جنرل باجوہ کا بیٹا ان سے کیوں ناراض ہے؟

جنرل باجوہ کا بیٹا ان سے کیوں ناراض ہے؟
معروف تحقیقاتی صحافی اعزاز سید اور عمر چیمہ نے یوٹیوب پر اپنے پروگرام ٹاک شاک میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ اب سے قریب ڈیڑھ سال پہلے ہی ہو گیا تھا۔

جنرل باجوہ دوسری بار توسیع لے لیں گے؟

عمر چیمہ کا کہنا ہے کہ باجوہ صاحب سے ملنے والے لوگ بتاتے ہیں کہ اس وقت ان کی کیفیت ایسی ہے کہ جیسے کوئی بندہ سفر کے لئے سامان تیار کر کے بیٹھا ہوتا ہے۔ ان کی ساری گفتگو ہی اس طرح کی ہوتی ہے کہ وہ اب جا رہے ہیں۔ جنرل باجوہ کا کہنا ہے کہ میرا بڑا بیٹا بیرسٹر سعد اس بات پر مجھ سے ناراض ہے کہ میں نے توسیع کیوں لی، وہ مجھے آج تک طعنہ دیتا ہے۔ حالانکہ میں توسیع لینے کے حق میں نہیں تھا اور نہ ہی میں نے کسی کو کہا تھا۔ مجھے توسیع دینے کے ایک دن بعد عمران خان نے بتایا کہ آپ کو توسیع دے دی گئی ہے۔ عمر چیمہ کے مطابق ہو سکتا ہے کہ ان کی خواہش ہو مگر انہوں نے کبھی اس کا اظہار نہیں کیا تھا۔ باجوہ صاحب توسیع نہ لینے کے حق میں دوسری دلیل یہ دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے توسیع مانگی ہوتی تو اس کے لئے باقاعدہ فائل ورک کروا لیا گیا ہوتا مگر جس طرح بات سپریم کورٹ تک پہنچی اس سے فوج کو بھی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔

اعزاز سید کے مطابق باجوہ صاحب کو توسیع دلانے میں جنرل فیض حمید کا بہت بڑا کردار تھا۔ وہ اس دوران مسلسل عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے ساتھ ملتے رہے۔ سیکرٹری قانون کی موجودگی میں جنرل فیض حمید اعظم خان کے پاس آتے رہے اور انہوں نے یہ نوٹی فکیشن جاری کروایا۔ عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ اس وقت کے آئی ایس آئی چیف آرمی چیف کو اس لئے توسیع دلوانا چاہتے تھے تاکہ تین سال بعد جب جنرل باجوہ ریٹائر ہوں تو وہ خود سنیارٹی لسٹ میں اوپر آ جائیں۔

کیا فوج واقعی نیوٹرل ہو چکی ہے؟

عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ فروری مارچ 2021 میں فارمیشن کمانڈرز کی میٹنگ میں فوج نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اب سیاست میں دخل اندازی نہیں کریں گے۔ یہ سینیٹ کے الیکشن سے پہلے کی بات ہے۔ اس وقت نواز شریف کے بیانیے کی وجہ سے فوج میں اس بات کا احساس پیدا ہو رہا تھا کہ عوام الناس اب فوج کو پاکستانی فوج کے بجائے پی ٹی آئی کی فوج سمجھ رہے ہیں۔ یہ تاثر بھی مضبوط ہو رہا تھا کہ فوج عمران خان کو لے کر آئی ہے اور عمران خان کے مخالفوں پر مقدمے چلوا رہی ہے۔ فوج نے اس تاثر کو ختم کرنے کے لئے یہ حل نکالا کہ ہم سیاست سے الگ ہو جائیں۔

دوسری بات جس نے فوج کو پریشان کر رکھا تھا وہ یہ تھی کہ مسنگ پرسنز اور بندے اٹھانے کی صورت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی امریکی فوج بھی کرتی ہے اور بھارتی فوج بھی کرتی ہے مگر بدنام زیادہ ہم ہی ہیں اور اس کی وجہ انہیں یہی لگی کہ ہم سیاست میں دخل اندازی کرتے ہیں اس لئے ہر کوئی آرام سے ہمارے اوپر انگلی اٹھا لیتا ہے۔



اس کے لئے فارمیشن کمانڈرز میٹنگ ہی میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ہم بندہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ چنانچہ جنرل فیض حمید کو تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا۔ جنرل فیض حمید بھی یہی چاہتے تھے کہ وہ کسی کور کی سربراہی کریں تاکہ آرمی چیف کی دوڑ میں شامل ہو سکیں۔ فوج نے اگرچہ فروری، مارچ 2021 میں یہ فیصلہ کر لیا تھا مگر جب آپ اتنی دیر سے ملوث ہوں تو نکلنے میں بھی وقت لگتا ہے، آپ ایک دم سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ چنانچہ عمران خان جنرل فیض حمید کو ہٹانے والے معاملے کو لٹکاتے رہے اور ہوتے ہوتے بات ستمبر اکتوبر تک چلی گئی۔

اس کے بعد سے فوج کی سیاست میں دخل اندازی کم ہوتی چلی گئی۔ اس سے پہلے باقاعدہ جس طرح لوگوں کو ہراساں کیا جا رہا تھا وہ سلسلہ رک گیا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ پی ٹی آئی یہ کہہ کے اٹھا رہی ہے کہ ہم نے ڈرا ڈرا کے فوج کو پیچھے کر دیا ہے۔ کبھی پی ٹی آئی یہ طعنہ دیتی ہے کہ فوج نیوٹرل ہو گئی ہے اور دوسری طرف یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہے کہ فوج مخلوط حکومت کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ دوسری طرف مخلوط حکومت کو لگتا ہے کہ فوج ابھی بھی عمران خان کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہے۔

'باجوہ صاحب نے کہا میرے دور میں متنازعہ کام ہوئے ہیں، ضروری ہے صفائی بھی خود شروع کروں'

عمر چیمہ نے اس موقع پر ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ فوج ہمیشہ کے لئے سیاست سے الگ ہو گئی ہے کیونکہ طاقتور کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ امکان مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ دوبارہ آ سکتی ہے۔ باجوہ صاحب سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے اپنے دور میں کیوں پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے دور میں بہت متنازعہ کام ہوئے ہیں تو ضروری ہے کہ صفائی کا عمل بھی میں خود شروع کروں۔ نیا آرمی چیف میرا بوجھ نہ اٹھائے۔ اگر نیا آرمی چیف جنرل باجوہ کی مرضی کا آتا ہے تو یہی پالیسی جاری رہنے کا امکان ہے۔

اعزاز سید کا کہنا تھا کہ فوج کی عزت اسی میں ہے کہ وہ سیاست سے الگ رہے۔ سیاست دانوں کو بھی اپنا کام خود کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ دونوں صحافیوں کا اتفاق تھا کہ سیاستدانوں کو سیکھنا ہوگا کہ وہ اپنی کارکردگی کس طرح بہتر کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہی فوج کا سیاست میں کردار کم ہو سکے گا۔