توشہ خانہ فیصلہ: ریاست کو ایک خاص چھتری کے نیچے کی گئی سیاسی جدوجہد کی عادی جماعت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں

توشہ خانہ فیصلہ: ریاست کو ایک خاص چھتری کے نیچے کی گئی سیاسی جدوجہد کی عادی جماعت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں
الیکشن کمیشن اب سے چند گھنٹوں میں توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سنانے جا رہا ہے۔ لیکن یہ محفوظ فیصلہ سنائے جانے کے فیصلے ںے جہاں بہت سے خدشات اور توقعات کو جنم دیا ہے، وہیں قانون اور اںصاف کے پیمانوں کے حوالوں سے اہم سوالات بھی سامنے لا کھڑے کیے ہیں۔

بظاہر تو کسی بھی مقدمے میں فیصلے کا سنایا جانا ایک عام سی بات اور قانونی ضرورت ہے، مگر اس معاشرے کا کیا کیا جائے کہ جہاں قانونی، سیاسی اور معاشرتی سطح پر اپنے خلاف کوئی فیصلہ تو دور کی بات، رائے سننے کی روایت بھی دم توڑ رہی ہے اور ناصرف یہ روایت دم توڑ رہی ہے بلکہ مخالفانہ فیصلوں کے خلاف متشدد ردعمل کی روایت جنم لے رہی ہے۔

یہی وہ خوف ہے جس نے الیکشن کمیشن کو فیصلے سے قبل وزارت داخلہ کو خط لکھ کر فول پروف سکیورٹی مانگنے اور وزارتِ داخلہ کو لانگ مارچ کے لئے اکٹھے کیے گئے کنٹینرز کو حرکت دینے اور ریڈ زون جانے والے راستے سیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ حالانکہ ایک وقت تھا اور یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں جب یہی عدالتیں اور ادارے اسی قسم کے فیصلے دیا کرتی تھیں تو غیر معمولی سکیورٹی انتظامات دکھائی نہیں دیتے تھے۔

فیصلوں کو قبول کرنے اور ان کے خلاف عدالتی لڑائی لڑنے کا رواج پختہ تھا۔ سڑکوں پر احتجاج اگر کہیں ہوتا تھا تو انتہائی پرامن۔

لیکن سیاسی محرومیوں، معاشرتی ناانصافیوں، میرٹ کے عدم وجود، سیاستدانوں کی کرپشن اور ان سے زیادہ ان پر کرپشن کے الزامات نے معاشرے میں جس شدید رویے کو جنم دیا ہے اسے پاکستان تحریک انصاف کے ورکرز اور عمران خان کے چاہنے والے پوری شدت سے اگے بڑھانے پر مائل دکھائی دیتے ہیں، اور اس کی واحد وجہ سیاسی ناپختگی ہے جو صرف اور صرف پرامن سیاسی جدوجہد سے ہی آ سکتی ہے۔

ترجیحی سلوک کے ساتھ ایک خاص چھتری کے نیچے کی گئی سیاسی جدوجہد کی عادی جماعت اب بھی اس سے محروم ہے، اور یہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بھی انہی حالات میں سنایا جا رہا ہے تو یہ سب تو ہونا ہی تھا۔

مگر اٹھتے سوالات اس فیصلے اور اس کے حق یا مخالفت میں آنے والے ردعمل سے زیادہ اہم ہیں۔ ایک سوال جو مسلسل پوچھا جاتا ہے وہ یہ کہ ہمارے آئینی اداروں اور عدالتوں پر اعتبار کب اور کیسے قائم ہوگا؟ اور دوسرا سوال یہ کہ نظریہ ضرورت کب مستقل طور پر اپنے حتمی انجام کو پہنچے گا؟

ایک اور سوال بھی بہت اہم ہے اور وہ یہ کہ کیا شخصیات اہم ہیں یا آئین و قانون اور ان پر عمل درآمد؟ کیونکہ جب بھی کسی سیاسی شخصیت کے خلاف کسی مقدمے کا فیصلہ آ رہا ہو تو کہا جاتا ہے کہ خلاف فیصلے کے یہ نتائج ہوں گے اور یہ خطرات، یا فیصلہ حق میں آیا تو مخالفین اس قسم سوال اٹھائیں گے۔

جب سے عمران خان صاحب آئین، قانون، پارلیمان بلکہ ملک سے بڑے ہوئے ہیں، یہ بحث بلکہ دھمکیاں زیادہ شدت سے جاری ہیں کہ عمران خان کو نااہل کیا گیا تو خدانخواستہ ملک کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ جب کہ دنیا بھر میں کہا جاتا ہے کہ قانون اور آئین پر عمل کرنے والے معاشرے ہی ترقی کرتے ہیں اور مضبوط ہوتے ہیں۔

اگر عمران خان، آصف زرداری، نواز شریف یا کوئی اور جرم کرے تو کیا اسے سیاسی انتشار کے خدشے کے باعث معاف کر دیا جائے؟

جب تک پاکستان کو اس خوف سے نکال کر آئین اور قانون پر عمل کی روایت کو پختہ نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ہر پاپولر لیڈر اور اس کے پیروکار یہ پراپیگنڈا کرتے رہیں گے اور پھر سیاسی انتشار سے ڈرنے والی غیر سیاسی قوتیں بھی اسی طرح بلیک میل ہوکر ڈیلز پر مجبور ہوتی رہیں گی۔

اعجاز احمد صحافت سے وابستہ ہیں اور کئی دہائیوں سے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