کیا جنوبی پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں کی بحالی کا بہترین حل انتخابات ہیں؟

کیا جنوبی پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں کی بحالی کا بہترین حل انتخابات ہیں؟
میری عمر 10 سال تھی جب سیلاب نے ہمارے علاقے میں تباہی مچائی اور میں نے یہ تباہی اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ سب کچھ پانی میں بہہ گیا تھا۔ آج 42 سال کی عمر میں میرے بچے بھی وہی مناظر دیکھ رہے ہیں جو میں نے 32 سال پہلے دیکھے تھے۔ یہ کہنا ہے راجن پور کی تحصیل روجھان سے تعلق رکھنے والے دین محمد کا۔ اس کا کہنا تھا کہ سیلاب سے شہری علاقے تو بچ جاتے ہیں مگر دیہی علاقوں میں سیلاب سے فصلیں، گھر، جانور اور کاروبار سمیت سب کچھ برباد ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں حکومتی مشینری اور فلاحی تنظیمیں تمام سسٹم کو بحال کرنے میں خاصا وقت لگاتی ہیں۔ ہاں اگر مقامی حکمران بحالی کے کاموں پر توجہ دیں تو یہ مسائل تھوڑے وقت میں حل ہو سکتے ہیں۔

کیا انتخابات ہی اس مسئلے کا حل ہے؟ اس بارے میں سینیئر صحافی ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کا اعلان اگر ہو جائے تو ملک بھر میں سیلاب زدہ علاقوں کی بحالی کے لیے نہ تو حکومتی اقدامات کی ضرورت رہے گی اور نہ ہی بیرونی امداد کی بلکہ امیدوار اپنے اپنے حلقوں میں ووٹ لینے کی خاطر عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے ضرور پہنچ جائیں گے۔ اسمبلیوں میں ایک بار پھر سے منتخب ہونے کے لیے تمام سیاستدان اپنے اپنے حلقوں کا رخ کریں گے۔ ووٹوں کے حصول کے لیے لوگوں کے مسائل کو جلد از جلد حل کرنے کے لیے اپنے ذاتی وسائل کا استعمال کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ حالیہ مون سون میں کوہ سلیمان کی پہاڑیوں کے دامن سے آنے والے بارشوں کے پانی نے جنوبی پنجاب کے دو بڑے اضلاع ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کو قحط زدہ اور بے سروسامان کر دیا ہے۔ ملک کی 60 فیصد گندم جنوبی پنجاب کا علاقہ اور صوبہ سندھ پیدا کرتا ہے۔ سیلابی پانی سے کپاس اور گندم کی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں میں غذائی قحط پڑنے کے امکانات بہت بڑھ گئے ہیں۔ ان دونوں اضلاع کے عوام دہائیوں سے سیلابی ریلوں کی تباہی دیکھتے آئے ہیں۔

مگر سوال سیلاب کی تباہی کا نہیں بلکہ اصل حیرانی یہ ہے کہ حکومت جدید دور میں بھی کوئی ایسا انفراسٹرکچر نہیں لا سکی جس سے دونوں اضلاع کے عوام کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے تقریباً 70 فیصد لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ حکومتی اور بیرونی امداد کے باوجود متاثرہ علاقوں کی بحالی کا عمل سست روی کا شکار ہے۔

