حکومتی ارکان سے متعلق آڈیو کلپ منظر عام پر؛ پی ٹی آئی نے وزیراعظم ہاؤس کی سکیورٹی پر سوال اٹھا دیئے

حکومتی ارکان سے متعلق آڈیو کلپ منظر عام پر؛ پی ٹی آئی نے وزیراعظم ہاؤس کی سکیورٹی پر سوال اٹھا دیئے
عین کسی جاسوسی فلم کے مناظر میں آنے والے موڑ کی طرح اتوار کے روز حکمران اتحاد سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کے مزید آڈیو کلپ منظر عام پر آ گئے اور پاکستان تحریک انصاف نے وزیراعظم ہاؤس کی سکیورٹی پر سوال اٹھا دیئے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ سامنے آنے والے ان آڈیو کلپس میں کوئی بھی ایسی بات نہیں کی گئی جو غیر قانونی ہو۔

صرف ایک روز قبل وزیراعظم شہباز شریف اور ایک سرکاری افسر کے درمیان ہونے والی گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر نمودار ہوئی تھی۔

پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر دو منٹ سے کچھ زیادہ دورانیے کا ایک آڈیو کلپ شیئر کیا جس میں ایک آواز سنی جا سکتی ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی آواز ہے۔ شہاز شریف یہ کہتے ہوئے سنے جا سکتے ہیں کہ مریم نواز نے ان سے اپنے داماد کو بھارت سے پاور پلانٹ درآمد کرنے میں مدد فراہم کرنے کو کہا ہے۔

آج جو کلپ منظر عام پر آئے، انہیں پاکستان تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں نے ٹوئٹر پر شیئر کیا۔ یہ کلپ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی اراکین کے استعفوں سے متعلق ہیں۔
پہلے کلپ میں مبینہ طور پر مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان مفتاح اسماعیل کے بارے میں ہونے والی گفتگو کو سنا جا سکتا ہے جنہیں سخت معاشی فیصلے لینے پر پارٹی کے اندر سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے کھلے عام کہا ہے کہ وہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چاہے ان کی پارٹی حکومت میں ہو یا حکومت سے باہر، وہ اس طرح کے فیصلوں کی حمایت نہیں کرتیں۔

کلپ میں جو آواز مریم نواز کی بتائی جا رہی ہے وہ کہتی ہے: "مفتاح ذمہ داری نہیں لیتا، ٹی وی پر الٹی سیدھی باتیں کہتا ہے جس کی وجہ سے اس کا مذاق اڑتا ہے، پتہ نہیں وہ کیا کر رہا ہے۔"
اس کے جواب میں وزیر اعظم شہباز شریف کی آواز یہ کہتے ہوئے سنائی دے رہی ہے۔ "اس نے واضح طور پر ڈنڈی ماری ہے۔"

"انکل، اسے نہیں پتہ کہ وہ کیا کر رہا ہے۔" مریم نواز مزید کہتی ہیں اور وہ مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنما اسحاق ڈار کی واپسی سے متعلق خواہش کا اظہار کرتی ہیں۔

سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار وزیر اعظم شہباز کو معاشی محاذ پر مدد فراہم کرنے کے لئے وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔

دوسرا آڈیو کلپ مبینہ طور پر وزیر اعظم، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر قانون اعظم تارڑ، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق کے درمیان قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں کے بارے میں ہونے والی گفتگو سے متعلق ہے۔

تیسرے کلپ میں مبینہ طور پر سابق آرمی چیف ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کی وطن واپسی کے حوالے سے مریم نواز اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ کیا گیا ہے۔
سابق آرمی چیف کے خاندان نے جون میں کھلے بندوں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ پرویز مشرف "ایک مشکل مرحلے سے گزر رہے ہیں" جہاں سے بحالی ممکن نہیں نظر آ رہی جبکہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کہا تھا کہ پرویز مشرف کا خاندان وطن واپسی کے منصوبے سے متعلق فوج سے رابطے میں ہے۔

اس آڈیو کلپ میں مریم نواز کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ "میں یہ ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہوں۔" اس میں اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے نواز شریف کو فون کرکے بھی یہی بات کہی ہے۔
"میں نے انہیں کہا ہے کہ وہ اس سے متعلق ٹوئٹر پر لکھ دیں۔ انہوں نے فوراً میری بات سنی۔" مبینہ طور پر مریم نواز کہتی ہیں کہ اس اقدام کی کئی لوگوں نے مخالفت کی تھی۔ وہ اپنے اس فیصلے کی حمایت میں یہ دلیل پیش کرتی ہیں کہ اس صورت حال میں بڑا پن دکھانے سے حکومت کی ساکھ بچائی جا سکتی ہے۔

جون میں میجر جنرل بابر افتخار کے تبصرے نشر ہونے کے چند گھنٹوں کے بعد نواز شریف نے یہ لکھ کر ٹویٹ کیا تھا: "میری پرویز مشرف سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ کسی اور کو وہ صدمہ برداشت کرنا پڑے جو مجھے برداشت کرنا پڑا ہے۔"

وزارت اطلاعات کے ایک بیان کے مطابق وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ آڈیو کلپ اس بات کا ثبوت ہیں کہ کچھ بھی غیر قانونی نہیں ہوا اور نہ ہی کسی کو ناجائز فائدہ پہنچایا گیا۔

شوکت ترین کی آئی ایم ایف پروگرام سے متعلق سامنے آنے والی فون کال کا حوالہ دیتے ہوئے مریم اورنگزیب نے کہا کہ اب منظر عام پر آنے والی آڈیو ٹیپس میں "شوکت ترین کی پاکستان مخالف سازش" جیسا کچھ بھی نہیں ہے۔

دریں اثنا وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے جیو نیوز کے شو "نیا پاکستان" میں بات کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات ہونے تک ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ وزیراعظم ہاؤس کی سکیورٹی کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا: "اگر تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں بات کرنا محفوظ نہیں ہے اور کسی نے یہاں (جاسوسی کا) نیٹ ورک بنا رکھا ہے تو یہ واقعی سنجیدہ ایشو ہے لیکن بغیر ثبوت کے یہ سب کہنا نامناسب ہے۔"

مریم نواز کی مفتاح اسماعیل پر تنقید سے متعلق رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ جمہوری اور سیاسی نظام میں ہر کسی کو اظہار رائے کی اجازت ہوتی ہے۔ مفتاح پر باہر سے تنقید ہوتی ہے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں کہ پارٹی کے اندر سے بھی ان پر تنقید کی گئی ہے۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ ان آڈیو لیکس سے (ن) لیگ کی کرپشن بے نقاب ہو گئی ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے وزیراعظم سے اس معاملے کی تحقیقات کے بعد سخت اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

***
فہد چودھری کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