امریکہ کی 'سپر پاور حیثیت' شدید خطرات میں گھر چکی ہے

امریکہ کی 'سپر پاور حیثیت' شدید خطرات میں گھر چکی ہے
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد مغربی دنیا میں سے امریکہ نے عالمی طاقت بن کر دنیا کی سربراہی کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس عالمی جنگ میں دو ممالک ایسے تھے جو جنگ کی تباہی سے نسبتاً محفوظ رہے؛ ایک ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور دوسرا سویت روس۔ جرمنی کے دارالحکومت برلن پر روس کے قبضے کے بعد مغربی دنیا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کیونکہ سارے کا سارا مشرقی یورپ پہلے ہی روس کے قبضے میں جا چکا تھا اور اب برلن پر قبضے کے بعد روس مغربی یورپ کا بھی کچھ حصہ لینے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ مغربی دنیا میں اس بات کے شدید خطرات موجود تھے کہ روس اب مغربی دنیا پر مزید اپنا تسلط جمانے کی کوشش کرے گا جیسا کہ برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل نے اپنی تقریر میں مغربی دنیا کو روسی خطرے سے آگاہ کیا اور روس کو 'آئرن کرٹن' سے تشبیح دی۔ مغربی دنیا کو روس سے زیادہ روس کے شراکت داری کے نظام یعنی کمیونزم سے مسئلہ تھا جو آہستہ آہستہ پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا اور اس سے مغربی سرمایہ داری کا نظام خطرے میں تھا۔ مگر یورپ کے پاس روس کے خلاف لڑنے کے لیے مناسب طاقت نہیں تھی۔ لہٰذا ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے روس کی پیش قدمی روکنے اور کمیونزم کے خلاف جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا جہاں سے دنیا میں سرد جنگ کا آغاز ہوا۔

امریکہ نے روس کے خلاف طویل جنگ لڑی جو بلآخر 1989 میں روس کی شکست پر ختم ہوئی۔ تب سے امریکہ دنیا میں اکلوتی عالمی طاقت بن گیا اور سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیا میں رائج ہو گیا۔ تب سے امریکہ نے دنیا میں اپنی سیاسی اور فوجی بالادستی کے ذریعے سے اپنے 'نیو ورلڈ آرڈر' کو اقوام عالم پر لاگو کیا کیوں کہ امریکہ کے مقابلے میں کوئی ایسی طاقت نہیں تھی جو امریکی طاقت کو چیلنج کر سکے۔ امریکہ کی فوجی و سیاسی طاقت کے علاوہ ایک اور طاقت جس نے امریکہ کو دنیا میں سیاہ و سفید کا مالک بنائے رکھا، وہ امریکہ کی اندرونی طاقت تھی۔ بین الاقوامی سیاست کے مطابق ریاست کے اندرونی حالات اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ریاست کس طرح سے اپنی خارجہ پالیسی کو مؤثژ انداز میں لاگو کر سکتی ہے۔ امریکہ کے اندر جمہوریت اور جمہوری ادارے مضبوط رہے جس کی وجہ سے امریکہ گلوبل ورلڈ میں اپنے ایجنڈے کو لاگو کرنے میں مصروف رہا۔ مگر موجودہ حالات میں یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ کے پاس اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر پہلے جیسی آزادی نہیں رہی۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں۔