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر راجن پور جنرل صفعت اللہ جہنوں نے سیلاب سے کچھ عرصہ قبل ہی اپنے عہدے کا چارج لیا تھا، کے مطابق پانی پہاڑوں سے گزرتا ہوا جب میدانی علاقوں کا رخ کرتا ہے تو ایک ریلے کی صورت میں آتا ہے۔ پانی کے ریلے کو ایک چینل (راستے) کے ذریعے دریائے سندھ میں جانا چاہئیے مگر ان راستوں میں حائل رکاوٹوں کی وجہ سے پانی کا پھیلاؤ بڑھ جاتا ہے جس کو قابو کرنا آسان نہیں ہوتا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ 1947 سے لے کر اب تک کا سب سے بڑا سیلابی ریلہ تھا جس نے راجن پور اور ڈیرہ غازی خان اضلاع کے 80 فیصد علاقوں کو متاثر کیا۔ راجن پور میں 6 ردکوہیاں ہیں )ردکوہیوں سے مراد وہ قدرتی راستے ہیں جن سے سیلابی پانی ایک ہی رفتار میں دریائے سندھ میں جا گرتا ہے) مگر حالیہ سیلاب میں مون سون کی شدید بارشوں کی وجہ سے ایک نئی ردکوہی بھی ظاہر ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں یہاں کے سیاسی نمائندوں سے بھی میٹنگز جاری ہیں اور آئندہ کے لائحہ عمل پر بھی بات چیت چل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ یہاں ردکوہیوں کے اوپر ناجائز تجاوزات ہیں۔ پانی کے راستے میں کوئی بھی رکاوٹ آتی ہے تو ظاہر ہے کہ پانی نیا راستہ بنا لیتا ہے۔ یہ ایک اہم پہلو ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

قومی اسمبلی میں 15 جبکہ صوبائی اسمبلی میں 30 اراکین ڈیرہ غازی خان ڈویژن کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اگر سیاسی نمائندوں کو اپنی کارکردگی کا صحیح اندازہ لگانا ہے تو آئین میں ہر 3 سال بعد الیکشن کروانے کا قانون پاس کرنا چاہئیے تا کہ سیاسی وڈیروں، سیاسی جاگیرداروں اور سیاسی کاروباریوں کو اپنے اپنے حلقوں کے عوام کی مشکلات کا صحیح اندازہ ہو سکے، جن کے ووٹوں سے اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھتے ہیں۔ حالیہ سیلاب سے جنوبی پنجاب میں سب سے زیادہ ضلع ڈیرہ غازی خان اور اس کی تحصیل تونسہ شریف جبکہ ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے الیکشن نتائج کے مطابق قومی اسمبلی سے 2018 کے انتخابات میں راجن پور سے پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کی نشستوں پر کلین سویپ کیا تھا۔ جیتنے والے ارکان میں سردار جعفر خان لغاری، سردار ریاض محمود خان مزاری اور سردار نصر اللہ خان دریشک شامل ہیں۔

سردار جعفر لغاری قومی اسمبلی کی سیٹ پر مسلسل چوتھی بار منتخب ہوئے ہیں۔ اس میں 3 بار انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیاسی وفاداری نبھائی جبکہ 2018 میں سیاسی مسکن تبدیل کر کے تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ سردار نصر اللہ دریشک کا شمار ضلع کے سب سے پرانے سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ 1970 اور 1977 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ایم پی اے منتخب ہوئے تھے جبکہ مجموعی طور پر اب تک 9 مرتبہ عام انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں اور 5 مرتبہ کامیاب ہوئے ہیں۔ ڈی جی خان میں قومی اسمبلی کی تمام 4 نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہوئے جن میں خواجہ شیراز محمود، محمد امجد فاروق خان، زرتاج گل اور سردار محمد خان لغاری شامل ہیں۔ یوں سیلاب سے متاثرہ دونوں اضلاع میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ اتنی تباہی کے بعد بھی کیا عوام آئندہ انتخابات میں انہیں ووٹ دے گی؟ عوام میں سیاسی شعور کی بات کریں تو گزشتہ انتخاب میں اس بات کا فیصلہ ان حلقوں کے ٹرن آؤٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نتائج کے مطابق ڈیرہ غازی خان میں قومی اسمبلی کی چاروں نشستوں پر ووٹوں کا ٹرن آؤٹ 50 فیصد جبکہ راجن پور میں ٹرن آؤٹ تقریباً 60 فیصد تھا۔ ووٹوں کے ٹرن آؤٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیاسی عمل میں حصہ لینے کے لیے ان علاقوں میں عوام خاصے پرجوش دکھائی دیتے ہیں۔

