فالج کے حملے کے منٹوں میں فوری طبی امداد سے معذوری اور اموات سے بچا جا سکتا ہے، ماہرین

فالج کے حملے کے منٹوں میں فوری طبی امداد سے معذوری اور اموات سے بچا جا سکتا ہے، ماہرین
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ بروقت تشخیص اور طبی امداد سے فالج کے حملے سے ہون والی معذوری اور اموات سے بچا جاسکتا ہے، فالج کی علامات سے کے متعلق آگاہی سے شرح معذوری و اموات میں حتیٰ الامکان کمی لائی جاسکتی ہے۔

عالمی یوم فالج کے حوالے سے نیورولوجی اوئرنس اینڈ ریسرچ فائونڈیشن ، الخدمت اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما)اور پاکستان اسٹروک سوسائٹی  کے زیراہتمام لیاقت کالج آف میڈیکل اینڈ ڈینٹسری میں فالج کے حوالے سے   ڈاکٹرز کے لیے طبی اور تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا ۔

عالمی تنظیم برائے فالج نے پوری دنیا میں منائے جانے والے 29 اکتوبر کو عالمی یوم فالج کا عنوان ”منٹ.... زندگی بچا سکتے ہیں“ دیا ہے۔ اس مرکزی خیال کا پس منظر یہ ہے کہ بشمول ترقی یافتہ ممالک میں فالج کی ابتدائی معلومات کی آگہی کا فقدان ہے جس کے باعث ایک بہت بڑی تعداد کہ جسے بروقت تشخیص کی بنیاد پر فوری علاج فراہم کیا جاسکتا تھا‘ وہ اس سے محروم رہ جاتا ہے اور نتیجتاً فالج کی وجہ سے شرح معذوری و اموات میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔

اس ضمن میں امسال عالمی یوم فالج کا عنوان و مرکزی خیال اس بات سے ماخوذ ہے کہ فالج کے متعلق علامات کو جانیں تاکہ بروقت تشخیص وعلاج سے شرح معذوری و اموات میں حتیٰ الامکان کمی لائی جا سکے۔

