پاکستان کو اسلامی جمہوریہ نہیں، جمہوریہ 'ون پرسنٹ' پکارنا چاہیے

پاکستان کی معیشت کا مکمل انحصار یہاں کی چھوٹی سی اشرافیہ کی کامیابی پر ہوتا ہے۔ پاکستان کی معیشت اسی لیے ترقی پذیر رہ گئی ہے کیونکہ یہ ملک کے بیش تر لوگوں کی صلاحیتوں کو خاطر میں ہی نہیں لاتی۔

پاکستان کو اسلامی جمہوریہ نہیں، جمہوریہ 'ون پرسنٹ' پکارنا چاہیے

ایک سال قبل Tedx Talk میں، میں نے ایک دلیل پیش کی تھی کہ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ نہیں بلکہ جمہوریہ ون پرسنٹ پکارا جانا چاہئیے۔ یہاں مواقع، طاقت اور دولت محض ایک فیصد آبادی پر مشتمل اوپری طبقے تک محدود ہے جبکہ یہاں بسنے والے باقی کے 99 فیصد لوگوں کو کامیابی حاصل کرنے کے مواقع ہی نہیں مہیا کیے جاتے۔

یوں پاکستان کی معیشت کا مکمل انحصار یہاں کی چھوٹی سی اشرافیہ کی کامیابی پر ہوتا ہے۔ پاکستان کی معیشت اسی لیے ترقی پذیر رہ گئی ہے کیونکہ یہ ملک کے بیش تر لوگوں کی صلاحیتوں کو خاطر میں ہی نہیں لاتی۔

فرض کریں ہم نے کرکٹ ٹیم بنانی ہے اور ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم صرف ان کھلاڑیوں کا انتخاب کریں گے جو نومبر کے دوسرے ہفتے میں پیدا ہوئے ہیں۔ اس طرح منتخب ہونے والے کھلاڑیوں سے بننے والی ٹیم یقینی طور پر ایک کمزور ٹیم ثابت ہوگی کیونکہ یہ آبادی کے محض 2 ہی فیصد حصے میں سے منتخب کی گئی ہے۔ یہ ٹیم بہت سارے ایسے عظیم لوگوں کی صلاحیتوں سے محروم رہے گی جو کئی سالوں تک ہمارے معاشرے میں پیدا ہوتے رہے ہیں۔ بعینہ اسی طرح کے غیر منصفانہ اور غیر معقول طریقے سے ہم اپنے اوپر کے لوگوں کو منتخب کرتے ہیں۔ جس طرح ہماری بنائی ہوئی کرکٹ ٹیم ہارتی رہتی ہے، اسی طرح ہم بحیثیت قوم مسلسل شکست کھا رہے ہیں۔

اس سال 40 لاکھ سے زائد پاکستانی بچے 18 سال کی عمر کو پہنچیں گے۔ ان میں سے 25 فیصد سے کم انٹرمیڈیٹ درجے کا امتحان پاس کریں گے اور تقریباً 30 ہزار او لیول اور اے لیول کا امتحان پاس کریں گے۔ 30 لاکھ سے زیادہ بچے جو کل بچوں کا 75 فیصد بنتے ہیں، انٹرمیڈیٹ تک تعلیم مکمل ہی نہیں کر سکے ہوں گے کیونکہ پاکستان میں آدھے بچے اسکول جا ہی نہیں پاتے)۔ اے لیول پاس کرنے والے یہی 30 ہزار بچے ہماری اعلیٰ یونیورسٹیوں میں پہنچیں گے، ان میں سے بہت سارے تعلیم حاصل کرنے بیرون ملک بھی جائیں گے اور آگے چل کر یہی ہمارے لیڈر بنیں گے۔ یہ 30 ہزار بچے ایک سال میں 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے تمام بچوں کا محض 1 ہی فیصد حصہ بنتے ہیں۔ انہی 1 فیصد پاکستانیوں کے لئے پورا ملک مزدوری کرتا ہے۔ صورت حال اس سے بھی بڑھ کر بھیانک ہے۔

پاکستان میں تقریباً 4 لاکھ سکول ہیں۔ پھر بھی کچھ سالوں میں ہمارے سپریم کورٹ کے تعینات ہونے والے ججز کی آدھی تعداد اور وفاقی کابینہ کے بیش تر اراکین صرف ایک ہی سکول سے آتے ہیں؛ ایچی سن کالج لاہور۔ کراچی گرامر اسکول غیر معمولی تعداد میں اعلیٰ پیشہ ور افراد اور امیر ترین کاروباری نوجوان پیدا کرتا ہے۔ اگر ہم تین امریکی سکولوں، کیڈٹ کالج حسن ابدال اور چند مہنگے پرائیویٹ سکولوں کو بھی شامل کر لیں جن میں سے ہر سال مجموعی طور پر بمشکل 10 ہزار بچے فارغ التحصیل ہوتے ہیں، تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہی چند ہزار بچے مستقبل میں پاکستان کے بیشتر شعبوں کی سربراہی کر رہے ہوں گے۔ بالکل اسی طرح جیسے آج ان کے باپ ان شعبوں کے سربراہ ہیں۔

