پاٹے خان قلندر کے آستانے پہ اپائے کی تلاش میں!

پاٹے خان قلندر کے آستانے پہ اپائے کی تلاش میں!
قلندر کے آستانے پر اچانک  پاٹے خان وارد ہو گیا۔ اس کا سیکرٹری اسحاقہ بتاتا رہ گیا کہ قلندر گہری نیند سو رہا ہے، اگر جگایا تو بپھر جائے گا مگر پاٹے ٹھہرا سدا کا عقل اور منطق کا جانی دشمن۔ بضد تھا کہ قلندرکو جگایا جائے۔ مجبوراً اسحاقے کو ایسا کرنا ہی پڑا۔

'کیوں بے کیا کوئی نئی پھنسائی ہے جس کو طلاق دلوا کر حلالہ کرنا ہے؟' قلندر نے لاؤنج میں آتے ہی چوٹ کسی۔

'نہیں سرکار۔ میں پہلے والی سے ہی بہت تنگ ہوں!'

'تو پھر صبح صبح آن مرنے کا مطلب؟ پچھلے چار سال سے تو تیرے پیر زمیں پر نہیں پڑ رہے تھے۔ میرا فون تک نہیں اٹھاتا تھا۔ اب مطلب پڑتے ہی ننگے پاؤں بھاگا آ گیا۔ تو ہمیشہ سے مطلبی ہی تھا۔ اپنے مطلب کے لئے گدھے کو چھوڑ، کسی بھی کتے بلے کو باپ بنا لے گا۔ چل ہم تو قلندر ہیں پیدائشی۔ دشمن کی بھی دوا، دارو اور دعا کرتے ہیں۔ جلدی سے بک کیوں آیا ہے؟'

'بس آپ کی یاد آ رہی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ کو بھول گیا۔ بہت مصروف ہو گیا تھا'، پاٹے بولا۔

'ابے بکواس بند کر اور مطلب کی بات کر۔ تجھے تو اللہ کی بھی یاد نہ آوے بنا مطلب!'

'سرکار بہت پریشان ہوں۔ آپ کو تو علم ہوگا ہی کہ مجھے 5 برس کے لئے تڑی پار کر دیا گیا ہے۔ کل تک جو میرے جوتے چاٹتے تھے، آج میرے خلاف ہو چکے ہیں۔ واپڈا کی پریس کانفرنس تو آپ نے دیکھ اور سن ہی لی ہو گی۔ میرے ساتھی اب لوٹے ہوتے جا رہے ہیں۔ مجھے چھوڑ کر 'شریف لوگوں' کے پیروں میں لوٹ رہے ہیں۔ دم ہلا رہے ہیں۔ اور تو اور، کل تو آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر کے تھری سٹار جرنیلوں نے اپنی جگل بندی کے ذریعے میری بڑی 'عزت افزائی' کی۔ اب میں کیا کروں؟'