امریکہ کے اندرنی حالات خلفشار کا شکار ہو چکے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے 2016 میں صدر بننے کے بعد جمہوری اداروں کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے امریکہ نظریاتی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس تقسیم کا اوج کمال تب دیکھا گیا جب 6 جنوری 2021 کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے انتخابات کے نتائج کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے دارالحکومت واشنگٹن پر حملہ کر دیا تھا۔ یہ واقعہ امریکی جمہوریت کے لیے کسی سانحے سے کم نہ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں دائیں بازو کی شدت پسند تنظیمیں سر اٹھا رہی ہیں۔ دوسری جانب عالمی سطح پر عوامی جمہوریہ چین جیسی نئی عالمی طاقت امریکہ کے عالمی مفادات کو چیلنج کر رہی ہے جس سے امریکہ کا 'لبرل ورلڈ آرڈر' بھی خطرے کی لپیٹ میں ہے۔ روس کے یوکرائن پر حملے کے بعد نیٹو کے یورپی اتحادی بھی امریکہ سے مدد کے طلب گار ہیں۔ روس کی مغربی یورپ کی طرف پیش قدمی کو روکنا امریکہ کے لیے ناگزیر ہے۔ ان خطرات سے زیادہ خطرہ دنیا میں تیزی سے آنے والی موسمیاتی تبدیلیاں ہیں جو دنیا کے لیے تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ امریکہ کی بطور واحد 'سپرپاور' کے یہ ذمہ داری ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے دنیا کو بچانے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ مگر یہ بات بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے امریکہ کو اقتصادی طور پر کمزور کر دیا ہے جس کی وجہ سے ان خطرات سے نمٹنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ 1860 کی دہائی کی خانہ جنگی کے بعد مزید مضبوط اور طاقتور بن کر ابھری۔ امریکہ کی معاشی ترقی دنیا کے لیے ایک مثال تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ میں جمہوری اداروں نے بے پناہ ترقی کی جس سے نظام حکومت مربوط اور منظم طریقے سے چلتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد جب پوری دنیا شدید اقتصادی بحران کا شکار تھی تو اس وقت امریکہ یورپ کی اقتصادی مدد کے لیے تیار تھا۔ امریکہ نے مغربی یورپ کے ملکوں کو جنگ کی تباہی سے بحالی کے لیے 13 بلین ڈالر دیے جو آج کے دور کے حساب سے 115 بلین ڈالر بنتے ہیں۔ امریکہ نے اقتصادی، سیاسی اور سکیورٹی معاملات میں دنیا کی سربراہی کرنے کا فیصلہ کیا اور ساتھ میں سوویت یونین اور کمیونزم کی یلغار کو روکنے کا بھی فیصلہ کیا۔ امریکہ اپنے ان ارادوں میں پوری طرح کامیاب رہا۔ اس نے اپنے بین الاقوامی مقاصد حاصل کر لیے اور روس کا شیرازہ بکھرنے کے بعد دنیا کی اکلوتی سپر پاور بن کر اقوام عالم میں اپنی سربراہی کا جھنڈا گاڑ دیا۔

ممتاز برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل کے مطابق "دنیا میں پہلے یہودیت تھی، پھر عیسائیت آئی، پھر اسلام آیا اور پھر امریکہ آ گیا۔" مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ کو کس طاقت نے یہ حوصلہ دیا کہ وہ ہزاروں میل دور بیٹھ کر ایک وقت میں کئی محاذوں پر جنگ لڑ رہا تھا۔ تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ وہ طاقت امریکہ کے اندرونی حالات کی مضبوطی تھی۔ امریکی قوم متحد ہو کر اپنی حکومت کے پیچھے کھڑی تھی مگر موجودہ دور میں ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ امریکہ پھر سے عالمی مسائل میں گھر چکا ہے جن سے نمٹنے کے لیے اسے اندرونی طور پر امن اور اتحاد کی ضرورت ہے مگرڈونلڈ ٹرمپ کے 2016 میں صدر بننے کے بعد سے امریکہ نظریاتی اور سیاسی بنیادوں پر تقسیم ہوتا نظر آرہا ہے۔ ٹرمپ اور اس کے حامیوں کے مؤقف کو امریکہ کے مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں کیے گیے مس ایڈونچرز نے اور بھی تقویت دی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے جس سے امریکی عوام کیلئے بھی اقتصادی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔

