الٹی ہو گئیں سب تدبیریں

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

اس شعر کے مصداق اب جب کوئی تدبیر باقی نہ رہی، کوئی حربہ کام نہ آیا تو اب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے "اسمبلیاں تحلیل" کرنے کا اپنا آخری کارڈ پھینک دیا تاہم یہ اسمبلیاں تحلیل ہوں گی یا نہیں، اس کا حتمی جواب تو خود عمران خان بھی نہیں دے پار رہے۔ اعلان تو وہ تب ہی کر چکے تھے جب لانگ مارچ کو ختم کرنے کے لئے فُل سٹاپ لگانا تھا تاہم ان کے اعلان کے بعد سے ہی پنجاب اسمبلی میں موجود پارٹی اراکین اور اتحادی جماعتوں کی ارکین میں بے چینی اور انتشار کی لہر دوڑ گئی۔

آج ایک اور اعلان کا دن ہے اور عمران خان نے عوام کو شام 6 بجے کی کال دے رکھی ہے لیکن صورتحال ابھی تک مبہم  ہے۔  بے سُود ملاقاتوں کا سلسلہ ابھی تک جاری  و ساری ہے۔کبھی وزیراعلیٰ پرویز الٰہی اور ان کے صاحبزادے مونس الٰہی  پنجاب کی "پکی" وزارت اعلٰی کے لئے عمران خان کے پاس جاپہنچتے ہیں تو کبھی عمران خان فیس سیونگ کے لئے "میرے نال مُک مُکا کر لو" جیسے پیغامات چھوٹی چھوٹی چِٹھیوں میں بند کر کے "ڈاکیوں " کے ہاتھ حکومت کو بھیجوا رہے ہیں لیکن سب بے سُود۔

اب آج کے جلسے میں عمران خان صاحب نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تاریخ بتانی ہے۔ معاملہ پہلے ہی خاصی طوالت اختیار  کر چکا ہے اس کے باوجود بھی عوام کو کیا ملے گا؟ ایک اور "تاریخ"۔ حکومتی اراکین تو تیار بیٹھے ہیں کہ بھائی مہربانی کرو اور آج ہی توڑ دو لیکن خان صاحب تو بہت پکے کھلاڑی ہیں "نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیواں گے" کے مصداق انہوں نے حکومت کو بھی خوب تِگنی کا ناچ نچایا ہوا ہے۔لیکن کب تک؟ کبھی نہ کبھی تو اس شطرنج کی بساط پر کسی کو  مات کاسامنا کرنا ہی ہو گا۔ اب کھیل کے آخری مرحلے میں دونوں جانب سے خُوب زور آزمائی ہو رہی ہے۔ لیکن ملک کی سیاسی صورتحال کس سمت میں جائے گی اس کے بارے میں تو حتمی طور پر تو کچھ کہا نہیں جاسکتا۔

ابھی تو ان کے دُکھڑے ہی ختم نہیں ہوئے۔ گزشتہ رات بھی وکلا کنونشن سے ویڈیو لنک پر خطاب اور تجزیہ نگاروں سے ملاقات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’میں بہ طور وزیر اعظم بے بس تھا۔فیصلے باجوہ صاحب کرتے تھے۔‘ انھوں نے کہا نیب کیس میچور تھے لیکن پیچھے سے نیب کو اجازت نہیں ملتی تھی۔ باجوہ صاحب فیصلہ کرتے تھے کس کو اندر کرنا ہے کس کو باہر۔ انھوں ںے کہا جنرل باجوہ اجازت نہیں دیتے تھے۔ وہ فیصلہ کرتے تھے کہ نیب نے کسے کتنا دبانا ہے۔

سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جب بطور وزیراعظم پاکستان آپ اتنے بے بس تھے کہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے تھے تو اب آپ کے "اسمبلیاں تحلیل کرنے" کے فیصلے پہ بھلا کوئی سر تسلیم خم کیوں کرے گا؟ اب تو آپ صرف ایک پارٹی سربراہ ہیں جو "احتساب" کا نعرہ لگاتے لگاتے اپنے دامن میں بھی مقدمات کا ڈھیر لئے پھر رہے ہیں۔ سب کو "چور چور" کہنے والا خود بھی اُسی ٹولے کا حصہ بن گیا ہے۔

دوسری جانب رات گئے مونس الہٰی اور حسین الہٰی نے عمران خان سے ملاقات کی۔ ابھی تک تو سب اس انتظار میں تھے کہ "اُونٹ کس کروٹ بیٹھے گا" اب لگتا ان کا اُونٹ ہی ناراض ہو گیا ہے۔ آج توقع کی جارہی ہے کہ پرویز الٰہی بھی عمران خان سے ملاقات کریں گے لیکن فائنل راونڈ میں کون کس کو "ناک آوٹ" کرے گا یہ تو شام میں پتا چلے گا۔ اب تو تحریک انصاف کے "طوطے" کی جان ق لیگ کے ہاتھ میں آگئی ہے۔

ملک کے بڑے بڑے نامور صحافی و تجزیہ نگاروں کا بھی یہی خیال ہے کہ اس بار بھی عمران خان کے اعلان میں کچھ بڑا نہیں ہو گا۔ ان کا سرپرئز "بوگس" ہی ہو گا کیونکہ اس معاملے پر  ق لیگ کے ساتھ بحث اب باقاعدہ جھگڑے کی صورت اختیار کر چکی ہے اور ق لیگ اپنی "وِکٹیں" اُٹھا کر تحریک انصاف کو خیرباد کہنے ہی والی ہے۔

اس کے باوجود بھی  اگر عمران خان نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی ہانڈی چڑھا دی تو  اس میں "حسبِ ضرورت" گُنجائش ضرور ڈالیں گے۔تاہم لگتا نہیں ہے کہ ان کی اسمبلیوں کی ہانڈی کسی طورچڑھے گی اور  چار و ناچار عمران خان کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے سے بھی یوٹرن لینا ہی پڑے گا۔