پاکستان میں صحافت سے جڑے لوگ سائبر سپیس میں بھی غیر محفوظ ہیں

پاکستان میں صحافت سے جڑے لوگ سائبر سپیس میں بھی غیر محفوظ ہیں
پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 (پیکا) کی تشکیل کا بنیادی مقصد سوشل میڈیا صارفین کی ذاتی معلومات کا تحفظ اور محفوظ سائبر سپیس فراہم کرنا تھا لیکن اس قانون سے تاحال صحافی اس طرح مستفید نہیں ہو سکے جس کی امید کی جا رہی تھی۔ بلکہ اس قانون پر عمل درآمد کی بجائے ہر حکومت عوام کو آگاہی فراہم کرنے والے صحافیوں کے خلاف کارروائیوں میں پییش پیش دکھائی دیتی ہے۔ اختلاف رائے رکھنے والے صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے باعث عالمی صحافتی تنظیم Reporters without Borders کی عالمی صحافتی آزادی کی درجہ بندی میں 180 ممالک میں سے پاکستان 157 ویں نمبر پر ہے۔ یونیسکو جرنلسٹ سیفٹی انڈیکیٹر پر مبنی رپورٹ کے مطابق صحافیوں کو فیلڈ میں کام کرنے اور خود کو محفوظ رکھنے کے حوالے سے مسلسل تربیت اور فنی مہارت کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ عالمی اداروں کی رپورٹ سے واضح ہے تو ایسی صورت حال میں ملکی و مقامی سطح پر صحافیوں کو ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے جن کو سرکاری ادارے کم وسائل کے باعث انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔

پاکستان کا آئین پریس کی آزادی اور معلومات تک رسائی کی ضمانت دیتا ہے لیکن پاکستان میں صحافت کی حقیقی آزادی مفقود ہے۔ اگرچہ میڈیا کو درپیش دباؤ کے لیے حکومتی ادارے ہی نہیں، مقامی سطح کے پریشر گروپس بھی ذمہ دار ہیں۔ ایسا ہی کچھ ہوا ضلع خانیوال، ملتان کے علاقے کبیروالہ کے رہائشی امجد ندیم کے ساتھ جو گزشتہ 14 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ مارچ 2018 سے 2020 تک نجی نیوز چینل کے ساتھ بطور آؤٹ سٹیشن رپورٹر منسلک تھے۔ امجد مقامی حالات و واقعات کی رپورٹنگ اور حقائق پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف مافیا کے نشانے پر آگئے۔ سوشل میڈیا پر نامعلوم آئی ڈیز سے ان کی کردار کشی کی جانے لگی اور انہی پوسٹس پر ان کی ذاتی معلومات بھی ظاہر کی گئیں جس کے باعث اندرون و بیرون ممالک سے انہیں اور ان کے بچوں کو قتل کرنے پر مبنی دھمکی آمیز کالز موصول ہونے لگیں۔ اس معاملے میں انہیں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور کن اذیتوں سے وہ گزرے، اس کی تفصیل راؤ امجد سے جانتے ہیں۔

محمد امجد کو 15 مئی 2020 کی دوپہر ان کے دوستوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا پوسٹس اور ٹویٹس سے پتہ چلا ہے کہ انجان آئی ڈیز سے مبینہ طور پر ان کی اور ایک مقامی و نامعلوم خاتون کی بات چیت کے سکرین شاٹس نشر کئے گئے ہیں اور ان پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ اپنے صحافتی تعلقات اور برادری کی بنیاد پر خود کو ایک بااثر شخصیت کے طور پر پیش کرتے ہوئے ایک لڑکی کو ہراساں کر رہے ہیں اور اس لڑکی سے پیسے بٹورنے اور تعلقات استوار کرنے پر اسے مجبور کر رہے ہیں۔ یہ خبر ان کے لئے کسی سانحے سے کم نہیں تھی، جس سے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا تھا جبکہ خاتون کے مذہبی حوالے سے برادری کو ظاہر کیا گیا تھا اور کبیروالا میں یہ برادری کافی اثر و رسوخ کی حامل ہے جس کے باعث ان کی جان کو خطرہ لاحق ہوگیا۔ انجان آئی ڈیز کے ذریعے جان بوجھ کر اسے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی تاکہ فوری جذباتی ردعمل آئے اور انہیں ازحد ممکن نقصان پہنچایا جا سکے۔