سیلاب نے جنوبی پنجاب کے کن حلقوں کو زیادہ متاثر کیا؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے انتخابی نتائج کے مطابق ڈیرہ غازی خان کے حلقہ این اے 189 سے تحریک انصاف کے خواجہ شیرازمحمود ایم این اے ہیں جبکہ اس میں صوبائی اسمبلی کے دو حلقے ہیں۔ پی پی 285 سے پی ٹی آئی کے خواجہ محمد داؤد سلیمانی جبکہ دوسرے حلقے پی پی 286 سے سابق وزیراعلیٰ سردار احمد عثمان بزدار ایم پی اے ہیں۔ پاکستان ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے اعدادوشمار کے مطابق اس حلقے میں تحصیل تونسہ کو سب سے زیادہ 80 فیصد نقصان ہوا ہے۔ ایم پی اے داؤد سلیمانی کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ حلقہ دیہی علاقوں پر مشتمل ہے تو سیلابی پانی سے یہاں کی 75 فیصد تک فصلوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ ابھی تک گورنمنٹ کی طرف سے گھروں کی مرمت کا سلسلہ شروع نہیں ہوا۔ سیلاب کے دنوں میں تونسہ شریف میں ایک سب سے بڑا مسئلہ یہ سامنے آیا تھا کہ اس میں سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ انہوں نے عورتوں اور بچوں کے لیے 200 بستروں پر مشتمل سرکاری پناہ گاہ کیوں نہیں کھولی۔ اس حلقے میں سیلاب سے متاثر ہونے والے ایک رہائشی اللہ بخش کا کہنا ہے کہ جب انتخابات ہوتے ہیں تو یہاں کے تمام سیاست دان اور ان کے سیکرٹری ہمارے علاقوں کا روزانہ دورہ کرتے ہیں اور ہمارے بچوں کو نوکریاں اور بنیادی سہولیات دینے کے وعدے بھی کرتے ہیں مگر انتخابات کے بعد کوئی ہمارے علاقوں کی جانب رخ نہیں کرتا۔

دوسرا حلقہ این اے 190 ہے جس میں سے محمد امجد فاروق خان کھوسہ آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔ اس حلقے میں پی پی 287 سے سردار جاوید اختر کا زرعی رقبہ متاثر ہوا۔ پی پی 288 سے پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی سردار سیف الدین کھوسہ نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں فصلوں کو نقصان دو طرح سے ہوا۔ مون سون کی بارشیں آنے سے پہلے یہاں نہری نظام بند کر دیا جاتا ہے تا کہ کوہ سلیمان کی پہاڑیوں سے آنے والا پانی ان نہروں سے گزر سکے۔ اگست کے شروع میں نہری پانی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں چاول کی فصلیں کاشت ہی نہیں ہوئیں۔ دوسری بڑی تباہی اس بار پانی کا بہاؤ اتنا تیزتھا کہ بڑی نہریں مختلف جگہوں سے ٹوٹ گئیں جس سے کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں۔ ان کے مطابق اس حلقے میں سیلابی پانی آنے کی وجہ سے قریباً 60 فیصد دیہی علاقے کو نقصان پہنچا ہے جبکہ شہری علاقہ محفوظ رہا۔ وزیر مملکت برائے ماحولیاتی تبدیلی زرتاج گل کا حلقہ این اے191 سیلاب سے زیادہ متاثر نہیں ہوا۔