طبی، تربیتی ورکشاپ سےخطاب کرتے ہوئے کہا کہ فالج عمر کے کسی بھی حصے میں ہوسکتا ہے  یہی وجہ دنیا بھر میں فالج کی وجہ سے شرح اموات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ،ہر چار مرد حضرات میں ایک اور ہر پانچ عورتوں میں سے ایک فالج کا شکار ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان دُنیا کا چھٹا، سب سے زیادہ آبادی والا مُلک ہے، جو تقریباً 22کروڑ نُفوس پر مشتمل ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہمارے مُلک میں فالج سمیت غیر متعدی امراض کی شرح تقریباً40فی صد سے زائد ہے،جب کہ آبادی کا تقریباً 5 فی صد حصّہ فالج کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اس اعتبار سے لگ بھگ 10لاکھ افراد کسی نہ کسی حوالے سے معذوری کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دَورِحاضر میں جہاں طب کے شعبے نے ہر حوالے سے ترقّی کی، وہیں فالج کے علاج کے ضمن میں بھی خاصی جدّت آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل تک فالج کوایک لاعلاج مرض سمجھا جاتا تھا،مگر اب مختلف تحقیقات کے بعد یہ ثابت ہوچُکا ہے کہ یہ قابلِ علاج مرض ہی نہیں، بلکہ اس کے حملے سے بچاؤ بھی ممکن ہے۔البتہ یہ بات اپنی جگہ موجود ہے کہ عوام کی بڑی تعداد تاحال فالج کے بروقت، مؤثر، معیاری اور سستے علاج سے محروم ہے، جس کے سبب پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ چار لاکھ سے زائد افراد انتقال کرجاتے ہیں،نیز،لاکھوں افراد مستقل معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فالج ایسا مرض ہے، جو جسم کے کسی بھی حصّے کو مفلوج کرسکتاہے، جب کہ بعض کیسز میں اس کا حملہ جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ اس کی علامات میں جسم کے کسی ایک حصّے کا سُن ہوجانا،قوّتِ گویائی سے محرومی یا باتوں کو سمجھ نہ پانا،کھانے پینے میں دشواری ،چلنے پھرنے سے معذوری، نظر نہ آنا یادھندلاہٹ وغیرہ شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فالج کے حملے کے بعد مریض فوری علاج کے طلب گار ہوتے ہیں،کیوں کہ متاثرہ فرد کو جس قدر جلد اسپتال یا اسٹروک یونٹ میں طبّی نگہداشت مل جائے، بحالی کے امکانات اُتنے ہی بڑھ جاتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں زیادہ تر مریضوں کو بروقت معیاری علاج دستیاب نہیں ہوپاتا۔پاکستان بَھر کے بڑے اسپتالوں کی جانب سے کی جانے والی مختلف تحقیقات کے مطابق صرف فالج سے ہونے والی اموات 7سے 20فی صد کے درمیان ہیں،جب کہ فالج کے تمام مریضوں میں سے 63فی صد مختلف طبّی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور 89فی صد مکمل یا جزوی طور پر اپنے روز مرّہ امور خود انجام نہیں دے پاتے اور اہلِ خانہ کے محتاج ہو کر رہ جاتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ  اگر فالج کے شدید حملے کے بعد پیچیدگیوں اور اموات کی شرح میں کمی لانی ہے،تو اس کے لیے سب سے ضروری تمام ٹیچنگ اسپتالوں کے شعبہ نیورولوجی میں اسٹروک (فالج) سینٹرز کا قیام ہے ۔موجودہ صورتِ حال میں ان سینٹرز کی بہت کمی نظر آتی ہے،کیوں کہ اگر بڑے اسپتالوں میں اسٹروک سینٹرز علاج کی سہولتیں فراہم کررہے ہوں، تو کئی قیمتی جانیں ضایع ہونے یازندگی بھر کی معذور ی سے بچائی جاسکتی ہیں۔ یہ مرض قومی معیشت پر بھی خاصا اثر انداز ہوتا ہے،کیوں کہ مرض کے علاج، اسپتال میں قیام اورا دویہ وغیرہ پر بھاری لاگت آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آگہی مہم کے ذریعے دماغ اور دِل کی بیماریوں کے خطرات کی علامات اور ان سے بچاؤ کے ضمن میں لوگوں کو مقامی زبانوں میں معلومات فراہم کی جائیں اور اس کے لیے ہر چھوٹے بڑے شہر میں آگاہی مہم کا آغاز کیاجائے۔واضح رہے کہ تقریباً تمام ترقّی یافتہ مُمالک میں آگاہی مہمات نے فالج اور دِل کے دورے کی بڑھتی شرح پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ تمام بڑے اسپتالوں میں فالج کئیر یونٹس کا قیام عمل میں لایا جائے۔اس طرح فالج کے نتیجے میں اموات و معذوری کی شرح میں کم ازکم 20فی صد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔نیز،طویل مدّت تک گھروں یا اداروں میں دیکھ بھال پر آنے والے اخراجات سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ تمام صوبائی حکومتیں اس بات کو یقینی بنائیں کہ فالج کے مریض کو داخل کرنے والے اسپتال میں تربیت یافتہ پیرامیڈیکل اسٹاف موجود ہو اور فالج کئیر یونٹ میں علاج معالجے کی سہولتیں بھی دستیاب ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت مُلک بَھر میں تربیت یافتہ اسٹروک اسپیشلیسٹس کی تعداد انتہائی کم ہے اور وہ بھی صرف دو تین شہروں کے نجی اسپتالوں سے وابستہ ہیں۔جب کہ مُلک بَھر میں 22کروڑ کی آبادی کے لیے موجود ماہرین دماغ و اعصاب (نیورولوجسٹ) کی تعداد 200کے لگ بھگ ہے۔ ماہر ڈاکٹرز کی اس کمی سے بہرحال فالج کے علاج میں دقّت ضرور پیش آرہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے لیے مرکزی حکومت، صوبائی حکومتوں کے تعاون سے قومی ٹاسک فورس تشکیل دے،جس میں ماہرینِ طب بھی شامل ہوں، جوفالج سے بچاؤ اور درست علاج کی آگاہی کا کام بڑے پیمانے پرانجام دیں۔علاوہ ازیں، اس ٹاسک فورس کی یہ بھی ذمّے داری ہو کہ وہ مُلک میں نیشنل اسٹروک رجسٹری کا قیام عمل میں لائے۔

درج بالا اقدامات کے ذریعے فالج کے مرض سے بچاؤ ، بہتر علاج کی فراہمی اور مریضوں کی جلد از جلد بحالیٔ صحت ممکن ہے۔ تاہم، اس ضمن میں صرف حکومت ہی کو نہیں، معاشرے کے تمام طبقات کو مل جُل کر کام کرنا ہوگا،تاکہ نہ صرف فالج سے ہونے والی سالانہ لاکھوں اموات میں کمی لائی جا سکے، بلکہ مریضوں کی بہت بڑی تعداد کو مختلف پیچیدگیوں اور عُمر بَھر کی معذوری سے بھی بچایا جاسکے۔

29 اکتوبر کو منائے جانے والے عالمی یوم فالج کے موقع پر حیدرآباد،لاڑکانہ اور سکھر میں ماہرین اعصاب و دماغ نے پریس کانفرنسز سے خطاب کیا اورعوامی آگہی کے لیے مختلف شہروں میں آگہی واک کا بھی انعقاد کیا گیا۔