محمد امجد بتاتے ہیں کہ مبینہ ٹویٹس اور پوسٹس ہزاروں کی تعداد میں شیئر ہو چکی تھیں جہاں انہیں بلیک میلر اور ملحد قرار دیا جا چکا تھا اور جن پر فوری عوامی ردعمل بھی آیا لیکن انہوں نے اپنے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے اسے عقل مندی سے برداشت کیا۔
محمد امجد نے اسی حوالے سے ایک ویڈیو بنائی جس میں انہوں نے اس معاملے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے ضلعی انتظامی سربراہان سے درخواست کی کہ اس معاملے کی تحقیق کی جائے اور اداروں کو تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے ضلعی انتظامیہ نے محمد امجد کی مدعیت میں 21 مئی 2020 کو نامعلوم افراد کے خلاف ٹیلی گراف ایکٹ 1885 شق نمبر 25-D اور دفعہ 506 ت پ کے تحت ایف آئی آر نمبر 20/182 تھانہ سٹی کبیروالہ میں درج کرواتے ہوئے بطور شہری حفاظتی عملے کی درخواست کی۔



ضلعی محکمہ پولیس کے ترجمان عمران چودھری کے مطابق سوشل میڈیا سے متعلق کیسز محکمہ پولیس کے زیر اثر نہیں آتے اور محکمہ پولیس کے پاس اس سے متعلق جدید آلات، سافٹ ویئرز اور تربیت یافتہ سٹاف موجود نہیں ہے۔ یہ جان کر محمد امجد نے جنوبی پنجاب کے واحد سائبر کرائم سیل ملتان جو کہ فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے تحت کام کرتا ہے، سے رابطہ کیا اور اس معاملے کی تحقیقات کی درخواست جمع کروائی۔ محمد امجد کے مطابق انہوں نے ایف آئی اے آفس کے چار چکر لگائے لیکن تاحال تقریباً دو سال گزر جانے کے بعد بھی ان کی کردارکشی کرنے والے ملزمان کی کوئی نشاندہی نہیں ہوسکی جبکہ قانونی کارروائی تو بہت دور کی بات ہے۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ ملتان کے محرر اے ایس آئی محمد شہزاد نے اس بات کا اقرار کیا کہ ملتان میں موجود ادارے کے پاس کسی کے ذریعے چلائے جانے والے سوشل میڈیا اکاؤئنٹس کی ٹریکنگ کے لئے کوئی ڈیوائسز یا طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ جبکہ کیس کی موجودہ حیثیت جاننے کے لئے مذکورہ عہدیدار کو بارہا ٹیلی فون کال کی گئی اور بذریعہ ایس ایم ایس بھی معلومات کی درخواست کی گئی لیکن ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔

مذکورہ سرکاری اداروں ضلعی محکمہ پولیس اور فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی کو رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت بذریعہ ای میل محمد امجد ندیم کی درخواست اور ایف آئی آر کا حوالہ دیتے ہوئے 21 اگست 2022 کو معلومات فراہم کرنے کی درخواست کی گئی جس کا جواب موصول نہ ہونے پر 17 دن بعد 6 ستمبر 2022 کو دوبارہ سے یاد دہانی کرواتے ہوئے معلومات فراہم کرنے کی درخواست کی گئی جس پر 15 دن مزید گزرنے کے باوجود دونوں اداروں سے جواب موصول نہیں ہوا۔

محمد امجد بتاتے ہیں کہ وہ اس واقعے کے بعد چار ماہ تک انصاف کی تلاش میں مسلسل ہر محکمے کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہے کہ اسی دوران نجی نیوز چینل نے انہیں کبیروالہ کی آؤٹ سٹیشن رپورٹر (او ایس آر) کے عہدے سے ہٹاتے ہوئے واٹس ایپ پر او ایس آرز کے مخصوص گروپ سے بھی نکال دیا۔

