عمران خان میچ فکسنگ چھوڑیں اور پارلیمنٹ میں واپس آئیں

عمران خان میچ فکسنگ چھوڑیں اور پارلیمنٹ میں واپس آئیں
شارٹ کٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے اندر ایک راز پوشیدہ ہے کہ آدمی جہاں سے شروع کرتا ہے، گھوم گھما کے وہیں آ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انسان کبھی کبھی تبدیلی کے لئے اس قدر بے تاب ہو جاتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح سے تبدیلی کو حاصل کرنا چاہتا ہے یا پھر ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ تبدیلی یا مقصد اس قدر ناگزیر ہو کہ اس میں تاخیر اور سست روی کی گنجائش نہ ہو۔ اس جنون میں وہ شارٹ کٹ لگانے کی کوشش کرتا ہے تا کہ جلد از جلد اپنی منزل کو پا لے یا پھراپنی جدوجہد کے سفر کو مختصر سکے۔

یہ عمومی رویہ ہے کیونکہ ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ جتنا جلدی ہو سکے، اپنے خوابوں کو پورا کر لے۔ ایسا کبھی کبھار ہو بھی جاتا ہے مگر یہ کوئی قاعدہ نہیں ہے۔ قاعدہ یہی بتاتا ہے کہ انسان کی زندگی میں تبدیلی اور اس کے خوابوں کی تکمیل ایک پراسیس کے تحت آتی ہے کیونکہ ایک لکھا پڑھا اصول ہے کہ "تبدیلی ایک تقریب نہیں ہے بلکہ ایک پراسیس کا نام ہے"۔ آپ تبدیلی کے سفر میں جب کبھی پراسیس کو چھوڑ کر شارٹ کٹ کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک خاص مدت کے بعد آپ پھر سے اسی جگہ پر کھڑے ہوتے ہیں جہاں سے آپ نے پراسیس کو بائی پاس کر کے شارٹ کٹ کی چھلانگ لگائی تھی۔

پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جس کا نظام چلانے کے لئے پارلیمنٹ کا ادارہ موجود ہے۔ پارلیمنٹ اس جمہوری طریقہ کار کا مرکزی، بنیادی اور لازمی جزو ہے جس کے ذریعے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے قانون سازی کی جا سکتی ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان کے سیاست دانوں نے ملک کی پارلیمنٹ کو وہ اہمیت نہیں دی جو اسے ملنی چاہئیے تھی اور اکثر و بیشتر پاپولزم کے شارٹ کٹ کے ذریعے اقتدار میں آ کر پارلیمنٹ کو نظرانداز کر کے عوامی مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں منہ کی کھاتے ہیں۔

2011 کے لاہور والے جلسے سے پہلے تک پاکستان تحریک انصاف نارمل ترقی کا سفر کر رہی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے نہایت ثابت قدمی سے کسی "بیرونی ہاتھ" کی مدد کے بغیر اپنی سیاسی جدوجہد کو آگے بڑھایا اور آہستہ آہستہ ایک پولیٹیکل پراسیس کے تحت عوام اور ووٹرز کے دل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو رہے تھے مگر 2011 کے بعد یوں دکھائی دیتا ہے کہ عمران خان کو ایسا لگا کہ اس طرح سے وہ اقتدار تک نہیں پہنچ پائیں گے اور ان کو اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے لازمی طور پر ان طاقتوں کا ساتھ لینا پڑے گا جو پاکستان میں حکومت لینے اور حکومت کرنے کے لئے 'لازم' سمجھی جاتی ہیں۔ تب سے خان صاحب نے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لئے شارٹ کٹ لگانے کا فیصلہ کیا۔

اب یہ بات سیاست کے طالب علموں سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اس وقت کن مقتدر قوتوں کے کن با اثر افراد نے خان صاحب کو یقین دلایا کہ وہ ان کے دیرینہ خواب کی تکمیل میں ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ ان مقتدر طاقتوں کو ایسی کیا ضرورت آن پڑی کہ وہ اچانک خان صاحب کی مدد کو تیار ہو گئے۔ سیاسی دانشوروں کا خیال ہے کہ بڑی سیاسی تبدیلی تب آتی ہے جب مختلف اداروں اور طاقتوں کا مفاد ایک نقطے پر ملاپ کر جائے۔ مثال کے طور پر کمیونزم اور سوویت روس کے خلاف فیصلہ کن جنگ اس وقت جیتی گئی جب امریکہ، یورپ اور اسلامی دنیا کا ایک مؤقف پر سنگم ہوا۔ اسی طرح عمران خان اور دیگر افراد کا مفاد اور مؤقف ایک جگہ پر اکٹھا ہو گیا جس کے نتیجے میں خان صاحب برسراقتدار آنے میں کامیاب ہو گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مقتدر قوتوں کے پاس کیا وجہ تھی کہ وہ خان صاحب کی اچانک مدد پر راضی ہو گئیں؟

