قائد اعظم یونیورسٹی میں شہباز شریف، عارف علوی قبضہ مافیا کے ساتھ مل گئے، یا بے بس ہیں

قائد اعظم یونیورسٹی میں شہباز شریف، عارف علوی قبضہ مافیا کے ساتھ مل گئے، یا بے بس ہیں
پاکستان کی اولین سرکاری یونیورسٹی کا تحفظ کرنے والے یونیورسٹی کی زمین کو بچانے کے لیے ایک جذباتی جنگ لڑ رہے ہیں اور یہ پاکستان کی روح کو بچانے کی جنگ ہے۔ اس وقت ملک کی اکلوتی وفاقی یونیورسٹی کی بقا داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس جنگ کا نتیجہ یہ ثابت کرے گا کہ ہماری قومی ترجیحات کیا ہیں۔

کیا تعلیمی اداروں کو سڑکیں بنانے اور سیاست دانوں کے لیے رہائش گاہیں تعمیر کرنے پر قربان کر دینا چاہیے؟ کیا عوامی مزاحمت زمینوں پر قبضہ کرنے والوں اور بدعنوان اہلکاروں کے لالچ پر غالب آ سکتی ہے؟ ان سوالوں کے جواب آنے والے دنوں میں ہمیں مل جائیں گے۔

قائداعظم یونیورسٹی میں پورے ایک ماہ تک بغیر کسی روک ٹوک کے بلڈوزر چلائے جاتے رہے اور نہایت احتیاط اور محبت سے لگائے اور پروان چڑھائے گئے سینکڑوں درختوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔ یہ بلڈوزر یونیورسٹی سے گزرنے والی 76 میٹر چوڑی اسلام آباد مری ہائی وے کے لیے زمین تیار کر رہے تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم نے اگرچہ ان دیوہیکل مشینوں کو عارضی طور پر روک دیا ہے۔ اس کے باوجود کیمپس کی سرحدی دیوار کے دونوں جانب تعمیراتی کام انتہائی تیز رفتاری سے جاری ہے۔

بنیادی مسئلہ ناقص گورننس کا ہے اور یہ مسئلہ آس پاس کے علاقے میں آبادی میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ ایک وقت تھا جب مری روڈ پر واقع بارہ کہو نامی ایک چھوٹی سی بے رونق بستی محض چند سو افراد پر مشتمل تھی۔ چند ہی سالوں میں یہ بستی جھونپڑیوں، ٹھیلوں، دکانوں اور پلازوں پر مبنی ایک ایسے غیر منظم ہجوم کی شکل اختیار کر چکی ہے جو پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے۔ اس افراتفری کو نظم و نسق میں لانے میں ناکام ہو جانے کے بعد حکام لا تعلق ہو گئے اور یہاں جنگل کے قانون کو غالب آ جانے دیا گیا۔ یہ افراتفری مری روڈ تک پھیل چکی ہے جس کے باعث ٹریفک کو یہاں سے رینگ رینگ کر گزرنا پڑتا ہے۔

سیدھا حل تو یہ ہے کہ بستی کے اوپر سے محفوظ طریقے سے گزرنے والا ایک پل تعمیر کر دیا جائے۔ درحقیقت یہ 3.5 کلومیٹر کا منصوبہ حکومت نے 2015 میں تجویز کیا تھا۔ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے کئی سال پہلے جبکہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی جانب سے اس سال کے شروع میں منظوری حاصل کرنے کے بعد یہی اس معاملے کا سب سے سادہ اور شفاف حل ہے۔

یہ معقول منصوبہ ظاہری طور پر اس وجہ سے روک دیا گیا کیونکہ بارہ کہو میں دکانوں کے مالکان یہ نہیں چاہتے تھے۔ تاہم حقیقت صرف دکان داروں کی مخالفت تک ہی محدود نہیں ہے۔ درحقیقت قائداعظم یونیورسٹی کی زمین کو استعمال کرنے کا اصل دباؤ سی ڈی اے کی جانب سے آیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے عہدہ سنبھالتے ہی سی ڈی اے نے قائد اعظم یونیورسٹی بائی پاس کے منصوبے پر کام شروع کر دیا اور وزیر اعظم سے منظوری بھی حاصل کر لی۔