اس حوالے سے اسی نجی نیوز چینل بیورو چیف ملتان سے بات کرنے پر انہیں آگاہ کیا گیا کہ سوشل میڈیا کے الزامات ڈائریکٹر نیوز کے علم میں آنے کے بعد انہی کے حکم پر امجد ندیم کو ادارے سے نکالا گیا ہے۔ محمد امجد اس حوالے سے انتطامیہ کو صفائی پیش کرتے رہے اور بالآخر ڈیڑھ سال بعد انہوں نے نجی نیوز چینل کے کراچی آفس جا کر ڈائریکٹر نیوز سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ اسی حوالے سے جب عامر اقبال بھٹہ کا مؤقف جاننے کے لئے کال کی گئی تو انہوں نے اس واقعے کے حوالے سے بات کرنے سے معذرت کرلی۔

محمد امجد کے لئے یہ سفر اور کوشش کارگر ثابت نہیں ہوئی جب وہ چار دن نجی نیوز چینل کے ڈائریکٹر نیوز سے ملنے کی خاطر روزانہ دفتر جاتے تھے اور شام گئے ناکام لوٹتے تھے۔ تاحال محمد امجد اس حوالے سے پرامید ہیں کہ ادارہ ان کی او ایس آر شپ بحال کریگا کیونکہ ان کے لئے یہ مسئلہ معاشی کے ساتھ ساتھ سماجی تشخص کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ محمد امجد دو سال سے زائد عرصہ تک نجی نیوز چینل سے منسلک رہے تھے لیکن انہیں کسی قسم کا تحریری کنٹریکٹ مہیا نہیں کیا گیا تھا اس لئے وہ ادارے کے خلاف کوئی مقدمہ بھی نہیں کر سکتے۔

اسی حوالے سے جب مصنف نے نجی نیوز چینل کے کراچی آفس سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ اس واقعے کے بعد تاحال دو نیوز ڈائریکٹرز بدل چکے ہیں جبکہ موجودہ نیوز ڈائریکٹر اس واقعے سے لاعلم ہیں۔ موجودہ اسائنمنٹ ایڈیٹر کے مطابق ان سمیت موجودہ عملے میں کسی بھی شخص کو اس واقعے کا علم نہیں ہے۔

محمد امجد بتاتے ہیں کہ اگر انہیں اس حوالے سے ادارے کی جانب سے مثبت جواب نہیں ملا تو وہ یوٹیوب پر اپنا چینل بنائیں گے اور صحافت جاری رکھیں گے تاکہ اداروں کی جانب سے کیے جانے والے مالی و سماجی استحصال کا شکار نہ ہوں اور وہ آزادانہ طور پر کام جاری رکھیں۔

ایف آئی اے کی کارکردگی کے حوالے سے انٹرنیٹ پر موجود معلومات کے مطابق 2021 میں ایک لاکھ 10 ہزار 938 شکایات درج ہوئیں جن میں سے 17 ہزار 102 شکایات پر انکوائری کرتے ہوئے 1332 کیسز کا اندراج کیا گیا۔ ان میں سے 591 کیسز میں چالان کرتے ہوئے 1411 گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں جو کہ مالی جرائم، ہراساں کرنا، ہتک عزت، خواتین کو ہراساں کرنا، چائلڈ پورنوگرافی اور ہائی پروفائل کیسز پر مبنی تھیں۔ جبکہ مجموعی طور پر 2021 میں ایک لاکھ 986 سے زائد شکایات کو حل کیا گیا۔ جبکہ سال 2020 میں 94 ہزار 227 شکایات درج ہوئیں اس کے علاوہ 2019 کی بقیہ 17 ہزار 754 شکایات بھی شامل کرتے ہوئے 2020 میں مجموعی طور پر ایک لاکھ 12 ہزار 181 سے زائد شکایات کو حل کیا گیا۔

اسی طرح 2021 میں ایف آئی اے کو موصول ہونے والی شکایات کی تعداد 95 ہزار 567 تھی۔ ان میں سے تقریباً 20 فیصد سوشل میڈیا/انٹرنیٹ پر آن لائن بلیک میلنگ اور ہراساں کرنے سے متعلق تھیں۔ جبکہ آن لائن ہتک عزت کے حوالے سے 205 ایف آئی آر درج ہوئیں اور 178 گرفتاریاں عمل میں آئیں۔