تجزیہ یہ کہتا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں بظاہر غیر سیاسی طبقے نے اپنا ایک گروپ ہمیشہ سے رکھا ہوا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا راستہ روکنے کے لئے IJI بنائی گئی جو بعد میں اپنا ارتقائی سفر طے کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) میں ضم ہو گئی۔ اصغر خان کیس اور جنرل اسد درانی کی گواہی اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ کس طرح عوام کے ووٹوں پر شب خون مارنے کے لئے سیاست دانوں میں پیسے تقسیم کئے گئے۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ کس طرح (ن) لیگ 90 کی دہائی میں کس طرح غیر سیاسی قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہوتی رہی لیکن تب (ن) لیگ اور "ان کے"مفادات ایک صفحے پر تھے۔ پھر آہستہ آہستہ (ن) لیگ اور ان غیر مرئی طاقتوں کے مفادات میں تضادات آنا شروع ہوا تو ایک "سیاسی" خلا پیدا ہو گیا جس کو پورا کرنے کے لئے "ان" کی نظریں عمران خان پر پڑیں جو پہلے سے اقتدار کے لئے کسی معجزے کے انتظار میں تھے۔ جیسا کہ ابن انشاء نے لکھا تھا کہ محمود غزنوی نے برصغیر پر 17 حملے کئے اٹھارھواں حملہ کیوں نہیں کیا؟ اس کا جواب وہ خود ہی دیتے ہیں کہ اٹھارھواں حملہ اس لئے نہیں کیا کہ اب برصغیر میں مزید کچھ بچا ہی نہیں تھا جس کو لوٹنے کے لئے مزید کوئی حملہ کیا جاتا۔ ٹھیک اسی طرح اب عمران خان کے علاوہ کوئی بچا ہی نہیں تھا لہٰذا عمران خان نے بھی اس موقعے کو غنیمت جانتے ہوئے سیاسی شارٹ کٹ لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور آج کل عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا تھا کہ عمران خان کی اقتدار کے لئے جلد بازی اور بے تابی نے ان کو مقتدر حلقوں سے ہاتھ ملانے پر مجبور کیا۔ اگر عمران خان تھوڑا اور انتظار کر لیتے تو تحریک انصاف اپنے بل بوتے پر حکومت حاصل کر سکتی تھی۔

2013 کے انتخابات میں تحریک انصاف کو پورا یقین تھا کہ وہ پورے پاکستان میں لینڈ سلائیڈ جیت کے ذریعے سے حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی مگر نتیجہ ان کی توقعات کے برعکس آیا۔ پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی کی صرف 35 نشستیں حاصل کر پائی جس سے وہ صرف اپوزیشن میں ہی بیٹھ سکتی تھی۔ دوسری طرف ماضی میں سیاسی حریف سمجھی جانی والی پارٹیاں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے آپس میں اتحاد کر لیا اور ایک مخلوط حکومت معرض وجود میں آ گئی۔ یہ بات بھی سیاست کے طالب علموں کے لئے حیران کن تھی کہ ماضی کی شدید مخالف پارٹیاں کس طرح ماضی کے اختلافات بھلا کر آپس میں شیروشکر ہو گئی ہیں۔ اس بات کا جواب بھی عمران خان کے سیاسی شارٹ کٹ میں پوشیدہ ہے کہ جب status quo کی دونوں پارٹیوں نے "خاص" طاقت کا توازن عمران خان کے پلڑے میں جاتے دیکھا تو انہوں نے عمران خان "وغیرہ" کے خلاف اتحاد بنا لیا۔ جیسا کہ کہتے ہیں کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ بہرحال عمران خان اپوزیشن میں آ گئے مگر انہوں نے اس حکومت کو پہلے دن سے ہی تسلیم نہیں کیا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف نے عام انتخابات کے نتائج ماننے سے انکار کر دیا اور ملک گیر احتجاج شروع کر دیئے جس کے بعد نئی حکومت کے لئے کام کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا۔ عمران خان اور ان کی پارٹی کا رویہ بدقسمتی سے دن بدن انتقامی ہوتا چلا گیا۔ یوں دکھائی دیتا تھا کہ جیسے وہ اپنے سیاسی شارٹ کٹ کی ناکامی میں اور اقتدار نہ ملنے کے ملال میں کسی حد تک بھی جانے کو تیار ہیں۔ عمران خان کو 2013 کے انتخابات میں پاکستان کا پاپولرترین ووٹ ملا اور تحریک انصاف ملک کی مقبول ترین جماعت بن کر ابھری لیکن بدقسمتی سے ان کو اس بات کا ادراک نہ تھا۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن کے کردار کو غنیمت نہ جانا۔ اس لئے اپنے مقاصد کے لئےغیر پارلیمانی طریقہ کار کو ترجیح دی گئی حالانکہ ان کو چاہئیے تھا کہ پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر جینوئن اپوزیشن کا کردارادا کرتے، حکومت اور پارلیمنٹ سے عوام کے حق میں قانون سازی کرواتے، اپنی اور اپنی ٹیم کی سیاسی اور پارلیمانی تربیت کرتے تاکہ وہ اگلی حکومت کے لئے تیار ہو سکیں اور اس شرمندگی سے بچ سکیں جو انہیں بعد میں حکومت ملنے پر اٹھانی پڑی۔ اس خفت کا عمران خان نے خود اعتراف بھی کیا کہ 2018 کی حکومت میں آنے کے لئے ان کی تیاری نہیں تھی۔ شارٹ کٹ میں یہی مسئلہ ہوتا ہے کہ جب کوئی مشکل پیش آتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ تیاری نہیں تھی۔ تیاری کی درسگاہ پارلیمنٹ تھی جس کو عمران خان نے نظر انداز کر کے "امپائر کی انگلی" پر تکیہ کرنا سیکھ لیا۔