لیکن کیا سی ڈی اے نے دیانت داری سے وزیراعظم کو اس منصوبے کے نتائج اور اثرات سے آگاہ کیا؟ کیا انہیں سرکاری یونیورسٹی کی زمین کو تعلیم کے علاوہ دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے مضمرات کے بارے میں آگاہ کیا گیا؟ کیا انہیں بتایا گیا کہ جہلم میں ایسی ہی ایک کوشش کو سپریم کورٹ نے مئی 2009 میں غیر قانونی قرار دے دیا تھا؟ کیا انہیں اس منصوبے کی وجہ سے باقی تعلیمی اداروں پر پڑنے والے لینڈ مافیا کے دباؤ سے متعلق آگاہ کیا گیا تھا؟ ان سوالوں کے جواب اندر کے لوگ ہی دے سکتے ہیں۔

توقع کے عین مطابق اس بائی پاس پراجیکٹ نے آسیبوں کے ایک پورے غول کو بے قابو کر دیا ہے۔ اس علاقے میں موجود قبضہ مافیا کو خون کی بو آنا شروع ہو گئی ہے اور وہ قیاس آرائیوں کو ہوا دینے والی سودے بازیاں شروع کر چکے ہیں۔ پروین رحمٰن کے حال ہی میں رہا ہونے والے قاتلوں سمیت ہر پاکستانی اور قبضہ مافیا کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث زمین کی مانگ بہت زیادہ ہے جبکہ اس کی دستیابی بہت کم ہے اور اسی وجہ سے اس کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔

سی ڈی اے کا منصوبہ یونیورسٹی کے لیے تباہ کن ہے کیونکہ اس نے عیاری کے ساتھ یونیورسٹی کی زمین کو دو ایسے حصوں میں تقسیم کر دیا ہے جو باہمی طور پر غیر متصل ہیں اور ان کا کوئی رابطہ نہیں بنتا۔

زمینوں پر قبضہ کرنے والا مافیا بارہ کہو کے ساتھ والے حصے کو ہتھیانے کے لالچ میں ہے۔ بڑے پیمانے پر غیر تعمیر شدہ اس علاقے کو سی ڈی اے 'غیر آباد بنجر زمین' قرار دے چکی ہے۔ لیکن درحقیقت یہ زمین یونیورسٹی کے نئے شعبہ جات، ہاسٹلز، ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، جڑی بوٹیوں کے ایک باغ، نباتاتی باغ اور تجربہ گاہوں کے لیے مختص کی گئی تھی۔

اس غیر تعمیر شدہ حصے پر قبضہ کر لیا جائے گا، اس خدشے کی بہت معقول وجہ موجود ہے۔ 2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سی ڈی اے کو موجودہ حدود کی نشاندہی کرنے اور قائداعظم یونیورسٹی کی اصل حدود میں تجاوزات والے علاقوں کی نشاندہی کرنے کا حکم دیا تھا۔ مشکوک سودے بازیوں کے لیے بدنام سی ڈی اے نے اب تک اس حکم کی تعمیل نہیں کی ہے اور ممکنہ طور پر اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ ایک نیا نقشہ اس ادارے کے اندر موجود ایسے افراد کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے جو پیسے لے کر رعایتیں دیتے ہیں۔ یہ ایک برا شگون ہے۔

یہاں تک کہ صدر پاکستان عارف علوی بھی لینڈ مافیا کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ قائداعظم یونیورسٹی کے چانسلر وہی ہیں اور اسی حیثیت سے حتمی ذمہ داری نبھاتے ہوئے انہوں نے ہفتوں پہلے قائداعظم یونیورسٹی کی انتظامیہ سے وضاحت طلب کی تھی۔ تاہم صدر کے دفتر کا کہنا ہے کہ ابھی تک وضاحت موصول ہونے کا انتظار ہے۔ یہ معاملہ محض مشکوک ہی نہیں بلکہ بدبودار ہو چکا ہے۔

1967 میں قائداعظم یونیورسٹی کو 1709 ایکڑ زمین عطیہ کی گئی تھی جس میں سے اس وقت 1250 ایکڑ سے بھی کم رقبہ یونیورسٹی کے تصرف میں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یونیورسٹی کی 450 ایکڑ سے زیادہ اراضی اس وقت تجاوزات کرنے والوں کے قبضے میں ہے اور قبضہ کرنے والوں میں ایک نمایاں سیاست دان بھی شامل ہیں۔ سی ڈی اے کے تازہ اقدام کی بدولت اب مزید کئی سو ایکڑ زمین پر بھی جلد ہی قبضہ ہونے جا رہا ہے۔