قومی اسمبلی کے حلقے این اے 192 سے ایم این اے سردار محمد خان لغاری ہیں جبکہ اس میں صوبائی اسمبلی کے رکن سردار محمد محی الدین کھوسہ کا تعلق بھی پی ٹی آئی سے ہے۔ ڈیرہ غازی خان سے صرف ایک نشست پی پی 292 سے مسلم لیگ (ن) کے سردار اویس احمد خان لغاری کے حصے میں آئی تھی۔ اس حلقے میں اویس احمد خان لغاری کی ذاتی زمینیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ ٹیلی فونک انٹرویو میں سردار محی الدین کھوسہ نے کہا کہ یہ حلقہ60 سے 70 فیصد تک متاثر ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرا حلقہ چونکہ دیہی علاقوں پر مشتمل ہے تو یہاں کاشت کاری کے نظام کو 70 فیصد نقصان ہوا ہے۔ سیلاب کے بعد حکومت اور بہت سی فلاحی تنظیموں نے سیلاب متاثرین کے لیے ہر طرح کا ریلیف دیا۔ مقامی صحافی سراج خان کا کہنا ہے کہ حکومت اور فلاحی اداروں کو چاہئیے کہ یہاں لوگوں کو گھر بنا کر دیں تا کہ موسمی تبدیلی جس میں سردی کا آغاز ہو چکا ہے یہ یہاں کے عوام کے لیے دوسرا بڑا عذاب ہے۔ کوہ سیلمان کے پہاڑی سلسلوں کی وجہ سے اس علاقے میں موسمی تبدیلی سب سے پہلے رونما ہوتی ہے۔ ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان انور بریارنے کہا کہ 20 لاکھ ایکڑ رقبہ جس میں سے کوہ سلیمان کا 54 فیصد حصہ بنتا ہے، ماضی میں اس سال میں ہونی والی بارش 800 ملی میٹر کبھی نہیں پڑی جس سے ضلع ڈیرہ غازی خان کا 50 فیصد سے زیادہ علاقہ تباہ ہوا۔ انہوں نے موجودہ صورت حال کے بارے میں مزید بتایا کہ یہاں کے لوگ اس سسٹم کے عادی ہو گئے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ مون سون کی بارشوں میں انہیں ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جس کی وجہ سے وہ پہلے ہی بڑی حد تک اپنا مناسب بندوبست کر لیتے ہیں جبکہ زیادہ نقصان ان لوگوں کا ہوتا ہے جو ردکوہیوں کے راستے کے کنارے پر رہائش پذیرہوتے ہیں۔ انہیں پانی کا تیز بہاؤ سب سے پہلے متاثر کرتا ہے۔ اس بار حکومت نے وقت سے پہلے ہی ضلع کے عوام کو آگاہ کر دیا تھا جس سے شہری علاقوں کو بند لگا کر محفوظ بنا دیا گیا تھا اور دیہی علاقوں کے عوام کو حکومتی سرپرستی میں نقل مکانی کروائی گئی تھی۔



ضلع راجن پور سے قومی اسمبلی کی 3 نشستوں پر پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ این اے 193 سے سردار محمد جعفر خان لغاری جبکہ دو صوبائی نشستوں پی پی 293 سے محسن خان لغاری اور پی پی 294 سے سردار حسنین بہادر دریشک منتخب ہوئے تھے۔ اس حلقے میں تحصیل جام پورسیلابی پانی سے متاثر نہیں ہوئی۔ درکوہی کا سیلابی ریلہ قبائلی علاقوں سے ہوتا ہوا اس حلقے سے گزرتا ہے۔ اس حلقے میں تین بڑی ردکوہیاں، کاہ سلطان، چھاچھڑ، رد کالا بگا کھوسٹرہ گزرتی ہیں۔ قومی اسمبلی کے اس حلقے میں جام پور شہر اور محمد پور کے علاقے متاثر نہیں ہوئے جبکہ باقی سارا علاقہ زیر آب آیا ہے۔ ایم پی اے محسن خان لغاری نے ٹیلی فونک انٹرویو میں بتایا کہ اس سال کوہ سلیمان کی پہاڑیوں سے آنے والا پانی 100 سالہ تاریخ کا سب سے زیادہ پانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہاڑیوں سے پانی آنا ایک قدرتی عمل ہے مگر اس کے راستے میں اگر رکاوٹیں ہوں گی تو تباہی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ پچھلی کئی دہائیوں سے پانی کم مقدار میں میدانی علاقوں میں آتا تھا جس سے ردکوہیوں کے بیشتر علاقے خشک رہتے تھے۔ اس بنا پر وہاں لوگوں نے ان ردکوہیوں کے کناروں پر آبادکاری شروع کر دی۔ پانی کو اس کا اصل راستہ نہ ملنے کی وجہ سے تباہی زیادہ ہوئی۔ ان کے مطابق 80 فیصد تک دیہی علاقہ تباہ ہوا ہے۔
قومی اسمبلی کے حلقے این اے 194 کا 80 فیصد علاقہ سیلاب سے متاثر ہوا ہے۔ حلقے میں تحصیل راجن پور اور تحصیل جام پور کے علاقے بھی آتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایم این اے سردار نصر اللہ دریشک، ایم پی اے سردار محمد اویس دریشک اور سردار فاروق امن اللہ دریشک بھی تحریک انصاف سے اس حلقے میں نمائندگی کر رہے ہیں۔



