'عمران خان نے نئے آرمی چیف کو متنازع بنانے کے لئے ڈاکیومنٹس تیار کر لیے'

'عمران خان نے نئے آرمی چیف کو متنازع بنانے کے لئے ڈاکیومنٹس تیار کر لیے'
عمران خان نے کہا ہے کہ وہ جمعرات سے لانگ مارچ دوبارہ وزیر آباد سے شروع کر رہے ہیں اور سات سے نو دن میں اسلام آباد پہنچ جائیں گے۔ اسلام آباد پہنچنے کے لئے وقت کا یہ انتخاب بہت اہم ہے۔ عمران خان بضد ہیں کہ اسی دورانیے میں لانگ مارچ ہو کیونکہ اسی دوران نئے آرمی چیف کی تعیناتی ہونی ہے۔ ایسی اطلاعات مل رہی ہیں کہ عمران خان نے نئے آرمی چیف کی تقرری کے معاملے کو متنازع بنانے کی پوری تیاری کر لی ہے اور اس کے لئے اب وہ عنقریب عملی اقدام بھی کریں گے۔ ہمیں ایسی معلومات ملی ہیں کہ عمران خان کے آدمیوں نے آرمی چیف کے امیدوار جرنیلوں کو متنازع بنانے کے لئے کچھ دستاویزات تیار کر لی ہیں اور اپنے لانگ مارچ میں وہ نئے آرمی چیف کے لئے متوقع امیدواروں کو متنازع بنانے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ یہ کہنا ہے معروف تحقیقاتی صحافی اعزاز سید کا۔

یوٹیوب پر اپنے تازہ پروگرام میں عمر چیمہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اعزاز سید نے یہ اہم خبر دی ہے۔ عمران خان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج نہ ہونے والے معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے دونوں صحافیوں کا کہنا تھا کہ واقعہ صوبہ پنجاب میں ہوا ہے اور یہاں پی ٹی آئی کی اپنی حکومت ہے۔ اگر پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہوتی اور پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ ہوتے تو عمران خان اور پوری تحریک انصاف نے پرویز الٰہی پر انگلیاں اٹھانی تھیں کہ وزیر اعلیٰ ایف آئی آر درج نہیں ہونے دے رہا۔

اب جب کہ حکومت ان کی اپنی ہے تو عمران خان اور شاہ محمود قریشی سمیت پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت میں سے کوئی بھی پرویز الٰہی کا نام نہیں لے رہا۔ پی ٹی آئی FIR والے معاملے پر اپنی ذمہ داری نہیں قبول کر رہی اور سارا دباؤ پنجاب پولیس پر ڈال رہی ہے۔ تحریک انصاف اس معاملے کو سیاسی فائدے کے لئے استعمال کر رہی ہے۔

عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر پولیس نے درج کرنی ہے اور اگر مقامی پولیس سٹیشن کا ایس ایچ او یا علاقے کا ڈی پی او یا آر پی او ایسا نہیں ہونے دے رہے تو پرویز الٰہی کو چاہیے کہ وہ آئی جی پنجاب کو اس معاملے میں ہدایات جاری کریں۔



دراصل پرویز الٰہی خود اس معاملے میں ڈانواں ڈول ہیں اور ایف آئی آر درج کرنے کا نہیں کہہ رہے۔ اگر پی ٹی آئی کی مدعیت میں مقدمہ درج نہیں ہوتا تو پولیس ریاست کی مدعیت میں خود بھی پرچہ کاٹ سکتی ہے۔ اگر یہ دونوں کام نہیں ہو رہے تو تحریک انصاف کو چاہیے کہ عدالت میں چلے جائیں اور وہاں سے ایف آئی آر کے بارے میں شق 22 اے کے تحت آرڈر حاصل کر لیں۔

اگر اس کے بعد بھی ایف آئی آر نہیں درج ہوتی تو پھر پی ٹی آئی کو یہ معاملہ پریس کانفرنس میں اٹھانا چاہیے اور سسٹم کو بے نقاب کرنا چاہیے۔ اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ پاک فوج کی جانب سے بھی جنرل فیصل نصیر کا نام ایف آئی آر میں درج ہونے میں رکاوٹ پیدا کی جا رہی ہو، فوج کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔

اعزاز سید کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر درج ہونے سے ضروری نہیں کہ فوری طور پہ گرفتاری بھی ہو جاتی ہے۔ یہ ایف آئی آر درج ہو جانی چاہیے اور پولیس کو چاہیے کہ عمران خان سے ثبوت طلب کرے۔ ایف آئی آر کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں ہے۔ ماضی میں ہمارے وزرائے اعظم کے خلاف بھی ایف آئی آر کٹوائی جاتی رہی ہے لیکن پاک فوج ایک مثال نہیں قائم ہونے دینا چاہے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پی ٹی آئی پورے ملک میں جرنیلوں کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے پہ آ جائے گی۔ ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اعزاز سید کا کہنا تھا کہ پاک فوج سیاست سے تو دور ہو ہی رہی ہے، اسے چاہیے کہ انتظامی معاملات سے بھی خود کو دور کر لے۔

پروگرام میں اس دلچسپ نکتے پر بھی بحث ہوئی کہ ایک جانب عمران خان ملک کو امریکہ کی غلامی سے نکالنے کی بات کرتا ہے، جب کہ دوسری جانب وہ اپنی ہی حکومت والے ایک صوبے میں اتنا بے بس نظر آ رہا ہے کہ اس سے ایف آئی آر نہیں درج کروائی جا رہی۔ عمران خان جس خوف سے سب کو نکلنے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں، پہلے اپنے وزیر اعلیٰ کو تو اس خوف سے نکالیں۔ یہ عمران خان کی ساکھ کا امتحان ہے۔