طاقت کا کھیل تماشہ جہاں کچھ کردار مُہرے تو کچھ کٹھ پُتلیاں

طاقت کا کھیل تماشہ جہاں کچھ کردار مُہرے تو کچھ کٹھ پُتلیاں
کل ایک ٹویٹ دیکھنے کو ملا جس میں پرنس کریم آغا خان کو یہ کہتے ہوئے نقل کیا گیا کہ ضیاء الحق نے ان کے سامنے اعتراف کیا کہ ان کی اسلامائزیشن کی پالیسی بہت بڑی غلطی تھی کیونکہ اس نے ملک میں فرقہ واریت کو جنم دیا۔ اس تاسف میں بہت دیر ہو چکی تھی، ملک ضیاء الحق کی سیاسی نا عاقبت اندیشی کو بھگت چکا تھا اور بھگت رہا ہے۔ ملک مصائب کا گڑھا بن چکا ہے اور ہمیں نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔ جنونیت عوام کا خون مانگ رہی ہے۔ اسے مزید خون کی ضرورت ہے کیونکہ یہ 80 ہزار لوگوں کے خون سے سیر نہیں ہو سکی لیکن ریاست نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے ابھی تک سبق نہیں سیکھا۔ ہاں کچھ سالوں بعد ہمیں طاقتوں کی راہداریوں سے پشیمانی کی خبریں آتی ہیں۔ راہداریوں سے بازگشت سنائی دیتی ہے 'ہم نے غلطیاں کیں اور اب ہم اپنی غلطیوں کو درست کرنے کا عہد کرتے ہیں۔' اور وہ عہد کبھی پورا نہیں ہوتا۔

مرتضٰی حیدر نے ڈان کے 1 نومبر 2016 کے شمارے میں ہم پاکستانیوں کے دکھوں کا شاندار خلاصہ بیان کیا تھا:
"پاکستانی معاف کرنی والی قوم ہے۔ وہ جو مر جاتے ہیں ان کو تو جلد بخش دیتے ہیں۔ سول اور ملٹری ڈکٹیٹر، فاشسٹ، نفرت پھیلانے والے مولوی، ان سب کے پیروکار اور ان پر آندھی عقیدت رکھنے والے ہزاروں پیدا ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات تو ان سول، ملٹری ڈکٹیٹرز کے مزارات تک تعمیر ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں فوجی آمر قدرے خوش قسمت ہوتے ہیں۔ ان کے نامور محافظوں کی ایک فوج، وردی میں اور عام شہری کے لباس میں، اس سنہری دور کی تعریفیں یہ کہتے گا رہی ہوتی ہے کہ جب کبھی ’جنرل صاحب‘ حکومت کرتے تھے۔ وہ ان دنوں کو یاد کرکے آہیں بھرتے ہیں جب ان کے دور میں شہد اور دودھ ندیوں اور کھلے نالوں میں بہتا تھا اور جب ملک کی معاشی ترقی نے جنوبی کوریا یا کسی دوسرے ایشیائی شیر یا بلی کو پچھاڑ دیا تھا۔"

ہر آمر اپنے ساتھ نسخہ کیمیا ساتھ لایا۔ وہ نسخہ کیمیا غریب عوام کے کام تو نہ آ سکا البتہ ان کے خاندان کے دن سنور گئے۔ یہ ضرور ہوا کہ ملک مزید پسماندگی کا شکار ہوا۔

1997 پاکستان میں الیکشن کا سال تھا۔ عمران خان ڈیرہ غازی خان میں الیکشن مہم کے سلسلے میں آئے۔ میں ان دنوں اس شہر کے کالج میں روزی روٹی کے دھندوں میں دھنسا ہوا تھا۔ روز ضیاء الحق کی باقیات میرے لیے نیا تماشا سجاتی اور میں ان بچھائے کانٹوں سے روز نئے راستے تلاش کرتا۔ عمران خان کی آمد کا سن کر میں بھی جلسہ گاہ جانے کا متمنی ہوا۔ شہر کے وسط میں پاکستانی چوک ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ جگہ پاکستان کے وسط پہ ہے، میں جلسہ تھا۔ شام میں جب میں وہاں پہنچا تو عمران خان جا چکے تھے اور کوئی 50 کے لگ بھگ ان کے سامعین جلسہ گاہ سے واپس لوٹ رہے تھے۔ الیکشن کے نتائج تاریخ ہیں، ریکارڈ مل جاتا ہے، خان کی کارکردگی سامنے آ جائے گی۔

طاقت کی راہداریوں میں 1988 سے ایک نئے کھیل کا آغاز ہو چکا تھا۔ سیاستدان شطرنج کے مہرے تھے اور بساط بچھانے والے مرصع و مرقع لباس پہنے اپنی چالیں چلتے۔ جیسے ہی نواز شریف نے آئین میں درج شق b (2) 58 کا خاتمہ کیا، طاقت کی راہداریوں میں کھلبلی مچی اور پھر مرصع لباس والوں کو خود آنا پڑا۔ اب مہرے منہ زور ہو رہے تھے۔ مہروں کو ایسا درس دیا کہ ابھی تک وہ مارے مارے پھرتے ہیں۔ ایک تو چڑیا کی طرح لیاقت باغ سے نکلتے وقت بھون ڈالی گئی۔ دوسرا مہرہ ابھی بھی اپنی سرزمین پہ قدم نہیں رکھ سکتا۔ فیصلہ ہوا کہ مڈل کلاس سیاست کو فروغ دیا جائے اور خود چارپائی کی دوسری طرف بیٹھ کے ڈوریں ہلائی جائیں۔ دیہاتوں میں کٹھ پتلیوں کا تماشہ تو آپ نے دیکھا ہوگا۔ تیسرا مہرہ ڈھونڈا گیا۔ پہلے اسے یہ زعم دیا کہ وہ قوم کا مسیحا ہے پھر قوم کو نوید ہوئی کہ مسیحا مل گیا۔ اب قوم کے دلدر دور۔ کچھ پرانے بینڈ باجے والے ڈھونڈے گئے ان کے منہ میں باجا ٹھونس دیا گیا۔ جو دن رات ایک ہی دھن بجانے لگے؛ 'میرا پیا گھر آیا میں شکر ونڈ اں'۔ شکر بنٹی، پیا دندناتا ہوا میدان میں آیا، اس نے وہ گرد اڑائی کہ اب کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا۔ اب تو مرصع لباس بھی گرد آلود ہے۔

یہ متوسط طبقے کی طاقت کا کھیل تھا۔ کچھ جنگجو میدان میں تھے۔ اب وہ ایک دوسرے کو مات دینے کی ٹھان چکے تھے۔ مسیحا بھی دھول چاٹتا اپنی اڑائی گرد میں مٹی مٹی ہوا۔ اسی دوران پھر طاقت کی راہداریوں سے باز گشت سنائی دی؛ 'جھوٹا بیانیہ تیار کیا گیا'۔ پس پردہ یہ کہنا تھا اب ایسا نہیں ہوگا۔ مگر ملک تو ڈوب چکا۔ اب نہ غریب آدمی کے پاس دوا ہے، نہ روزی ہے، نہ تن ڈھانپنے کو لباس ہے، نہ بچوں کو تعلیم دلوانے کے لیے کوئی وسیلہ۔ ہر جانب گرد ہی گرد ہے۔ جب سب لٹ جاتا ہے تو پھر محض غلطیوں کا اعتراف کیسے مداوا کر سکتا ہے؟