سوشل میڈیا کے میدان میں تحریک انصاف (ن) لیگ سے آگے کیوں ہے!

سوشل میڈیا کے میدان میں تحریک انصاف (ن) لیگ سے آگے کیوں ہے!
اس میں کوئی کلام نہیں کہ سیاست اور ابلاغیات کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ کسی بھی سیاست دان کے پاس سے میڈیا ہٹا دیں تو اس کے سیاست آدھی رہ جاتی ہے۔ بدلتے وقت اور نئی نئی ایجادات کے ساتھ ابلاغیات کے ذرائع بھی ارتقائی عمل سے گزر کر تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی اور عام آدمی کی اس تک رسائی نے زندگی کے دوسرے شعبوں کے علاوہ اطلاعات، نشریات اور ابلاغیات کے شعبے میں بھی انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اگر ایک طرف اس نے نام نہاد مین سٹریم یا رسمی میڈیا کو وسیع اور تیز تر کر دیا ہے تو دوسری طرف اس سے سوشل میڈیا کی صورت میں ابلاغیات کی نئی ندیا پھوٹ پڑی ہے جس میں ٹوئٹر، فیس بک، یوٹیوب اور وٹس ایپ عام لوگوں میں زیادہ مقبول ہیں۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے شاید اس کے موجد نے جدید مصروف زندگی اور اس کی تیزی کے نیتجے میں بڑھتی ہوئی انفرادیت اور سماجی تنہائی کو کم یا دور کرنے کیلئے اسے تخلیق کیا تھا لیکن پچھلی ایک دہائی سے خصوصاً سیاسی مقاصد کیلئے یہ ابلاغیات اور پروپیگنڈے کے مؤثر ترین ہتھیار بن چکے ہیں۔ عام اور آسان رسائی نے ان ذرائع کے اثرات کو شاید رسمی یا نام نہاد مین سٹریم میڈیا سے زیادہ وسیع اور زیادہ با اثر کر دیا ہے۔

گزشتہ ایک دہائی میں اس کا سب سے مؤثر استعمال دو سیاست دانوں نے کیا؛ ایک امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں اور دوسرے پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان۔ بظاہر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا استعمال زیادہ تر انفرادی تھا اور ٹوئٹر تک محدود تھا جس پر وہ پالیسی بیان اور احکامات تک جاری کرتا تھا۔ عمران خان نے اس کو تنظیمی پروپیگنڈے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ یہ کام بیک وقت دو اداروں نے شروع کیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے آئی ایس پی آر کے ذریعے اور پی ٹی آئی نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے۔ اگر 2014 سے پہلے کے حالات کا تجزیہ کیا جائے تو آئی ایس پی آر اور پی ٹی آئی دونوں کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم نہ اتنے منظم تھے اور نہ ہی اتنے مؤثر۔ قرین قیاس یہ ہے کہ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے آئی ایس پی آر کا چارج لینے کے بعد اس پر منظم اور جنگی بنیادوں پر کام شروع کیا گیا تھا۔ اس دور سے آئی ایس پی آر نے باقاعدہ انٹرنیز کو تربیت دینا شروع کی تھی۔ بعض باخبر ذرائع اس وقت تربیت حاصل کرنے والوں کی یہ تعداد دو سو فی مہینہ کے حساب سے بتاتے تھے۔ اس پراجیکٹ کو ففتھ جنریشن وارفیئر کا نام دیا گیا تھا۔

یہ بھی قرین قیاس ہے کہ پی ٹی آئی اس پراجیکٹ سے نہ صرف مواد اور پروپیگنڈا کے حوالے سے مستفید ہوئی بلکہ اسے تربیت یافتہ ابلاغی جنگجو بھی حاصل ہوئے اور تنظیمی مہارت بھی ملی۔ اگر دیکھا جائے تو 2014 سے اپریل 2022 تک اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی دونوں کا بیانیہ اور پروپیگنڈا ایک جیسا تھا۔ اس سوشل میڈیا پروپیگنڈا کے ذریعے ففتھیوں اور یوتھیوں نے خیبر پختونخوا میں مثالی فلاحی حکمرانی قائم کی تھی۔ اس کے پولیس کے نظام، تعلیم کے نظام اور صحت کے نظام کو سکینڈے نیوین ملکوں سے بھی بالا درجے پر فائز کئے رکھا۔ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر آپ کو وہاں پر دنیا کی جدید ترین کشادہ شاہراہیں بھی ملیں گی، ساتھ ساتھ 350 ڈیم اور بلین ٹریز سونامی بھی لیکن حقیقت میں صوبے کے حالات پرویز خٹک کی صحت سے بھی پتلی حالت میں تھے۔ اسی طرح 2018 سے مارچ 2022 تک وفاق اور پنجاب میں بھی اچھی حکمرانی کے سارے ثمرات صرف پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پر دستیاب تھے۔

باقی سیاسی جماعتوں نے اس کے توڑ کو ضروری ہی نہیں سمجھا، شاید اس کی اہمیت ان جماعتوں کے دقیانوسی ذہنوں کی مالک قیادت کی سمجھ سے بالاتر تھی۔ تاہم مریم نواز شریف نے پی ٹی آئی کے دھرنے کو مین سٹریم میڈیا کی جانب سے دی جانے والی یکطرفہ کوریج اور اس پروپیگنڈے کی بڑھتی مقبولیت کو بھانپ کر سوشل میڈیا پر کام شروع کیا۔ ابتدا میں اس نے کچھ اچھی کارکردگی ضرور دکھائی تھی لیکن جب سے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف اپوزیشن نے کام شروع کیا، تب سے لیگی سوشل میڈیا بھی خوابیدہ ہوگیا۔ مابعد عمران خان کے سوشل میڈیا ٹیم نے اپنا پروپیگنڈا تیز تر کردیا لیکن لیگی ٹیم میں اس کے مؤثر جواب اور توڑ کی یا تو سکت ہی نہیں تھی یا پھر ان کی نیت ہی نہیں تھی۔