اب صورت حال یہ ہے کہ اقتدار کھو جانے کے بعد عمران خان مسلسل جلسے کر رہے ہیں جس سے ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں بھی ان کو واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ عمران خان بے شک روزانہ جلسے کریں، مقبول سے مقبول تر ہوتے چلے جائیں لیکن عمران خان عوام کو حقیقی آزادی تب تک نہیں دلوا سکتے جب تک وہ پراسیسس کو صراط مستقیم مان کر اس پر نہیں چلتے اور شارٹ کٹ لینے والی ذہنیت سے چھٹکارا نہیں پا لیتے۔ مگر سیاست میں اتنی ساری ٹھوکریں کھانے کے بعد بھی جو بات عمران خان کی سمجھ میں ابھی تک نہیں آئی وہ یہ ہے کہ جمہوری ملکوں میں تبدیلی ہمیشہ پارلیمنٹ کے ذریعے سے ہی آتی ہے۔

اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں بدقسمتی سے جمہوریت اور پارلیمنٹ کی حیثیت بھی ثانوی رہی ہے مگر اس کے پراسیس پر یقین کے علاوہ ہمارے پاس کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔ اگرچہ آپ پورا نظام لپیٹنا چاہتے ہیں تو وہ ایک الگ معاملہ ہے اور اس کا راستہ بھی پارلیمنٹ سے ہو کر جاتا ہے۔ آپ جتنا پارلیمنٹ سے پیچھا چھڑوانے کی کوشش کریں گے اور اس کو نظر انداز کر کے شارٹ کٹ لگانے کی کوشش کریں گے، آپ اتنا ہی سیاسی گرداب میں پھنستے چلے جائیں گے۔ بالآخرآپ کو ٹریک پر واپس آنا پڑے گا اور اس ٹریک کے شروع میں بھی پارلیمنٹ ہے، درمیان میں بھی پارلیمنٹ ہے اور آخر میں بھی پارلیمینٹ ہی ہے۔ اس لئے عمران خان صاحب کو چاہئیے کہ اپنے عوامی مینڈینٹ کی قدر کرتے ہوئے جتنا جلدی ہو سکے پارلیمنٹ کو لوٹ جائیں کیونکہ ان کے اور عوام کے سارے زخموں کی مسیحائی صرف اور صرف پارلیمنٹ میں ہے۔ آپ نے ہینڈسم اور پاپولر ہو کر بھی دیکھ لیا ہے، اب ذرا سا پارلیمانی ہو کر بھی دیکھ لیں۔ کیا معلوم یوں بات بن جائے۔ چھوڑیں امپائر اور اس کی انگلی کو کو اور چھوڑیں کسی کے کندھے پر بیٹھ کر نعرے مارنے کو، سیدھے پارلیمنٹ پہنچیں جہاں عوام آپ کی راہ تک رہی ہے۔

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