امریکہ کی براؤن یونیورسٹی کی ریسرچ رپورٹ کے مطابق امریکہ نے پچھلے 20 سالوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 8 ٹریلین ڈالر خرچ کیے ہیں اور اس جنگ میں تقریباً 9 لاکھ امریکی و غیر امریکی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ٹرمپ نے ان اعدادوشمار کو اپنے حق میں استعمال کیا ہے جس کی انتہا اس وقت نظر آئی جب 6 جنوری 2021 کو ٹرمپ کے حامیوں نے دارالحکومت واشنگٹن پر حملہ کر دیا اور کانگریس کے ارکان کو یرغمال بنا لیا۔ اس شدت پسند ہجوم کے مطابق وہ انقلاب کے لیے واشنگٹن پر حملہ کرنے آئے تھے۔ مضبوط ترین جمہوریت اور مؤثر جمہوری اداروں والے امریکہ میں اب عوام شدت پسندی اور غیر جمہوری طریقوں سے تبدیلی کی کوشش کر رہے ہیں جس نے امریکی اداروں کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ابراہم لنکن اور تھامس جیفرسن کے ملک میں ٹرمپ جیسے صدر کا آجانا کسی بڑے سانحے سے کم نہیں تھا۔ امریکہ کے لیے بڑھتا ہوا اندرونی خطرہ اس کے بیرونی اور بین الاقوامی خطرات میں اضافہ کرے گا اور امریکہ کی عالمی بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے نئی ابھرتی ہوئی طاقتوں سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت کو گھٹا دے گا۔

سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت روس کے ٹوٹنے کے بعد سے امریکہ دنیا میں واحد عالمی طاقت رہی ہے جس کا کوئی گلوبل حریف نہیں تھا جو بحرالکاہل سے لے کر خلیج فارس تک اس کی طاقت کو چیلنج کر سکے مگر موجودہ دور میں نئی عالمی طاقتیں سر اٹھا رہی ہیں جو کہ امریکہ کے سٹیٹس کو کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی طاقت عوامی جمہوریہ چین ہے جس نے 70 کی دہائی سے اب تک بے پناہ اقتصادی ترقی کی ہے اور خود کو امریکہ کے مقابلے کی عالمی طاقت کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھارا ہے۔ یہ پیشن گوئی کرنا قبل از قت ہو گا کہ چین امریکہ کو اقتصادی اور فوجی میدان میں زیر کر کے سپر پاور سٹیٹس حاصل کر لے گا کیوں کہ چین ابھی تک اقتصادی اور فوجی اعتبار سے امریکہ سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ چین پر امریکہ کی سب سے بڑی برتری امریکہ کا جغرافیائی محل وقوع ہے کیونکہ امریکہ کے مشرق اور مغرب دونوں میں پانی ہے جبکہ شمال میں دوست ملک کینیڈا ہے اور جنوب میں نسبتاً کمزور ملک میکسیکو ہے جبکہ چین چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے جس کو نقصان پہنچانا امریکہ کی نسبت انتہائی آسان ہے۔ مگر چین اس قابل ضرور ہے کہ امریکہ کے لیے شدید اقتصادی اور سیاسی خطرات پیدا کر سکتا ہے۔

2008 کے اقتصادی بحران میں چین واحد بڑی طاقت تھی جو بحران سے کم متاثر ہوئی جس سے امریکہ کے چین کے بارے میں خدشات میں اضافہ ہوا کہ چین امریکہ کے لبرل ورلڈ آرڈر کے مقابلے میں اپنا کوئی خفیہ اقتصادی نظام لارہا ہے جو امریکی اقتصادی مفادات اور عالمی مارکیٹ میں ڈالر کی اجارہ داری کو درہم برہم کر دے گا۔ چین نے اپنی سستی لیبر اور سستی پروڈکٹس کی بدولت ایشیا اور افریقہ کی منڈیوں میں امریکی تجارت کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ چین اپنی اقتصادی طاقت کو 'سافٹ ہتھیار' کے طور پر استعمال کر کے اپنے سیاسی مقاصد پورے کر رہا ہے جس سے امریکہ کو خطرہ ہے کہ اس کے کافی سارے اتحادی اس کے ساتھ نہیں رہیں گے۔ اس کے علاوہ امریکہ کو چین سے بڑا خطرہ جنوب مشرقی ایشا میں چین کے بڑھتے ہوئے سیاسی و جغرافیائی عزائم سے ہے جو امریکہ کے اتحادیوں کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ اس میں مشرقی چین کا سمندر، جنوبی چین کا سمندر اور تائیوان کے تنازعات امریکہ کے لیے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ جنوبی ایشیا اور سنٹرل اشیا میں 'ون بیلٹ ون روڈ' جیسے منصوبے بھی اس خطے میں امریکی مفادات کے لیے خطرہ ہیں۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے امریکہ کے لیے روس کا خطرہ کافی حد تک ٹل گیا تھا۔ یورپی یونین کی اقتصادی خود انحصاری اور نیٹو کی فوجی برتری کی وجہ سے یورپ روس کی فوجی اور سیاسی یلغار سے محفوظ رہا مگر جب سے امریکہ کی دنیا کے معاملات پر گرفت ڈھیل پڑی ہے اور یورپ میں اقتصادی و سیاسی ابتری آنا شروع ہوئی ہے تب سے روس نے بھی امریکہ کے لیے مسائل پیدا کرنے شروع کر دیے ہیں۔ کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سے یورپ کی سکیورٹی کی ذمہ داری بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پرامریکہ کے پاس رہی ہے اور نیٹو کی افادیت بھی امریکہ کی مدد اور شمولیت کے بغیر ممکن نہیں ہے لہٰذا یورپ کے لیے روس کے پیدا کردہ مسائل امریکہ کے لیے درد سر بن رہے ہیں۔

