نئے آرمی چیف کو درپیش چیلنج

نئے آرمی چیف کو درپیش چیلنج
نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو ایسے مسائل اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا جو ان سے پہلے کسی آرمی چیف کے حصے میں نہیں آئے۔ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم نے 26 اکتوبر کو اپنی غیر معمولی پریس کانفرنس میں پاک فوج کے مستقبل کا جو خواب قوم کو دکھایا تھا  اب اس کے شرمندہ تعبیر ہونے کا وقت آن پہنچا ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے قوم کے سامنے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کے عسکری اداروں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب پاکستان کی فوج اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریاں نبھائے گی اور  پاکستان کی سیاست پر اثر انداز نہیں ہو گی۔  نئے آرمی چیف کے لیے پہلا چیلنج یہ ہو گا کہ اب پوری قوم نئے آرمی چیف سے یہ امیدیں باندھ کے بیٹھی ہے ڈی جی آئی ایس آئی کی بات صداقت اور نیک نیتی پر مبنی تھی اور محض ایک بیان نہیں تھا۔  اس کے علاوہ نئے آرمی چیف کے لیے دوسرا بڑا چیلنج عوام کے اندر فوج کے بارے میں موجودہ سیاسی حالات کی وجہ سے جو غلط تاثر سرایت کر گیا ہے اس کو بہتر بنانا ہے۔ تیسرا بڑا چیلنج جو جنرل عاصم منیر کو درپیش ہو گا وہ خود کو کسی ایک سیاسی پارٹی کی سیاست اور بیانیے سے دور رکھنا ہے۔ بلاشبہ نئے آرمی چیف کے لیے ان چیلنجز سے نمٹنا ایک کٹھن اور مشکل مرحلہ ہو گا۔

اپریل 2022 میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد تو گویا ملک کی سیاست میں ایک بھونچال آ گیا تھا۔ سیاسی جلسوں سے لے کر سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر ایک ہی موضوع زیر بحث تھا جس کا محور پاک فوج تھی۔ پاکستان میں عسکری اداروں کے سیاسی کردار کے اوپر پہلے بھی تنقید ہوتی رہی ہے مگر اس بار جو ہو رہا تھا غیر مثالی تھا۔ پاک فوج اور اس کے اداروں کے لیے وہ زبان اور اصطلاح استعمال کی گئی جن کو دہراتے ہوئے ایک عام پاکستانی عجلت اور شرم محسوس کرتا ہے۔ یہ کمپین جب اپنے عروج پر تھی تو اسی دوران ایک مشہور صحافی کا بےرحمانہ قتل ہو گیا جس کا الزام بھی پہلے سے چل رہی منظم کارروائی کا حصہ بن گیا۔ حالات اس قدر ناقابل برداشت ہو گئے کہ پہلی دفعہ ڈی جی آئی ایس آئی کو عوام کے سامنے آ کر پاک فوج کی اور اپنے ادارے کی صفائی دینا پڑی۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے جہاں اس بات کا اعتراف کیا کہ ماضی میں پاک فوج کے اداروں سے غلطیاں بھی ہوئی ہیں وہیں پر انہوں نے قوم کے سامنے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ پاکستان کی فوج اور اسکے ذیلی اداروں نے ماضی کے اور موجودہ حالات کے پیش نظر  یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب پاک فوج اور اس کے ادارے اپنی آئینی اور قانونی حد بندیوں کا احترام کرتے ہوئے ملکی سیاست سے خود کو دور رکھیں گے۔ یہ ایک بڑا 'آئیڈیل' ہے جو ڈی جی آئی ایس آئی نے بیان کیا تھا. اس آئیڈیل کو عملی جامہ پہنانا نئے آرمی چیف کے لئے ایک بڑا چیلینج ہو گا۔ جنرل عاصم منیر کو اپنے فیصلوں سے قوم کو ایک واضح اور روشن پیغام دینا ہو گا کہ پاک فوج نے واقعی ماضی اور حال سے سبق سیکھتے ہوئے غیر سیاسی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