پانچ دہائیاں قبل ڈاکٹر محبوب الحق نے 22 ایسے پاکستانی خاندانوں کی نشاندہی کی تھی جو پاکستان میں مینوفیکچرنگ کے دو تہائی حصے جبکہ بینکنگ اثاثوں کے پانچ میں سے چار حصوں پر قابض ہیں۔ یہ حقائق دولت کے غیر معمولی ارتکاز کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ آج بھی ہم ایسے خاندانوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں، پاکستان کی قومی دولت کا بڑا حصہ جن کے ہاتھوں میں ہے۔

دولت کا ایک ہی جگہ جمع ہو جانا صرف پاکستان ہی میں نہیں ہوتا۔ عالمی سطح پر اور خاص طور پر ترقی پذیر دنیا میں بھی یہی ہوتا ہے۔ اصل مصیبت یہ ہے کہ ڈاکٹر محبوب الحق کی نشان دہی کو پانچ دہائیاں گزر چکی ہیں اور ان دہائیوں کے بعد آج بھی کم و بیش وہی خاندان پاکستان کی قومی دولت پر قابض ہیں جو پچاس سال پہلے قابض تھے۔

ایک کامیاب معیشت نئے کاروباری افراد کو ابھرنے کا موقع دیتی رہتی ہے جو نئی نئی صنعتوں اور تکنیکوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ اس معیشت میں امیر ترین افراد بنتے جاتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ یہاں دولت، طاقت اور مواقع ایک ہی اشرافیہ کے ہاتھوں تک محدود ہیں جو ہر دور میں کم و بیش یکساں رہتی ہے۔

امریکہ کے امیر ترین تاجروں بل گیٹس، مارک زکربرگ، جیف بیزوس وغیرہ کو دیکھ لیں، ان میں سے کوئی بھی اپنی خاندانی دولت کے بل بوتے پر امیر ترین درجے پر نہیں پہنچا۔ پچھلے زمانے کے امیر ترین لوگ جیسے کارنیگیز، راک فیلر، وغیرہ آج کے دور میں بھی امریکی کاروباری سرگرمیوں پر حاوی نہیں ہیں۔ سابق امریکی صدور کو دیکھیں؛ رونلڈ ریگن کے والد سیلز مین تھے، بل کلنٹن کے والد شراب کے عادی تھے اور باراک اوباما کی پرورش باپ کے بغیر صرف ماں نے کی تھی مگر امریکہ نے انہیں آگے آنے کا موقع دیا۔ ہمارے ہاں کم و بیش ہر پاکستانی کی کامیابی کا انحصار اس کے باپ کی سماجی اور مالی حیثیت پر منحصر ہوتا ہے۔

پاکستان میں ڈاکٹروں کے بچے ڈاکٹر بنتے ہیں، وکیلوں کے بچے وکیل بنتے ہیں، علما کے بچے عالم بنتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ یہاں تک کہ گلوکاروں نے بھی اپنے گھرانے بنا رکھے ہیں۔ یہاں چند ایسے کاروباری، سیاسی، فوجی اور بیوروکریٹ خاندان ہیں جو کئی نسلوں سے سیٹھ، سیاست دان، جرنیل اور اعلیٰ افسران پیدا کرتے آ رہے ہیں۔ ایسے معاشرے میں ڈرائیور کا بیٹا ڈرائیور بننے پر مجبور ہوتا ہے، جمعدار کے بیٹے کا مقدر یہی ہوتا ہے کہ وہ بڑا ہو کر جمعدار بنے اور دوسروں کے گھروں میں کام کرنے والی خواتین کی بیٹیاں بھی نوکرانیوں سے زیادہ کچھ نہیں بن پاتیں۔

اعلیٰ کاروباری اور دیگر پیشہ ور افراد کا تعلق اس اشرافیہ سے ہوتا ہے جو شہری علاقوں میں بستی ہے اور انگریزی سکولوں سے پڑھ کے آتی ہے۔ خاص طور پر ان دو سکولوں سے جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ طاقت اور اثر و رسوخ رکھنے والے اکا دکا شعبے ہی ایسے ہیں جن میں اشرافیہ کے باہر سے بھی لوگ شامل ہو سکتے ہیں اور یہ بیوروکریسی اور فوج ہیں مگر یہ بھی اس طرح ڈیزائن کیے گئے ہیں کہ ایک بار جب ان کے لوگ اعلیٰ عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں تو ان کا طرز زندگی بھی دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے اشرافیہ کے ساتھیوں کی طرح نو آبادیاتی دور کے گورا صاحبوں جیسا ہو جاتا ہے جو خانساماؤں، نائب قاصدوں اور نوکرانیوں پر مشتمل بھورے لوگوں سے مکمل طور پر الگ تھلگ ہو جاتے ہیں۔