'اب آیا نہ اونٹ پہاڑ کے نیچے! خیر فکر نہ کر۔ اپنا باجوہ بھی اسی آستانے کا مرید ہے، پر تیری طرح نامراد نہیں۔ اسے چیف آف آرمی سٹاف میں نے لگوایا تھا۔ اس کا ذکر میں نے اپنے ایک کالم میں کیا تھا جب ابصار عالم نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ باجوے کو چیف اس نے لگوایا تھا۔ پھر میں نے ابصارے کی خوب خبر لی اور اسے یاد دلایا کہ تجھے تو میں نے بطور ڈاکیا استعمال کیا تھا۔ دراصل وہ خط جس میں میں نے یہ لکھا تھا کہ باجوے کو ہی چیف لگایا جائے، ابصار نے ڈیلیور کیا تھا۔ بس اتنی سی کاوش کو اتنا بڑا بنا دیا اس شیخ چلی نے! خیر۔ تیرے سے پہلے تیرا محسن یعنی باجوہ آ یا تھا۔ مجھ سے یہی پوچھ رہا تھا کہ کچھ غلط تو نہیں کر رہا وہ۔ میں بولا ہرگز نہیں، تو بالکل ٹھیک کر رہا ہے۔ پاٹے خان نے تیرے ساتھ نمک حرامی کی لیکن تو عظیم نکلا۔ کوئی بدلہ نہ لیا۔ اس کے بعد پاٹے نے تجھے بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن تو خاندانی ہے۔ تو نے مڑ کر جواب نہ دیا۔ پر کم بخت اس بار تو تو نے حد ہی کر دی۔ ادھر خبر آئی کہ ارشد شریف کا کینیا میں قتل ہو گیا ہے اور تو نے جھٹ سے اپنے لڑکوں کو کھلا چھوڑ دیا۔ اور انہوں نے جو آگے درجنوں کے حساب سے گلی کے چھوٹے موٹے آوارہ پالے ہوئے ہیں وہ سب اکھٹے کر لیے ارشد کے گھر کے باہر اور دے یوٹیوب پے یوٹیوب وڈیوز! جب یہ اس بیچارے کی لاش گدھوں کی طرح نوچ رہے تھے تو تو کیا کر رہا تھا۔ روکا کسی کو تو نے؟ اور اب تو کہہ رہا ہے کہ  تیرے انتم سنسکار سے پہلے ہی گدھ تیرے پر منڈلانے لگے۔ تیری ہی تعلیمات پر عمل کر رہے ہیں وہ۔'

'سرکار مینوں کسے ہور ویلے جتیاں مار لینا۔ اس ویلے اے دسو کہ میں کی کراں؟ (مجھے کسی اور وقت جوتے لگا لیجیے گا، فی الحال یہ فرمائیے کہ میں کیا کروں؟)

'تیرا مسئلہ یہ ہے کہ تو چپ نہیں رہ سکتا۔ تو کچھ بھی نہ کر اور چپکا ہو جا – لیکن یہ تجھ سے نہ ہو سکے گا۔ شریف لوگوں سے ہی کچھ سبق سیکھ۔ دیکھ انہیں۔ جب مالکان نے گھر سے نکال دیا تو برسوں انتظار کرتے رہے۔ تھوڑا بہت بولے شروع میں لیکن پھر صبر کرتے رہے اور دیکھ لے صبر کا پھل میٹھا ہووے ہے۔ ایک شریف آدمی کو وزیر اعظم لگا دیا۔ ڈارک کو وزیر خزانہ بنا دیا اور نانی اماں کی سزا ختم کر دی۔ ان کے ساتھ یہ ڈرامہ اس سے پہلے تین بار ہو چکا۔ تیرے ساتھ تو پہلی بار ہوا ہے۔ بڑا کہتا پھرتا ہے تو کہ سیاست میں تیرا 26 سال کا تجربہ ہے۔ خاک تجربہ ہے! کیا سیکھا تو نے؟ تو آرام سے باہر بیٹھ۔ مالکان شرفا سے جلد ہی تنگ آ جائیں گے۔ ابے یہی سوپ اوپرا چل رہا ہے جب سے سرمے والی سرکار اوپر پہنچی ہے۔ لیکن تیرے بھیجے میں بھس بھرا ہوا ہے۔ تجھے کسی کی بات سمجھ نہیں آتی۔' قلندر بہت پیار سے پاٹے کو سمجھا رہا تھا اور پاٹے سر جھکائے جی جی کر رہا تھا۔

'یہ میں آپ کے لئے 50 کروڑ روپے کا نذرانہ لایا ہوں۔ آستانے کے غربا کے لنگر کے لئے۔ اسے قبول کر لیجیے،' پاٹے قلندر کو ایک سوٹ کیس تھماتے بولا۔

'ابے سیدھا بک نہ اس کے بدلے کیا مانگتا ہے تو۔ مجھے علم ہے۔ لانگ مارچ کے لئے ہمارے مریدوں کی فوج چاہیے نا؟'