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک تو لیگی سوشل میڈیا ٹیم کے اغراض اور استعمال محدود مقاصد کیلئے تھا اور دوسرا یہ کہ اس کو روایتی جماعتی تنظیم کی طرز پر کھڑا کر دیا گیا تھا۔ اگر اس کے تنظیمی ڈھانچے پر غور کیا جائے تو پرانی اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ لیگی ذہنیت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ بس عہدہ حاصل کریں، کام (تنظیمی) تو ریاستی مشینری یعنی ڈی سی، پولیس اور پٹواری نے کرنا ہے۔ اس کے تنظیمی عہدوں کے القابات؛ مرکزی، صوبائی، ضلعی، تحصیل، ہیڈ آف سوشل میڈیا سے یہ حقیقت اور ذہنیت واضح ہوجاتی ہے۔

لگتا ہے کہ ان کو معروضی سیاسی چیلنجوں اور مزاحمتی سیاست کے تقاضوں کا واضح ادراک ہی نہیں تھا۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ ان کے اغراض اور مقاصد محدود تھے۔ شاید لیگی قیادت سوشل میڈیا سے صرف مین سٹریم میڈیا کی کمی پوری کرنا چاہتی تھی۔ اس لئے جب میاں نوازشریف اور مریم نواز شریف کو مین سٹریم میڈیا پر بلیک آؤٹ کا سامنا ہوا تو لیگی سوشل میڈیا نے اس کمی کو اس حد تک پورا کیا کہ میاں صاحب اور مریم کی تقاریر عوام تک پہنچاتے رہے۔ اس کے علاوہ باقی اوقات میں سوشل میڈیا ٹیم کے کارکنان یا تو اپنے علاقائی لیڈروں کو یا اپنے آپ کو پروموٹ کرنے پر لگے رہے۔ ان کی کوشش یہ ہوتی کہ ہر تقریب میں کسی لیگی لیڈر کے ساتھ تصویریں بنوا کر پوسٹ کر دیں۔ معذرت کے ساتھ لیکن بعض کارکنان بمع دوسرے اور تیسرے درجے کے رہنما خصوصاً خواتین سیاسی موضوعات پر بحث مباحثے چھیڑنے کے بجائے مریم نوازشریف کی تصویریں پوسٹ کرنے پر ساری توانائیاں لگاتے رہے اور جہاں مریم موجود نہیں ہوتی تھی، زرق برق لباس میں اپنے تصاویر پوسٹ کرنے کو پارٹی کی عظیم تر خدمت سمجھ رہے ہوتے اور اس طرح نا دانستہ طور پر ایک سیاسی تقریب اور عمل کو ماڈلنگ کا رنگ دے دیتے۔

بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ اس کے پیچھے سنجیدہ اور منظم تحقیق کی ٹیم اور عمل تھا ہی نہیں کہ وہ پروموشن کے ساتھ ساتھ مواد کو بطور کاؤنٹر سٹریٹیجی بھی استعمال کریں۔ انجمن ستائش باہمی کا سب سے بڑا نقص یہ بھی ہے کہ یہ ٹیم یا تو ان لوگوں کے مواد اور پوسٹس کو ری پوسٹ یا پروموٹ کرتا تھا جو یا تو اس تنظٰم یا گروپ کے باقاعدہ ممبر ہوں اور ان کے نام نہاد سوشل میڈیا کنونشنز میں حاضری دیتے ہوں یا پھر ایسے افراد ہوں جن کے بہت سارے فالورز ہوں، خصوصاً ٹوئٹر پر۔

دوسری جانب پی ٹی آئی ہے جو ہر اس پوسٹ، ٹویٹ اور مواد کو وائرل کرتے ہیں جس میں ان کی حمایت کا معمولی سا بھی عنصر موجود ہو یا ان کے حمایت میں نہ بھی ہو لیکن ان کے مخالفین کے حق میں نہ ہو۔ پھر وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ کسی بڑے اکاؤنٹ سے پوست کی گئی ہے یا پھر چھوٹے سے۔ یعنی انہیں اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ جس اکاؤنٹ سے یہ بات کی جا رہی ہے اس کے کتنے فالوورز ہیں۔

دوسرا (ن) لیگ کے برعکس پی ٹی آئی نے صرف سیاسی کارکنان پر ہی انحصار نہیں کیا بلکہ انہوں نے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ افراد کو سوشل میڈیا ہینڈل کرنے کی ذمہ داری دی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ جو وسائل اور سہولیات پی ٹی آئی کو میسر تھیں وہ (ن) لیگ کو نہیں تھیں لیکن (ن) لیگ ایک پرانی سیاسی جماعت ہے اور اگر یہ چاہتی تو وسائل بھی پیدا کر سکتی تھی لیکن اس کیلئے ارادے، نیت اور پرانی دقیانوسی سیاسی ذہنیت بدلنے کی ضرورت ہے۔ نیتجہ یہ ہے کہ آج پی ٹی آئی اس سوشل میڈیا پروپیگنڈا کے زور پر عوام کو بیوقوف بنا رہی ہے لیکن دوسری طرف اس کا توڑ کرنے کی بات تو چھوڑیں، (ن) لیگ خصوصاً اور پی ڈی ایم اپنا دفاع کرنے میں بھی ناکام نظر آتی ہیں۔

طالعمند خان فری لانس صحافی ہیں اور نیا دور کے لئے لکھتے ہیں۔