پارلیمنٹ میں خواتین کی مخصوص نشستیں بھی موروثی سیاست کے قبضے میں

پارلیمنٹ میں خواتین کی مخصوص نشستیں بھی موروثی سیاست کے قبضے میں
قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں خواتین مخصوص نشستوں پر اپنی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ ان میں بعض خواتین کا تعلق سیاسی خاندان سے، کچھ سیاسی جماعتوں کی ورکرز، سابق ایم این ایز اور بعض خواتین اسمبلی میں نیا سیاسی چہرہ (نیا سیاسی چہرے سے مراد جو پہلی بار اسمبلی کا حصہ بنیں) ہیں۔ سوال یہ ہے کہ خواتین کا انتخاب کیا ان کی سیاسی صلاحیتوں، مقامی سطح پر مقبولیت یا پھر پارٹی جدوجہد کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے یا پھر قانون ساز اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین کا انتخاب اہم سیاسی خاندان سے کرنا ضروری ہوتا ہے؟ اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین کے بارے میں عوامی تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ خواتین سیاسی جماعتوں کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے مختص کئے گئے کوٹے کی بنا پر اسمبلیوں کا حصہ بنتیں ہیں لہذا انہیں اپنے حلقوں میں حقیقی یا مقامی سطح پر مقبولیت نہیں ملتی جو حلقوں سے ووٹ لے کر اسمبلی میں منتخب اراکین کو حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین اہم قانون سازی  کے لئے جد وجہد نہیں کرتی کیونکہ انہیں ایوان سے حمایت حاصل نہیں ہوتی۔

مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین کی اسمبلی میں شرح  کی بات کریں تو قومی اسمبلی میں صوبوں کو دی گئی  نشستوں کی تعداد کے تناسب کومخصوص نشستوں کے تناسب سے تقسیم کرکے انکی اصل تعداد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر قومی اسمبلی میں صوبہ پنجاب سے 115نشستیں ہیں ان نشستوں کو مخصوص نشستوں کے کوٹے35سے تقسیم کریں تو پتہ چلے گا کہ قریباً4ایم این ایزپر ایک خاتون کو نشست ملے گی۔

2018ء کی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر براجمان بیشترخواتین اسمبلی کا تعلق مشہور سیاسی خاندانوں سے ہے جوکہ ایک بہت پرانی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ان میں کچھ خواتین اسمبلی میں نئے سیاسی چہروں کے ساتھ اپنے علاقوں اور سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کررہی ہیں۔ اس نقطہ نظر کی مزید وضاحت کرنے کے لئے  قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر پنجاب سے تعلق رکھنے والی مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین کے  سیاسی سفر کا جائزہ لیا گیا جس میں انکی سیاسی پروفائلز اور سیاسی جماعتوں سے وابستگی سے متعلق تحقیق کی گئی، جس کے مطابق پنجاب کی  34 مخصوص نشستوں میں 10کا تعلق پنجاب کے بڑے سیاسی خاندانوں سے ، 14نئے سیاسی چہرے،جبکہ 10 خواتین ایم این ایز ماضی میں بھی اسمبلی کا حصہ رہ چکیں ہیں، تحریک انصاف نے اپنی جماعت کی سیاسی ورکرز کو ٹکٹ دیا جبکہ مسلم لیگ ن نے  سیاسی ورکرز کے ساتھ موروثی سیاست سے تعلق رکھنے والی خواتین کوبھی قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں سے نوازا۔

تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی ایم این اے جویریا اھیر نے ٹیلی فونک انٹر ویومیں اپنی رائے کا اظہار کیا کہ مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین پارٹی ورکرز ہونی  چاہیے نہ ان کا تعلق موروثی سیاست سے ہو، ہاں اگر کوئی خاتون اپنے خاندان میں سیاست میں سرگرم ہے تو اس کا بھی حق ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں اپنے حلقے کی عوام  کی نمائندگی کرے۔ ان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین کو مرد ارکان اسمبلی اپنی برابری کا نہیں سمجھتے، انکی نظر میں  مخصوص نشستوں پر آنے  والی خواتین کا اسمبلی میں کوئی اہم  رول نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب منتخب ہونے والے اور مخصوص نشستوں پر نامزد ہونے والے ممبران آئین کے تحت حلف لیتے ہیں تو قانونی طور پراس ایوان کے الیکٹڈ ممبر ہوتے ہیں۔ اسمبلی میں 342کے ایوان میں تمام ممبر جب ایک ہی آئین  کےتحت حلف اٹھاتے ہیں تو ان کے تمام اختیارات اور  ڈیوٹیز بھی  برابری کی سطح پر ہونی  چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے تو اسمبلی کے فلور پر اپنی ایک تقریر میں یہ تک کہہ دیاتھا کہ ایوان کے مرد حضرات کو اگر مسئلہ ہے تو  شریعت کے مطابق دو خواتین کی اگر ایک گواہی مانی جاتی ہے تو ایوان میں بھی دو خواتین کو ایک مان کر ہمیں برابری کے اختیارات دے دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اختیارات سے مراد تمام سیاسی جماعتیں مخصوص نشستوں پر آنےوالے اراکین اسمبلی  کو فنڈز نہیں دیتے۔ فنڈز نہ دینا کسی قانون کے تحت نہیں بلکہ یہ وزیراعظم اور وزیراعلی کے اختیار میں ہوتا کہ وہ حلقوں میں عوام کی بہتری کے لئے منتخب ایم این ایز اور ایم پی ایزکو فنڈزجاری کرے۔ اگر یہ فنڈز ہمیں مل جائیں تو ہم اپنے حلقے کی خواتین کے لئے کوئی فلاحی کام کرسکیں۔ اگر حلقے کی عوام انکی کارکردگی سے خوش ہوں گی تو آئندہ انتخابات میں مخصوص نشستوں پر آنے والی اراکین جنرل نشست پر الیکشن لڑ سکتی ہیں۔