روس نے 2014 میں کریمیا کو فوجی طاقت کے ذریعے سے اپنے ساتھ ملا لیا تھا جو کہ مشرقی اور مغربی یورپ کے لیے ایک الٹی میٹم تھا کہ روس نے اپنے بظاہر فراموش کیے ہوئے ایجنڈے پر دوبارہ سے کام شروع کر دیا ہے جس کے براہ راست اثرات مغربی یورپ کی سکیورٹی پر پڑیں گے۔ کریمیا پر روسی قبضے کو امریکہ اور نیٹو کی طرف سے کسی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا کیونکہ امریکہ میں صدر اوباما کی حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ کو لپیٹنے میں مصروف تھی اور مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں مصروف ہونے کی وجہ سے کریمیا کے تنازعہ میں غیر جانبدار رہی۔
مزید یہ کہ امریکہ اپنی کم ہوتی ہوئی طاقت کی وجہ سے روس کے ساتھ طویل المدت تنازعہ شروع کرنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا مگر یوں دکھائی دیتا ہے کہ روس کو کریمیا کے معاملے پر دی جانے والی رعایت 1930 کے دور میں یورپی ممالک کی ہٹلر کی فوجی جارحیت کو نظر انداز کرنے جیسی لگ رہی ہے کیونکہ روس نے کریمیا کے بعد اب یوکرائن پر بھی حملہ کر دیا ہے جس سے یورپی ممالک میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے اور وہ امریکی مدد کے منتظر ہیں مگر امریکہ صرف سیاسی طور پر روس کی جارحیت کی حوصلہ شکنی کرنے کے سوا کچھ نہیں کر پا رہا مگر روس کے بڑھتے ہوئے فوجی اور جغرافیائی عزائم امریکہ کے لیے مزید خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔

ایک اور خطرہ جو بالخصوص امریکہ اور بالعموم پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، وہ تیزی سے پیدا ہوتی ہوئی موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔ بالخصوص امریکہ کے لیے اس وجہ سے کہ امریکہ نے عرصہ دراز سے گلوبل ورلڈ کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہیں اور یہ امریکہ ہی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی بقا کے لیے ہنگامی بنیادوں پر موسمیاتی تبدیلوں سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرے۔ سائنس دان مسلسل اس بڑھتے ہوئے خطرے سے آگاہ کر رہے ہیں مگر بدقسمتی سے امریکہ کا اس معاملے پر رویہ کافی سنگ دل اور غیر منطقی ثابت ہو رہا ہے۔ سابق صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ نے جون 2017 میں "پیرس ایگری مینٹ" سے نکلنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ سمجھوتہ 2015 میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اقوام عالم میں طے پایا تھا کہ دنیا کا درجہ حرارت کم کرنے کے لیے کاربن کے استعمال کو کم کیا جائے گا مگر امریکہ کے معاہدے میں سے نکلنے کی صورت میں اس پر عمل درآمد بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ چین جیسے بڑے ملک جو مسلسل اس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، ان سے معاہدے کی پاس داری کروانے کے لیے امریکہ جیسی عالمی طاقت کی ضرورت ہے مگر کیا امریکہ اپنے بڑھتے ہوئے اندرونی اور بیرونی مسائل اور بتدریج کمزور پڑتی اقتصادی طاقت کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں جیسے گھمبیر مسائل کے حوالے سے کچھ کر پائے گا؟

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