بائی پاس پراجیکٹ نے ایک جانب والوں کو گہرے خدشات میں مبتلا کر دیا ہے جبکہ دوسری جانب والوں کے لیے بے حساب منافعوں کی توقعات پیدا کر دی ہیں۔ دونوں جانب زبردست قسم کا تفاوت پیدا ہو چکا ہے۔

ایک جانب عوامی بھلائی کا دفاع کرنے والے ہیں جنہوں نے یونیورسٹی کے تحفظ کا عزم کر رکھا ہے۔ ان میں قائداعظم یونیورسٹی کے طلبہ، اساتذہ، سابق طلبہ اور سول سوسائٹی کے لوگ شامل ہیں۔

یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور سنڈیکیٹ ممبران جنہوں نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر بغیر کسی وضاحت کے یونیورسٹی کے مستقبل کو خدشات سے دوچار کر دیا تھا، واضح طور پر اس سارے منظرنامے سے غائب ہیں۔ وائس چانسلر اور سنڈیکیٹ کی مدت ملازمت رواں ہفتے ختم ہو چکی ہے۔ یہ سب لوگ سبز چراگاہوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ کتنی آسانی ہے!

اس لائن کی دوسری جانب دکانوں کے مالکان، مقامی بااثر افراد اور پراپرٹی ڈیلرز کا گٹھ جوڑ ہے۔ بہت سے افراد ایسے ہیں جو اکیلے ہی یہ تینوں کردار نبھا رہے ہیں۔ چھوٹے اور بڑے تمام دکان دار فلائی اوور کی مخالفت کر رہے ہیں۔

ایک خاص حد تک ان کی مخالفت قابل فہم ہے۔ کسی بھی سرکاری محکمے سے منصفانہ معاوضے کا حصول کبھی بھی آسان نہیں ہوتا اور اس کے لیے اکثر مٹھیاں گرم کرنی پڑتی ہیں۔ علاوہ ازیں ان میں سے بیش تر یہ ظاہر نہیں کر سکتے کہ وہ اصل میں اس زمین کے مالک ہیں جس پر وہ قابض ہیں۔

فیصلہ کن مرحلہ تب آیا جب 18 نومبر کو اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں سی ڈی اے کی جانب سے ماحولیاتی تحفظ کے ادارے کے زیراہتمام ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ جہاں پاکستان میں ماحولیاتی اثرات کے جائزے اکثر محض واجبی سے ہوتے ہیں یہ ایک دم توڑ دینے والی ڈھٹائی تھی۔

اس پروجیکٹ کے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لینے کے لیے کل 19 لوگوں سے انٹرویوز کیے گئے کیونکہ یہ ایک قانونی ضرورت ہے اور تمام ہی نے یونیورسٹی کی زمین کے استعمال کی مکمل حمایت کی تاہم یہ بھی قابل ذکر ہے کہ ان میں کوئی بھی یونیورسٹی کا طالب علم، استاد یا سابق طالب علم شامل نہیں تھا۔ اگرچہ یونیورسٹی کے 300 محافظوں کی تعداد اب بھی بڑی تعداد میں شور مچانے والے ملازمین سے کہیں زیادہ تھی جسے علاقے کے پراپرٹی ڈیلرز نے بلا رکھا تھا لیکن EIA کا جعلی ہونا بے نقاب ہو گیا۔

خوش قسمتی سے پولیس کی موجودگی نے اس بات کو یقینی بنایا کہ تقریب میں کوئی زخمی نہ ہو۔ اگلے روز قائداعظم یونیورسٹی میں احتجاج شروع ہو گیا اور یونیورسٹی کو بند کر دیا گیا۔ شدت سے یونیورسٹی کا دفاع کرنے والے کہتے ہیں کہ اگر دوبارہ بلڈوزر چلائے گئے تو وہ ان کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے۔

کیا قانون کی حکمرانی قائم ہو پائے گی؟ کیا عوامی املاک کا تحفظ کیا جا سکے گا؟ کیا پاکستان کے لینڈ مافیا کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے؟ حکومت کے اندر اور باہر موجود زمینوں پر قبضہ کرنے والے لوگ جلد بازی میں منافع کمانے کے چکر میں عوامی بھلائی کی قیمت پر اپنی ذاتی دولت میں اضافہ کرتے جاتے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کی ضرورت ہے، اگر اس فیصلے پر عمل درآمد ہوا تو قوم کی افسردگی مزید بڑھ جائے گی۔




ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔

مصنف اسلام آباد میں مقیم ایک ماہرِ طبیعیات اور لکھاری ہیں۔