مقامی رپورٹر امین انجم کا کہنا ہے کہ اس حلقے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا کاروباری علاقہ ہے جس میں میونسپل کمیٹی فاضل پور متاثر ہوئی ہے۔ دریائے سندھ سے کوہ سلیمان کی پہاڑیوں تک کا تمام علاقہ پانی میں ڈوب گیا ہے۔ صوبہ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کی تحصیل تحصلوغ کے شہری بھی متاثر ہوئے ہیں کیونکہ وہاں کے عوام خرید و فروخت کے لیے تحصیل فاضل پور میں بھی آتے ہیں۔ اس حلقے میں شہری علاقہ پی پی 269 سیلاب سے زیادہ متاثر نہیں ہوا۔

این اے 195 کے حلقے میں پی ٹی آئی کے سردار ریاض محمود خان لغاری ایم این اے ہیں جبکہ پنجاب کے سابق ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد خان مزاری بھی اسی حلقے میں آتے ہیں۔ اس حلقے کے مشرقی علاقے دریائے سندھ کے ساتھ لگتے ہیں۔ دوسری جانب تحصیل روجھان کو تین ردکوہیاں سوری شمالی، سوری جنوبی اور زنگی متاثر کرتی ہیں۔ اس حلقے میں کوٹ مٹھن شریف کا علاقہ محفوظ رہا جبکہ مضافاتی علاقے زیرآب آ گئے۔ ایم این اے سردار ریاض محمود لغاری نے ٹیلی فونک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سب سے زیادہ نقصان میرے حلقے کا ہوتا ہے کیونکہ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور دونوں کا سیلابی پانی میری تحصیل روجھان سے گزر کر آگے جاتا ہے۔ تحصیل روجھان صوبہ پنجاب کی آخری تحصیل ہے جو کہ دریائے سندھ کے ساتھ منسلک ہے۔ یہاں پانی کی وجہ سے سب سے زیادہ تباہی اس لیے ہوتی ہے کہ حکومت پانی کے چینلز کو اپ گریٹ نہیں کرتی۔ سب سے بڑا مسئلہ جس پر حکومت کو توجہ دینی چاہئیے وہ یہ ہے کہ یہاں درکوہیوں کے قدرتی اور قدیمی راستوں کو بحال کیا جائے تا کہ اس علاقے میں اتنی تباہی نہ آئے۔ ان کے مطابق اس حلقے کے 80 فیصد علاقے کو سیلاب سے نقصان پہنچا ہے مگر پنجاب حکومت نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی میرے علاقے کے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس صورت حال پر میرے پاس افسوس کے سوائے کوئی الفاظ نہیں ہیں۔

کوہ سلیمان ریجن میں 13 بڑی ردکوہیاں (Hill Torrents) ہیں جن میں سالانہ لاکھوں کیوسک پانی آتا ہے جو کہ راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کے اضلاع میں سیلاب کا باعث بنتا ہے۔ کوہ سلیمان کی پہاڑیوں کا پانی انہی ردکوہیوں سے ہوتا ہوا دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔ اصل مسئلہ سلیمان کی پہاڑیوں سے آنے والا پانی نہیں بلکہ پانی کے راستوں کو ذاتی مفادات کی خاطر بند کرنا اصل مسئلہ ہے۔ اگر حکومت اس مسئلے کی طرف توجہ دے تو آئندہ آنے والی مون سون کی بارشوں کے بعد ان دو اضلاع میں اتنی تباہی نہیں آئے گی۔

وجیہہ اسلم صحافت سے وابستہ ہیں۔