ایسا نہیں کہ ہم نے 16 دسمبر سے کچھ نہیں سیکھا!

ایسا نہیں کہ ہم نے 16 دسمبر سے کچھ نہیں سیکھا!
دسمبر 16 پاکستانی تاریخ کا منحوس ترین دن۔ کم بخت ہر سال آ جاتا ہے ہمیں ستانے۔ پر ہم بھی بہت ڈھیٹ ہیں۔ کب کا بھلا دیا کہ اسی دن 2014 میں ٹی ٹی پی کے درندوں نے آرمی پبلک سکول پشاور میں 140 معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ اسی دن 1971 میں ہم نے اپنا آدھے سے زیادہ بدن کٹوا لیا۔ پاکستان دو ٹکڑے ہوا جسے ہم سقوط ڈھاکہ کے نام سے جانتے ہیں۔

لیکن جن پر یہ قیامت ٹوٹی وہ کہاں بھلا سکتے ہیں۔ کیسے بھول سکتی ہے وہ ماں جس نے بہت ارمان سے اپنی بیٹی کو تیار کرکے سکول بھیجا اور چھٹی کے وقت خون میں لت پت اس کی لاش وصول کی۔ قاتل ہٹلر، ایریل شیرون، فرعون، چنگیز خان یا ہلاکو خان یا وہ بنگالی نہ تھے جنہیں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی پاداش میں مثال عبرت بنا دیا گیا ہو۔ قاتل تو اپنے بچے تھے جنہیں ہم نے پال پوس کر جوان کیا۔ وہ جو اپنے آپ کو سچا مسلمان اور شریعت محمدیﷺ کا واحد وارث سمجھتے ہیں۔ باقی ان کے نزدیک کافر یا زندیق!

پاک فوج نے جماعت اسلامی کے غنڈوں کے ساتھ مل کر لاکھوں بنگالیوں کا قتل عام کیا۔ اتنی ہی تعداد میں ان کی عورتوں کی آبرو لوٹی انہیں مال غنیمت سمجھ کر۔ آزاد محققین کے مطابق 3 سے 5 لاکھ بنگالیوں کا قتل عام ہوا۔ 2 سے 4 لاکھ عورتوں کی عزت لوٹی گئی۔ 3 کروڑ کے قریب بنگالی بے گھر ہوئے۔ ایک کروڑ بنگالیوں نے بھارت میں پناہ لی۔ بنگالیوں اور اردو بولنے والے بہاریوں کے مابین نسلی فسادات میں ڈیڑھ لاکھ لوگ اس کے علاوہ مرے۔ لیکن یہ کہنا غلط کہ اس سانحے سے ہم نہ کچھ نہ سیکھا۔ سیکھا بھئی بہت کچھ سیکھا۔ کچھ یہاں ذکر کر دیتے ہیں۔

سقوط ڈھاکہ سیاست دانوں کی حماقت! فوج بالکل معصوم تھی۔ حالانکہ 1958 سے لے کر 1973 تک فوج ہی مارشل لا کی چھتر چھایا میں ملک کو چلا رہی تھی۔ یہ سبق ہم نے کچھ ہی دن پہلے باجوہ صاحب سے سیکھا جب وہ بہت ہی ٹائر (tire) ہونے کے بعد آخرکار 30 نومبر کو ریٹائر ہو گئے۔

2۔ بنگالی بلوچیوں اور پشتونوں کی طرح غدار تھے۔ خس کم جہاں پاک۔ اچھا ہوا جان چھوٹی!