سیاسی طاقت بھی سیاسی جماعتوں کے پاس نہیں ہوتی بلکہ شخصیات کے پاس ہوتی ہے۔ ایک مذہبی سیاسی جماعت کو چھوڑ کر، پاکستان میں ایک بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے جس کے سربراہ کو کبھی تبدیل کیا گیا ہو۔ مقامی سطح تک کی سیاست بھی ایسے لوگوں پر مبنی ہوتی ہے جن کا تعلق 'الیکٹ ایبلز' کے خاندانوں سے ہوتا ہے یعنی یہ ایسے نمائندے ہوتے ہیں جن کے باپ اور دادا بھی اس سے پہلے قانون ساز اسمبلیوں کے لئے منتخب ہوتے آئے ہیں۔

نوبل پرائز اگر کسی پاکستانی کو نہیں ملتا تو اس میں ایسی اچنبھے کی کون سی بات ہے؟ ہم اپنے 1 فیصد سے بھی کم بچوں کو صحیح طریقے سے تعلیم دیتے ہیں۔ یقیناً ہمارے پاس ذہین اور باصلاحیت لوگ موجود ہیں۔ لیکن ہمارے زیادہ تر ہونہار بچے سکول ہی نہیں جا پاتے اور طبیعات دان اور ماہرین معیشت بننے کے بجائے نوکر چاکر بننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پاکستان ہمارے عوام کے ٹیلنٹ اور امنگوں کا قبرستان ثابت ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے 40 فیصد پاکستانی بچے نشوونما کے لحاظ سے کمزور ہیں (اس سے غذائیت کی مسلسل کمی کی نشاندہی ہوتی ہے)؛ مزید 18 فیصد مر جاتے ہیں (غذائی قلت کے باعث وزن میں شدید کمی آنے کی وجہ سے) اور 28 فیصد کا وزن عمر کے حساب سے کم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے 86 فیصد بچے بیش تر راتیں بھوکے سو کر گزارتے ہیں اور پانچویں سالگرہ سے پہلے پہلے مرنے کے خطرے سے دوچار رہنے کے حساب سے جنوبی ایشیا میں سب سے آگے ہیں۔ ہماری حقیقت دراصل یہی ہے۔

پاکستان ایسے لوگوں کے لئے بہترین ملک ہے جن کا تعلق کسی سماجی یا گالف کلب سے ہوتا ہے۔ لیکن اگر آپ بھوکے بچے ہیں، بے زمین کاشت کار ہیں، مدرسے کے طالب علم ہیں، دیہاڑی دار باپ ہیں یا دوسرے لوگوں کے بچوں کی پرورش کرنے والے نوکر اور آیا ہیں تو یہ ملک آپ کے لئے ہرگز اچھی جگہ نہیں ہے۔ متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے بیش تر خاندانوں کو پاکستان موافق نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس طبقے کے بیش تر لوگ غیر مطمئن زندگیاں گزارتے ہیں اور مسلسل ایک دائرے میں گھومتے رہنے پر مجبور رہتے ہیں۔

یہاں کسی فرد کے باپ کی سماجی و مالی حیثیت اس کی کامیابی کی سب سے بڑی ضمانت ہوتی ہے۔ ذہانت، قابلیت اور کام کی اخلاقیات کا کامیابی میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ بلاشبہ بعض عام لوگ بھی اشرافیہ کا حصہ بننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگر یہ مستثنیات ہیں جو اس اصول کو ثابت کرتے ہیں۔

پاکستان کی اشرافیہ دولت اور طاقت کو نسل در نسل منتقل کرنے اور باقی سب لوگوں کو اس دائرے سے باہر رکھنے کا پورا پورا انتظام کرتی ہے۔ یہی سب سے بڑی وجہ ہے جو پاکستان میں بسنے والے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو بدستور غریب رہنے پر مجبو کر رہی ہے اور اسی وجہ سے اشرافیہ کے دائرے کو توڑنا ضروری ہو گیا ہے۔ اس وقت ہمیں متحد ہونے اور بحیثیت قوم ترقی کرنے کے لئے ایک نئے سماجی معاہدے کی اشد ضرورت ہے۔




پاکستان کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماع کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