نئے آرمی چیف کے لیے دوسرا بڑا چیلنج عوام کے ذہنوں میں پاک فوج کے لیے پائی جانے والی غلط فہمیوں سے نمٹنا ہے۔ موجودہ سیاسی حالات کی وجہ سے جس طبقے اور ادارے نے سب سے زیادہ زخم کھائے اور نقصان اٹھائے ہیں وہ پاکستان کی فوج اور اس کے ادارے ہیں۔ جو فوج اپنی عوام کی نظروں میں اپنی اہمیت گنوا بیٹھے یا ان کا اعتماد کھو دے تو یہ دنیا کی کسی بھی فوج کے لیے سب سے بڑی شکست اور ناکامی ہو تی ہے۔ پاکستان جیسے سیکیورٹی کے مسائل اور طبقاتی تقسیم والے ملک میں سیکیورٹی اداروں پرسے عوام کے اعتباراوروقارکا اٹھ جانا ایک خطرناک اور تشویش ناک امر ہے۔ جنرل عاصم منیر کو عوام کے اندر پاک فوج کے وقار کی بحالی کے لیے ایک مؤثراور مسلسل “Healing Process” کو شروح کرنا ہو گا۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے نئے آرمی چیف کو عوام کی سوچ اور ان کے موجودہ مائنڈ سیٹ کے قریب رہنا ہوگا تا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لیے عوام کو فوج اور اس کے اداروں کے خلاف استعمال نہ کر سکے۔

اسی طرح نئے آرمی چیف کے لیے تیسرا بڑا چیلنج خود کو سیاست اور سیاسی وابستگیوں سے دور رکھنے کے ساتھ ساتھ کسی بھی ایک سیاسی پارٹی اور اس کے سیاسی بیانیے سے دور رکھنا ہو گا۔ پاکستان میں موجودہ سیاست، ریاست اور ان سے وابستہ اداروں نے ایک خطرناک پوزیشن لے رکھی ہے جس کو دیکھو کہیں نہ کہیں کسی  نہ کسی کا حمایتی بنا ہو ا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے عموماً ووٹر اور حمایتی ہوا کرتے ہیں مگر ملکِ بدنصیب میں سیاسی پارٹیوں کے جج، بیوروکریٹ، اور صحافی بھی ہیں۔ اب تو اس گروپ میں مزید اضافہ ہو گیا ہے کہ پا ک فوج کے جنرل بھی سیاسی پارٹیوں کے سیاسی مقاصد کی بھینٹ چڑھتے نظر آ رہے ہیں۔ نئے آرمی چیف کو یہ فیکٹری بند کرنا ہو گی جہاں سے سیاسی پارٹیوں کے اپنی اپنی مرضی کے اور اپنی پسند کے ایجنڈے کی تکمیل اور ترویج کے لیے فوج کے جنرلز حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ جنرل عاصم منیر کو اس مقصد کے لیے اپنے ادارے اور اس کے آفیسرز کی باقاعدہ “De-programming”  کرنا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی باور کرانا ہو گا کہ جنرل صرف عوام اور ریاست کے ہوتے ہیں نہ کہ سیاسی پارٹیوں کے۔ اس مشکل مرحلے کا آغاز ان کو خود اپنی ذات سے کرنا ہو گا۔ کیوں کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے جہاں ایک پارٹی دلبراشتہ ہے تو ایک دوسری پارٹی بظاہر خوش بھی نظر آرہی کہ جیسے اب ان کا بندہ آ گیا ہے۔ اگر نئے آرمی چیف خود کو سیاسی پارٹیوں اور ان کے بیانیے سے دور رکھنے میں کامیاب ہو گئے تو ادارے کے اندر سے بھی اس غیر ریاستی اور غیر جمہوری ناسور کا خاتمہ کرنا ممکن ہو سکے گا۔

پاکستان جیسے گروہوں، فرقوں، برادریوں اور علاقوں میں بٹے ہوئے ملک میں یہ ممکن نہ ہو گا کہ فوج اور اس کے اداروں کا پاکستان کی سیاست میں کردار مکمل طور پر ختم ہو جائے۔ ہمارا بحیثیت قوم ایک مسئلہ ہے کہ ہم اپنے لیے اپنی استطاعت سے بلند اور غیر حقیقی ٹارگٹ سیٹ کرتے ہیں جس کی بدولت کچھ عرصے بعد مایوس ہو کر واپس اسی جگہ پر آ کر کھڑے ہوتے ہیں جہاں سے سفر شروع کیا تھا۔ نئے آرمی چیف کو عملیت پسندی اور حقیقت پسندی سے چلنا ہو گا جس میں ان کو فوج، سیاست اور انتظامی امور میں ایک توازن رکھنے کی ضرورت ہو گی۔ ان کو پرانے زخموں پر مرہم رکھنے کے ساتھ ساتھ نئی راہوں کا بھی تعین کرنا ہو گا۔ اس کٹھن سفر اور مشکل چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ان کو دو چیزوں سے تمسک رکھنے کی ضرورت ہو گی: جس میں ایک پاکستان کا آئین ہے اور دوسرا پاکستان کی عوام۔

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