ہائی کورٹ کے وکیل رانا طارق محمود کے مطابق محمد امجد کے ساتھ پیش آنے والے اس واقعے میں ملوث ملزمان سائبر کرائم کی کیٹگری سائبر ٹیرر کے 10-A (نفرت انگیزی) اور 14-A (کسی دوسرے کی شناخت کا غلط استعمال کرنا) کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جبکہ اداروں کی کارکردگی کو سامنے رکھا جائے تو یہ ایک بات واضح ہے کہ سائبر کرائم کی شکایات روزانہ کی بنیادوں پر بڑھ رہی ہیں، جس کے تدارک کے لئے مقامی پولیس اسٹیشنوں میں سائبر کرائم ونگ ہونا چاہئے جو بروقت اور بنیادی تفتیش کرنے لئے جدید ڈیوائسز اور سافٹ ویئر سے لیس ہو اور حتمی تفتیش کے بعد ضروری قانونی کارروائی کے لئے کیس ایف آئی اے کو ٹرانسفر کردے۔

ڈسٹرکٹ رپورٹر خانیوال 92 نیوز رمان چودھری صحافت میں درپیش مشکلات کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بطور صحافی ان پر خبر کو نہ چھاپنے، حقائق کو چھپانے کی درخواست ان کے ہی قریبی لوگوں کی سفارش کے ذریعے کی جاتی ہے اور جب ان کی خبریں سوشل میڈیا پر شیئر کی جاتی ہیں تو لوگوں کے عمومی کمنٹس میں صحافیوں کو بلیک میلر کہہ دیا جاتا ہے جو یقیناً تکلیف دہ ہوتا ہے لیکن تاحال وہ اس نوعیت کی سنجیدہ کردارکشی سے محفوظ رہے ہیں۔

ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ تعلقات عامہ پنجاب ضلع خانیوال سلمان خالد کا کہنا ہے کہ ان کا محکمہ اس حوالے سے صحافیوں کو کوئی مدد تو فراہم نہیں کرتا لیکن یہ متعلقہ چینل یا اخبار کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے نمائندے کو کسی مشکل میں اکیلا نہ چھوڑے اور اسے میرٹ کی بنیاد پر باقاعدہ سپورٹ فراہم کرے۔

پریس کلب کبیروالہ کے نائب صدر سجاد اکبر شاہ بتاتے ہیں کہ امجد ندیم کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر پریس کلب نے فوری طور پر علاقے کے معززین کو اعتماد میں لیا اور اس واقعے کے ممکنہ محرکات سے بھی آگاہ کیا کہ کس نوعیت کے لوگ اس کردارکشی کے پیچھے ہیں تاکہ شہر میں ایسی کوئی بھی اشتعال انگیزی نہ پھیلے اور معاملے کو احسن طریقے سے سلجھایا جاسکے۔

صحافتی تنظیم خانیوال یونین آف جرنلسٹس کے سابق تحصیل صدر ساجد خان کے مطابق معاشرے میں موجود مافیاؤں کا حالیہ دنوں میں یہ بہت کارگر طریقہ کار ہے کہ صحافی کی کردارکشی کرتے ہوئے اس کو چپ کروایا جائے۔ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں مقامی صحافی سے کام لینے والے ادارے بھی اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ جبکہ امجد ندیم کے کیس میں صحافتی تنظیم نے ضلعی انتظامیہ کو یہ امر باور کروایا تھا کہ اس نوعیت کے کیسز میں صحافیوں کو بروقت تحفظ فراہم کرنا ان کی ذمہ داری ہے جس باعث اس کیس میں کسی بھی ممکنہ نقصان سے بچاؤ کو یقینی بنایا گیا۔

اس نوعیت کے واقعات کا اگر بروقت اور حقیقی معنوں میں سدباب نہیں کیا گیا تو معاشرے سے ایک ایسے طبقے کا اثر کم ہو جائے گا جو معاشرے کی بہتری اور اصلاح کے لئے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

فیصل سلیم میڈیا سٹڈیز میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور مختلف نیوز ویب سائٹس کے لیے لکھتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ موضوعات میں سماجی مسائل اور دلچسپ حقائق شامل ہیں۔