'جی سرکار آپ تو پہنچے ہوئے ہیں۔'

'ابے اٹھا اپنے اس ٹفن کو اور بھاگ۔ ہمیں رشوت دیتا ہے۔ یہ لاہور کے وکلا میں بانٹ دیجیو،' قلندر بولا۔

'تو پھر آپ لانگ مارچ میں نہیں تشریف لا رہے؟'

'ابے کون سا لانگ مارچ؟ تو کون سا قاضی حسین احمد کی طرح کراچی سے خیبر ملین مارچ کر رہا ہے؟ یہ تو شارٹ کٹ بھی نہیں۔ اس سے زیادہ لمبی واک تو میں روز اپنے لان میں کرتا ہوں۔ لگتا ہے تیرے پلے جگل بندی کا وادی اور سموادی سر نہیں پڑا۔'

'کیسے پڑے سرکار۔ مجھے تو کلاسیکل موسیقی کی کوئی سمجھ نہیں۔ آپ ہی بتا دیجیے کیا سر لگائے ہیں دونوں نے؟'

'ابے رضا احمد قصوری والا سر لگایا ہے انہوں نے۔'

'یہ کون سا سر ہے سرکار۔۔۔'

'ابے جاہلوں کے ابوجہل! تجھے تو اتہاس کا بھی کچھ پتہ نہیں۔ اب مجھے تیرے کو اتہاس بھی پڑھانا پڑے گا۔ ٹھہر میں اپنی 4 سالہ بیٹی پیرو بابا کو بلاتا ہوں۔ پیرو بڑی معرفت کی باتیں کرتا ہے۔ آکسفورڈ سے پی ایچ ڈی کر کے آیا ہے نرسری گروپ میں۔

'ابے پیرو! ذرا ادھر تو آ۔'

پیرو آ جاتا ہے۔ پیرو پیر بابا کا مخخف ہے۔ بیٹیوں کے لئے قلندر صیغہ مذکر ہی استعمال کرتا ہے۔

'ذرا پاٹے خان کو جلدی سے رضا احمد قصوری والا سر پلٹہ کر کے سمجھا دے۔'

'مائی ڈیئر پاٹے خان، جب ضیا نے مارشل لا لگا کر بھٹو کو نظر بند کر دیا تو کچھ ہی عرصے بعد عزت سے آزاد بھی کر دیا تھا۔ بھٹو نے اصلی لانگ مارچ کیا۔ تیری طرح غائبانہ لانگ مارچ نہیں۔ بھرے مجمع میں بھٹو نے ضیا کو سبق سکھانے کا عہد کیا۔ ضیا ڈر گیا اور سمجھ گیا کہ یا سر بھٹو کا یا اس کا۔ تو ایک مردہ ایف آئی آر رضا احمد قصوری کے قتل کی زندہ کی گئی۔ اور اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ ہمارے کانوں میں 'جوڈیشل مرڈر' بن کر گونجتا ہے۔ ویسے بھٹو آج بھی زندہ ہے، کل بھی رہے گا اور ہر گھر سے نکل بھی رہا ہے۔ لیکن رنگ و روپ ضیا کا ہے۔ اب سمجھ میں آیا؟' پیرو بولا لیکن پاٹے خان کے پلے کچھ نہ پڑا اور قلندر کے پیروں میں گر کر اپائے مانگنے لگ گیا۔

'ابے اپائے تجھے نجم سیٹھی کے چینل پر مل جائے گا جس پر تو نے مقدمہ کیا تھا۔ اگر اس کے تجزیوں پر عمل کرتا تو آج مجھ سے اپائے نہ مانگ رہا ہوتا۔ ابے اسحاقے نکال باہر اس کو اور آئندہ نہ گھسنے دیجیو۔ واپڈا کی طرح اس کی بھی رکنیت تا حیات خلاص!'

قلندر نشت برخاست کرتے بولا اور لاؤنج ایک سناٹے سے گونج اٹھا!

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