنہ کیا جائے تو نظر آتا ہے کہ علی وزیر کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف عمران خان عدلیہ کے ادارے میں اس تقسیم کے ذمے دار نہیں ہیں بلکہ جیسے قاضی فائز عیسیٰ کے خط سے بھی اشارہ ملا تھا تو کچھ دیگر لوگ بھی اس تقسیم کے ذمے دار ہیں۔ جنرل باجوہ کی توسیع سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں عمران خان تو یو ٹرن لے چکے ہیں تو دیکھنے کی بات ہے کہ مریم نواز کیا اپنی پوزیشن پر کھڑی رہیں گی یا پچھلی بار کی طرح اس بار بھی خاموش ہو جائیں گی۔

ڈاکٹر اقدس افضل نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ پہلے ہم ایک سیاسی بحران کی وجہ سے معاشی بحران کی طرف گئے اور اس معاشی بحران کی وجہ سے دوبارہ ہم سیاسی بحران میں جا رہےہیں اور سیلاب کے بعد مجھے بہت بری معاشی صورتحال نظر آرہی ہے۔

سیلاب کی وجہ سے ملک کو کئی قسم کے کرائسز کا خطرہ ہے۔ اس کرائسز کا حل سیاسی اور معاشی استحکام میں ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات کا حل فوری طور پر الیکشن نہیں ہیں۔ فرض کریں کہ الیکشن کا رزلٹ پی ٹی آئی کی مرضی کے خلاف آتا ہے اور خان صاحب الیکشن کے رزلٹ ماننے کو انکار کردیتے ہیں تو پھر ملک کہاں جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے مقتدر اداروں میں جس طرح تقسیم نظر آ رہی ہے اس سب کا حل سیاسی استحکام میں ہے۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ پروگرام ہر پیر سے جمعہ کی رات 9 بجے نیا دور ٹی وی سے نشر کیا جاتا ہے۔