قومی اسمبلی میں حاضری کا تناسب  

تحریک انصاف کی خواتین کی حاضری کا تناسب 70فیصد سے زائد جبکہ مسلم لیگ ن کی حاضری کا تناسب 60فیصد تک رہا۔ رپورٹ کے مطابق  مسلم لیگ ن کی  شکیلہ لقمان  کی حاضری100فیصد جبکہ پی ٹی آئی کی پارلیمنٹری سیکرٹری نوشین حامد کی حاضری کا تناسب سب سے زیادہ 97فیصد رہا۔ پنجاب میں وہ خواتین جو سیاست میں سرگرم ہیں انکی اسمبلی میں حاضری کی بات کریں تو ن لیگ کی طاہرہ اورنگزیب92فیصد انکی بیٹی وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب 70فیصد،عائشہ رجب علی 79فیصد، شیزہ فاطمہ خواجہ73فیصد،عائشہ غوث پاشا 63فیصد، مسرت آصف خواجہ ،42فیصد، مائزہ حمید77فیصد انکی کزن زیب جعفر گجر کی اسمبلی میں حاضری کا تناسب 92فیصد رہا۔ دوسری جانب تحریک انصاف کی عندلیب عباس74فیصد،پارلیمنٹری سیکرٹری نول شوزب 74فیصد،چئیر پرسن قائمہ کمیٹی 94فیصد،پارلیمنٹری سیکرٹری ثوبیہ کمال 83فیصد، پارلیمنٹری سیکرٹری روبینہ جمیل79فیصد، پارلیمنٹری سیکرٹری رخسانہ  نوید81فیصد، پارلیمنٹری سیکرٹری وجیہہ قمر 94فیصد،  عاصمہ حدید 95فیصد،پارلیمنٹری سیکرٹری نوشین حامد97فیصد، پارلیمنٹری سیکرٹری ملیکہ بخاری70فیصد، پارلیمنٹری سیکرٹری جویریہ ظفر کی حاضری کا تناسب 71فیصد رہا۔پیپلزپارٹی کی حنا ربانی کھر کا حاضری کا تناسب 31فیصد جبکہ مسلم لیگ ق کی فروخ خان کا تناسب 37فیصد رہا

قانون سازی میں خواتین رکن اسمبلی کا کردار نہ ہونے کے برابر

پنجاب کی 34خواتین میں سے صرف 8خواتین نے قانون سازی کے عمل میں حصہ لیا۔ ان میں سے  مسلم لیگ ن کی5  خواتین , مخصوص نشستوں پر  2 تحریک انصاف  عاصمہ حدید  اور فوزیہ بہرام  جبکہ ق لیگ کی 1خاتون شامل ہیں۔  فافن رپورٹ کے مطابق ن لیگ ایم این اے طاہرہ اورنگزیب  2, ،کرن عمران نے 2,مریم اورنگزیب 1،رومینہ خورشید عالم نے 5 ، شیزہ فاطمہ خواجہ نے دو  مرتبہ قانون سازی کے لئے اسمبلی میں بل پیش کئے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کی عاصمہ حدید  نے 4اور فوزیہ بہرام 2بار قانون سازی کے عمل کا حصہ بنیں۔ مسلم لیگ ق فروخ خان نے 1 بل پیش کیا۔

پنجابَ:قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر خواتین کا کس سیاسی خاندان سے تعلق

