'فوج اپنی مرضی کا آرمی چیف لگوانے کے لیے سمری روک کے بیٹھی ہے'

'فوج اپنی مرضی کا آرمی چیف لگوانے کے لیے سمری روک کے بیٹھی ہے'
ایک جانب آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی کے سربراہان پریس کانفرنس میں دعویٰ کرتے ہیں کہ فوج کا ادارہ نیوٹرل ہے اور ہم سیاسی معاملات سے الگ ہو گئے ہیں جبکہ دوسری جانب نئے آرمی چیف کی تقرری کے لئے سمری بھجوانے میں تاخیر سے کام لیا جا رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج کے ذہن میں مستقبل سے متعلق ایک مخصوص ڈیزائن ہے اور وہ کسی خاص بندے کو آرمی چیف لگوانا چاہتی ہے۔ فوج اس منصوبے کے تحت سمری روک کے بیٹھی ہے کہ وہ جنرل عاصم منیر کی ریٹائرمنٹ کا دن گزارنا چاہتی ہے۔ فوج چاہتی ہے کہ عمران خان 26 نومبر کو پنڈی پہنچ جائے اور فوج عمران خان کے دھرنے کو سامنے رکھ کر حکومت سے اپنی مرضی کا آرمی چیف لگوا سکے۔

یوٹیوب پر اپنے تازہ وی لاگ میں تحقیقاتی صحافی اسد طور کا کہنا ہے کہ گریڈ 22 کے ایک افسر کی تعیناتی پر پورے ملک میں غیر یقینی صورت حال پیدا کر دی گئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف ڈرے ڈرے بیٹھے ہیں۔ وزیر دفاع بھی خوف زدہ دکھائی دے رہا ہے اور سمری منگوانے کے لئے خط لکھے جا رہے ہیں۔ تذبذب کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ وزیر دفاع بھی ابھی یقین سے کچھ نہیں کہہ پا رہے کہ سمری کس دن تک ہمارے پاس پہنچ جائے گی۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کہہ رہے ہیں کہ یہ وفاقی حکومت کی ناکامی ہے جو اب تک سمری نہیں موصول ہوئی۔ اسی طرح وفاقی وزیر خرم دستگیر آرمی چیف کی تعیناتی میں اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ شاید عدالت سے رجوع کرنا پڑے۔

اسد طور کا کہنا تھا کہ فوج کے ذہن میں مستقبل سے متعلق کوئی ڈیزائن نہ ہوتا تو وہ 18 نومبر کو لیفٹیننٹ جنرل وسیم اشرف کی ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد سمری بھجوا دیتی۔ اگر تب سمری بھجوا دی جاتی اور اگر عمران خان صدر کے ذریعے سمری رکوانے کی کوشش کرتے یا کوئی اسے عدالت میں لے کے جاتا تو حکومت کے پاس اتنا وقت ہوتا کہ وہ 29 نومبر تک یہ مسئلہ حل کر لیتی مگر ایسا لگ رہا ہے فوج جان بوجھ کے اس معاملے کو طول دے رہی ہے۔ وہ اسی لئے سمری نہیں بھجوا رہی کہ کسی طرح 27 نومبر کی تاریخ گزار لی جائے۔ اس معاملے پر صدر عارف علوی بھی فوج کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اگر یہ معاملہ عدالت میں جاتا ہے تو بھی منصوبے کے عین مطابق 27 تاریخ تو گزر ہی جائے گی۔

رانا ثناء اللہ کہہ رہے ہیں کہ سمری آئے نہ آئے ہم ایک دو روز میں آرمی چیف تعینات کر دیں گے۔ یہاں یہ صورت حال بن جائے گی کہ اگر صدر عارف علوی کے پاس ایک ایسا نام آرمی چیف کے لئے بھجوایا جاتا ہے جسے آرمی چیف لگانے کے حق میں نہ ہی فوج ہے اور نہ عمران خان تو وہ سمری روک کے بیٹھ جائیں گے۔ زیادہ دنوں تک نہ بھی روکیں تو کم از کم وہ 27 نومبر تک تو روک ہی سکتے ہیں۔

اسد طور نے کہا کہ فوج نہیں چاہتی تھی کہ اگلا آرمی چیف عمران خان لگائے اسی لئے اسے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے الگ کروا دیا اور اب ایک مرتبہ پھر فوج یہ نہیں چاہ رہی کہ مسلم لیگ (ن) اپنی مرضی کا آرمی چیف لگائے۔ اسی لئے پہلے عمران خان کو فوج نے یہ پیغام دیا کہ ان کی مرضی کا بندہ آرمی چیف والی فہرست میں ہی شامل نہیں کیا جس پر وہ سڑکوں پر آ گئے اور اب عمران خان کو واپس اپنے کیمپ میں بلانے کے لئے فوج (ن) لیگ کو آرمی چیف نہیں لگانے دے رہی۔ اب عمران خان کو نیا پیغام بھجوایا گیا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے خلاف سازش میں نہ فوج ملوث تھی اور نہ ہی امریکہ۔ یہ منظرنامہ آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے کچھ نہ کچھ ہم آہنگی پیدا ہونے کے بعد سامنے آیا ہے۔

دوسری جانب پوری دنیا ہماری جانب دیکھ رہی ہے کہ پاکستان کے حالات کسی کروٹ بیٹھیں اور ہم اگلا لائحہ عمل بنائیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات رکے ہوئے ہیں۔ شہزادہ سلمان نے پاکستان آنا تھا مگر وہ دورہ منسوخ ہو گیا۔ چین نے پاکستان کو امداد دینی ہے مگر وہ بھی ابھی دیکھ رہے ہیں کہ آرمی چیف کی تعیناتی ہو جائے، ملک میں استحکام آئے اور ہم امداد دیں۔