3۔ عفوودرگزر اللہ تعالی کا پسندیدہ فعل ہے۔ برسوں ہم نے ضرور نعرہ لگایا کہ بنگلہ دیش نا منظور مگر جلد ہی اسے گلے سے بھی لگا لیا یہ کہہ کر کہ دیکھو جی ہمارے طفیل دنیا کے نقشے پر ایک اور اسلامی مملکت ظہور پذیر ہوئی! یہ بنگالی انتہائی طوطا چشم ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہمارے مشکور ہوں، آئے دن مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم ان کی نسل کشی ایسے گھناؤنے جرم کی معافی مانگیں۔ اجی معافی کس بات کی! ہم تو امت مسلمہ پر مزید احسانات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ چلو بنگالی احسان فراموش نکلے مگر پشتون، سندھی اور بلوچی ضرور احسان مند ہوں گے جب ہم امت مسلمہ کو مزید تین ملک تحفے کی صورت میں پارسل کریں گے۔

4۔ حالانکہ ہمارے ارسطو سمان طالبان کے پتا جی جنرل اسد درانی یہ پہلے ہی فرما چکے تھے کہ آرمی پبلک سکول میں جو کچھ ہوا اسے جہاد کا فلسفہ عظیم 'گیہوں کے ساتھ گُھن کی لازمی پسائی' سمجھا جائے۔ اور ان سے پہلے ہمارے جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن ہمیں یہ سمجھا چکے تھے کہ نہ صرف حکیم اللہ محسود (ٹی ٹی پی کا امیر جو امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا) بلکہ ہر وہ کتا شہید ہے جسے امریکیوں نے مارا۔ سبحان اللہ! اس کے باوجود ہم نے سب بچوں کو 'شہادت' کی سند عطا کی اور زخمی بچوں اور ان کے والدین کو مفت سعودی عرب کی سیر کروائی اور عمرہ ایسی سعادت سے بھی نوازا۔ اتنا احساس اور مداوا اور کون کر سکتا ہے؟ لیکن یہ بھی بنگالیوں کی طرح ناشکرے نکلے۔

حضور اب تو حالات نیا پلٹا کھا چکے ہیں۔ گوٹی الٹ گئی ہے۔ کل کے دہشت گرد طالبان آج افغانستان پر حکومت کر رہے ہیں۔ مولوی اب کھل کر جمعے کے خطبوں میں بتلا رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی کوئی جرائم پیشہ گروہ نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے، تحریک ہے جسے ڈرون اور ڈیزی کٹر ٹائپ خطرناک بم نہ ختم کر سکے۔ میرا سٹڈی روم لاؤڈ سپیکر کے بدولت ہر مولوی کا پڑوسی بن چکا ہے۔ آج ان میں سے کوئی سمجھا رہا تھا کہ جو پشاور میں ہوا، اسے جنگِ جمل سمجھا جائے۔ مرنے اور مارنے والے دونوں شہید۔ بات کتے بلے یا RAW تک پہنچنے سے پہلے ہی نمٹا دی اس دانشور مولوی نے۔ ان حالات میں کیوں نہ ٹی ٹی پی اور افغانستان جو کہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، فخر کریں کہ اب تو دو نہیں تین عالمی طاقتوں کو ہم ناک رگڑوا چکے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی واحد کامیابی یہی تھی کہ اس نے افغانستان میں جو سپر پاورز کا قبرستان تھا، اس کے رقبے میں مزید اضافہ کیا۔

اب امریکہ اور اس کے حواری افغانستان سے دم دبا کر بھاگ چکے۔ یہ لوگ تو پڑوسی نہیں افغانستان کے ہماری طرح۔ اور ہم ان کے سب سے کمزور چمچے تھے۔ لہٰذا طالبان اور ٹی ٹی پی بالکل درست اگر ہم پر اعتبار نہ کریں اور ہمیں جانیں آستین کا سانپ۔ اب وہ ہم سے بدلہ لے رہے ہیں۔ خود کش حملے، گلے کاٹ کر درختوں سے لٹکانا، بارڈر سے گولہ باری اور معصوم شہریوں کا قتل، زنا اور قتل کی سزائیں عوامی مقامات پر، دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنا۔۔ماضی کی ہر وہ چیز جس کی وجہ سے 20 سال کے لیے وار آن ٹیرر بپا کی گئی، مزید توانائی کے ساتھ واپس لوٹ چکی ہیں اور ہم، امریکہ اور دیگر طاقتیں تھک چکی ہیں۔ رہی سہی طاقت کا مظاہرہ ہم بلوچستان میں صرف کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ تمام برائی کی جڑ بھارت اور اس کی بہن را یعنی RAW ہے۔

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