ماں بیٹی مخصوص نشست پر رکن اسمبلی ،مریم اورنگزیب وفاقی وزیربرائےاطلاعات ونشریات جبکہ ان کی والدہ طاہرہ اورنگزیب بھی دو مرتبہ قومی اسمبلی کے عہدے پر فائز رہ چکی ہیں۔ مریم اورنگزیب کی خالہ اور طاہرہ اورنگزیب کی بہن نجمہ حمید مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پرسینیٹرہیں۔ تاشفین صفدر، سابق صدرچوہدری فضل الہٰی کی پوتی اور سابق ایم پی اے چودھری صفدرکی صاحبزادی ہیں۔ شزا فاطمہ خواجہ، سابق رکن مجلس شوریٰ خواجہ محمد صفدرکی پوتی، وزیردفاع پاکستان خواجہ آصف کی بھتیجی ہیں،  2013ء میں بھی مخصوص نشست پر ایم این اے تھیں۔ عائشہ رجب بلوچ فیصل آباد سے 2 مرتبہ منتخب رکن قومی اسمبلی رجب علی کی بیوہ ہیں۔ سابق وزیر خزانہ پنجاب عائشہ غوث پاشا سابق وفاقی وزیرحفیظ احمد پاشا کی شریک حیات ہیں۔ زہرہ ودود فاطمی سابق اسپیشل اسسٹنٹ برائے سفارتی امور کی شریک حیات ہیں اور رکن قومی اسمبلی بھی رہ چکی ہیں۔ مسرت آصف خواجہ سابق وزیردفاع خواجہ آصف کی شریکِ حیات ہیں، زیب جعفرسابق ڈپٹی اسپیکر برائے قومی اسمبلی چوہدری جعفراقبال کی بیٹی ہیں۔ زیب جعفر گجر، سابق وزیر مملکت چودھری جعفراقبال اور سابق رکن قومی اسمبلی بیگم عشرت اشرف کی صاحبزادی، سابق رکن پنجاب اسمبلی محمد عمر جعفر کی بہن، رکن قومی اسمبلی مائزہ حمید گجر کی کزن ہیں۔ اس کے علاوہ سابق چئیرمین محمد ذکا اشرف کی بھانجی ہیں۔ ماٗئزہ حمید سابق وزیر مملکت چودھری جعفر اقبال انکے رشتہ دار، رکن قومی اسمبلی زیب جعفرگجر اور سابق رکن پنجاب اسمبلی محمد عمر جعفر کی کزن ہیں۔ وزیر خارجہ، حنا ربانی کھر سابق رکن قومی اسمبلی  ملک غلام نور ربانی کھر کی صاحبزادی اور سابق گورنرغلام مصطفی کھر کی بھتیجی ہیں ۔

پنجاب سے تعلق رکھنے والی مسلم لیگ ن کی ایم این اے  ثمینہ مطلوب نے انٹرویو میں کہا کہ  سیاسی جماعتوں کو موروثی سیاست کو نظر انداز کر کے سیاسی ورکرز کو مخصوص نشستیں دینی چاہیے۔ میرا انتخاب سیاسی ورکرز کی حیثیت سے ہوا ہے میری جماعت نے اپنے حلقے میں سیاسی جدوجہد کی بدولت اسمبلی کا حصہ بنایا ہے۔ میں پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہوں اور اپنے حلقے کی تمام خواتین کے مسائل کوحل کرنے کے لئے اپنی جماعت کو انکی مشکلات سے آگاہ کرتی رہتی ہوں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے جب سیاست کا آغاز کیا تو جنرل الیکشن اور بلدیاتی انتخابات میں اپنی جماعت کی حمایت کے لئے کارنر میٹنگ کرتی تھی مگر اب اتنے سالوں کے بعد میں جلسوں اور سیاسی ریلی میں بھی اپنی سیاسی جماعت کی نمائندگی کرتی ہوں ۔ آخر میں یہی کہوں گی ایک سیاسی ورکر ہی اپنے حلقے کی عوام کی مشکلات کو کم کرسکتا ہے کیونکہ وہ انکی خوشی اورغم میں ساتھ ہوتے ہیں۔

مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین کی قومی اسمبلی میں حاضری کی شرح مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے مگر قانون سازی کے عمل اور اسمبلی کے فلور پر خواتین کی جانب سے اپنی رائے کا اظہار بہت کم نظرآتا ہے جوکہ باعث تشویش ہے۔ اگر خواتین اسمبلی میں  با قاعدگی سے آتی ہیں تو انہیں بھی مرد اراکین اسمبلی کی طرح  ملک کے معاشی، سیاسی، معاشرتی اور نئے قوانین لانے کے عل میں اپنا کردار ادا کرنا چاہے تاکہ انکے انتخاب پر کوئی اعتراض نہ کرسکے۔

وجیہہ اسلم صحافت سے وابستہ ہیں۔